حافظ محمد ہاشم قادری حج بیت اللہ کی زیارت

اللہ کی رحمت ہے اُن لوگوں پر جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر خانۂ کعبہ و مسجد نبوی اورمدینہ منورہ کے لئے توفیق ِ رفیق عطا فرمائی۔ یہ بڑی قسمت اور نصیب کی بات ہے۔ حج اسلام کے دوسرے ارکان کی طرح ایک اہم رُکن ہے جو ۹ ؁ ہجری میں فرض ہوا ۔جو اس کی فرضیت کا منکر ہو کافر ہے۔ پوری عمر میں صرف ایک بار حج فرض ہے۔ اس کے علاوہ نفل ہے۔ حج کا مطلب قصد اور زیارت ہے مگر شریعت کی اصطلاح میںحج سے مراد وہ عبادت ہے جومسلمان بیت اللہ اور میدان عرفات میں پہنچ کر مخصوص انداز میں کرتا ہے۔ چونکہ حج میں مسلمان بیت اللہ کی زیارت کے ارادہ سے جاتا ہے اس لئے اسے حج کہا جاتا ہے۔ حج کی فرضیت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: بلا شبہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لئے بنایا گیا جو مکہ میں ہے، بڑی برکت والا اور سب جہانوں کے لئے ہدایت کا مرکز ہے۔ اس میں کھلی نشانیاں ہیں، مقامِ ابراہیم ہے اور جو داخل ہوا اس میں وہ امن پا گیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر اس گھر کا حج فرض کر دیا ہے جو وہاں پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں اور جو کوئی اس کا انکار کرے تو بے شک اللہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔ (القرآن، سورۃ آل عمران، آیت ۹۷)۔اس آیت کریمہ سے حج کی فرضیت کا حکم ظاہر ہوتا ہے اور اس کا انکار کرنے والا اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ احادیث مبارکہ میں حج بیت اللہ کی اہمیت اور اس کی فضیلت کثرت سے بیان ہوئی ہیں۔ حضرت ابن عمررضی اللہ عنہما حضور ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ (۱) اس بات کی گواہی دیناکہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد رسول اللہ ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں(۲) نماز پڑھنا (۳) زکوٰۃ دینا(۴) بیت اللہ کا حج کرنا (۵) اور رمضان کے روزے رکھنا۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے کہا کہ حضور ﷺ نے فرمایا :جو شخص حج یا عمرہ یا جہاد کے ارادے سے نکلا اور پھر راستے میں مر گیا تواللہ تعالیٰ اس کے حق میں ہمیشہ مجاہد، حاجی اور عمرہ کرنے والے کا ثواب لکھ دیتا ہے۔(بیہقی، مشکوٰۃ) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے کہا رسول کریم ﷺ نے فرمایا یعنی جو شخص حج کا ارادہ کرے تو پھر جلد اس کو پورا کرے۔(ابو داؤد، دارمی، مشکوٰۃ )