مبصر : وہاب عندلیب
ڈائریکٹر آف اسٹڈیز خواجہ ایجوکیشن سوسائٹی‘ گلبرگہ و سابق صدر نشین کرناٹکا اردو اکیڈیمی، بنگلور
اردو کے معروف ادیب و خاکہ نگار حافظ محمد جیلانی‘ شہ نور ضلع دھارواڑ (کرناٹک) میں پیدا ہوئے۔ مگر انہوں نے اپنے تعلیمی مدارج کرناٹک کے علاوہ عروس البلاد، ممبئی اور حیدرآباد (دکن) میں طئے کیے۔ انہوں نے دارالعلوم کاورم پیٹ، ضلع محبوب نگر (تلنگانہ) سے قرآن مجید حفظ کیا اور جامعہ نظامیہ حیدرآباد سے سند قرأت سیدنا امام عاصم کوفیؒ حاصل کی۔ وہ جامعہ اردو علیگڑھ کے ادیب کامل ہیں، بعد ازاں انہوں نے میسور یونیورسٹی سے اردو میں پوسٹ گریجویشن کیا۔ اس طرح انہوں نے کرناٹک، تلنگانہ، مہاراشٹرا اور اترپردیش کے تعلیمی اداروں سے فیضان حاصل کیا۔ اُن کی تدریسی ملازمت کا آغاز 1964ء میں ارسیکرہ (ضلع ہاسن، کرناٹک) جونیرکالج سے ہوا۔ انہوں نے ارسیکرہ کے بعد ہلے بیڑ بیلور کے جونیئر کالج میں بھی درس و تدریس کے فرائض انجام دیئے، البتہ ملازمت کے آخری سات (7) سال بنگاراپیٹ (ضلع کولار۔ کرناٹک) میں بحیثیت اردو لکچرر کام کیا اور وہیں سے جون 2000ء میں وظیفہ حسنِ خدمت پر سبکدوش ہوئے۔ بالآخر کرناٹک میں لگ بھگ چالیس (40) سالہ قیام کے بعد حیدرآباد منتقل ہوئے۔ گو، شہ نور اُن کا آبائی وطن ہے مگر اُن کے دادا جان نے بعد میں حیدرآباد کو اپنا مسکن بنالیا تھا۔
حافظ محمد جیلانی کو شعر و ادب سے دلچسپی، زمانہ طالب علمی کے دور ہی سے رہی ہے۔ انہیں قد آور ادیبوں اور شاعروں سے ملاقات اور اُن کے آٹو گراف کاحصول جنون کے حد تک تھا۔ ’’گلستانِ ادب‘‘ میں شامل اُن کے مضمون ’’نقوشِ ماضی‘‘ اور کتاب کے آخر میں دیئے گئے آٹو گراف کے عکس سے بھی اُس کی تصدیق ہوتی ہے۔ مطالعہ کا ذوق بھی انہیں ابتدا ہی سے تھا۔ وہ دارالعلوم‘ کاورم پیٹ کے کتب خانے اور آصفیہ لائبریری حیدرآباد سے بہت زیادہ مستفید ہوئے۔ حافظ محمد جیلانی ملازمت کے دوران جہاں بھی رہے نہایت فرض شناسی سے معلمانہ خدمت انجام دی، ادبی انجمنیں قائم کیں اور شعر و ادب کی محفلیں سجائیں۔ اُنہوں نے خود لکھا اور لکھنے والوں کا حوصلہ بڑھایا۔ تقریباً پانچ دہوں سے اُن کے مضامین بنگلور کے اخبارات، روزنامہ ’’سالار‘‘ ، ’’سیاست‘‘، ’’آزاد‘‘، ’’علمبردار‘‘، ’’کاروان‘‘، ’’پاسبان‘‘ اور بمبئی کے ’’انقلاب‘‘ کے علاوہ حیدرآباد کے اخبارات ’’منصف‘‘، ’’سیاست‘‘ ، ’’رہنمائے دکن‘‘، ’’ہمارا عوام‘‘ اور ہفت روزہ ’’گواہ‘‘ میں شائع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ادبی رسائل مثلاً فروغ اردو‘ لکھنو، ’’سب رس‘‘ حیدرآباد، وقار ہند، حیدرآباد، بین الاقوامی ’’سیاست‘‘ حیدرآباد کے علاوہ کئی سونیئروں اور مجلوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ روزنامہ ’’سالار‘‘ بنگلور سے اُن کی دیرینہ وابستگی ہے۔ اُس کے پہلے شمارہ سے تاحال وہ کسی نہ کسی طرح سے منسلک ہیں۔ اُسی اخبار نے اُن کے قلم کو روانی عطا کی اور اُن کی ادبی پہچان کا ذریعہ بنا۔ اس اخبار کے لیے وہ ایک طنزیہ کالم ’’دیکھتا چلاگیا‘‘ بھی کچھ عرصہ تک لکھتے رہے۔ 10؍مارچ 1990ء کو ’’سالار‘‘ کی سلور جوبلی کے موقع پر شائع شدہ اُن کی تحریر بعنوان ’’دس پیسے سے تین سو پیسے تک کا سفر‘‘ بے حد پسند کی گئی اور وہی تحریر ’’سالار‘‘ کے گولڈن جوبلی کے موقع پر (5؍جنوری 2015ء) شائع شدہ خصوصی اشاعت میں بھی شریک ہے۔ اُن کے مضامین کا پہلا مجموعہ ’’ارمغانِ ادب‘‘ 2012ء میں شائع ہوکر قارئین ادب سے پذیرائی حاصل کرچکا ہے۔
میرے پیش نظر اُن کے مضامین کا دوسرا مجموعہ ’’گلستانِ ادب‘‘ ہے جس کی اشاعت 2014ء میں عمل میں آئی ہے۔ کتاب کے تین ابواب ہیں۔ پہلے باب ’’نقوشِ ادب‘‘ میں تحقیقی و تنقیدی مضامین تجزیے، تبصرے، خاکے، مرقع و انشائیے شامل ہیں۔ دوسرا باب معروف محقق و ناقد جناب سید امام الدین سعید کے مضامین اور تیسرا باب زعمائے ادب کے مکتوباتِ عالیہ کا احاطہ کرتا ہے۔ دراصل پہلا باب ہی مصنف کی ذہنی اُپچ اور تخلیقی اظہار کا عمدہ نمونہ ہے۔
تبصرہ نگاری، انشائیہ نگاری اور خاکہ نویسی سے مصنف کو خصوصی شغف ہے۔ ضیامیر کی کتاب ’’مزامیر‘‘، محمد جمیل احمد صدیقی کی کتاب ’’الانوار‘‘، گیان چند جین کی تصنیف ’’ایک بھاشا دو لکھاوٹ، دو ادب‘‘، خشونت سنگھ کے ناول ’’دی کمپنی آف وومین‘‘ اور حافظؔ کرناٹکی کی رباعیات پر اُن کے تبصروں اور تنقیدی رویوں سے مصنف کی دروں بینی کا اظہار ہوتا ہے۔ انہوں نے ضیامیر کی ’’مزامیر‘‘ کو ادبی جلترنگ اور اردو کی مہذب تنقید کا اعلیٰ نمونہ قرار دیا ہے۔ محمد جمیل احمد صدیقی کی تصنیف ’’الانوار‘‘ پر رائے زنی کی ہے کہ اس میں شامل مضامین خود آگہی و خدا آگہی کی تعلیمات کا مرقع ہیں‘‘۔ مجتبیٰ حسین کے فن کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
’’دل کو چھونے والی شاعری کی طرح مجتبیٰ حسین کا فن بھی مسرت سے شروع ہوکر بصیرت پر ختم ہوتا ہے‘‘۔
حافظ محمد جیلانی کے مطابق گیان چند جین کی تصنیف ’’ایک بھاشا دو لکھاوٹ‘ دو ادب‘‘ ہندو مسلم افتراق کو ہوا دینے والی کتاب ہے۔ انگریزی ادیب خشونت سنگھ کے ناول کے بارے میں اُن کی رائے ہے کہ وہ جنسی تلذو و جذبات سے بھرپور ہونے کے علاوہ مسلم فرقے کے لیے دل آزاری کا باعث ہے۔ حافظؔ کرناٹکی کی رباعیات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’رباعی کا چوتھا مصرع مقصدی اور نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ رباعی کی آن بان اور عظمت چوتھے مصرعے پر منحصر ہوتی ہے اگر یہ نہ ہو تو اسے رباعی کا سقم قرار دیا جائے گا۔ حافظؔ کرناٹکی کی بیشتر رباعیوں میں یہ سقم موجود ہے‘‘۔
حافظ محمد جیلانی کو خاکہ نگاری سے خاص رغبت ہے۔ انہوں نے دکن کے ادیبوں اور شاعروں کے علاوہ بزرگوں اور ہمعصروں کے خاکے لکھے ہیں۔ انہیں فن خاکہ نگاری کے لوازم سے کما حقہ‘ آگہی ہے۔ محمد منظور احمد کی تصنیف ’’تیر و جگر کی آزمائش‘‘ میں شامل خاکے ’’بدھی‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے خاکہ نگاری کا اس طرح محاکمہ کیا ہے ’’صاحبِ خاکہ نہ فرشتہ ہوتا ہے نہ شیطان۔ وہ انسان ہی ہوتا ہے۔ اس لیے اُسے اسی روپ میں پیش کرنا چاہیے‘‘۔ اپنی پہلی کتاب ’’ارمغانِ ادب‘‘ کے ایک مضمون ’’مجتبیٰ حسین آئینہ خاکہ نگاری میں‘‘ بھی رقمطراز ہیں۔ ’’خاکہ نگار کا کام یہ ہوتاہے کہ وہ ہمدردانہ طور پر غیرجانبداری کے ساتھ صاحب خاکہ کی شخصیت کو پیش کردے تاکہ خاکہ، قصیدہ یا ایک رخی تصویر نہ ہو۔ ان دو اقتباسات سے واضح ہے کہ خاکہ نگار کو خاکہ نگاری کے فنی رموز سے شناسائی ہے۔ ’’مزامیر‘‘ میں شامل ضیامیر کے تحریر کردہ خاکے ’’علی حفیظ ناٹ آوٹ‘‘ کے بارے میں کہا ہے کہ ’’اس بہترین خاکے کو ہم ادب عالیہ میں شمار کرسکتے ہیں اور وہ ایک ماسٹر پیس خاکہ ہے۔ اس کے برعکس محمد منظور احمد کے تحریر کردہ خاکے ’’بدھی‘‘ کو سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ انہیں اس رواں دواں تحریر میں ادق الفاظ کی شمولیت اور ناصحانہ طرز کھٹکتا ہے۔
حافظ محمد جیلانی نے اپنے خاندانی افراد پر بھی خاکے لکھے ہیں۔ اپنے فرزند ’’محمد اشرف جیلانی ایک مثالی شخصیت‘‘ ان کی پہلی کتاب ’’ارمغانِ ادب‘‘ میں شامل ہے۔ دوسرا خاکہ ’’ہاسن کے مرد آہن شریف صاحب‘‘ اپنے خسر محترم پر تحریر کردہ ہے۔ دونوں خاکے دیدہ ہیں‘ شنیدہ نہیں۔ شخصی قربت کے باعث ان میں حقیقت بیانی ہے۔ اس کتاب میں شامل اُن کا ایک اور خاکہ ’’ضمیر عاقل شاہی۔ کچھ یادیں کچھ آنسو‘‘ بھی متاثر کن ہے۔ ان دو خاکوں کے علاوہ تمام خاکے اسی طرح کے تاثراتی خاکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے دیگر مضامین ’’قمرالدین قمرؔ کا ادبی مقام‘‘، ’’محمد مصلح الدین احمد جاوید‘‘ تبصراتی و تاثراتی ہیں جبکہ مظلوم کولاری‘‘ کا شمار انٹرویو میں ہوگا۔
مجتبیٰ حسین، حافظ محمد جیلانی کے پسندیدہ خاکہ نگار ہیں۔ ان کی دیگر پسندیدہ ادبی شخصیتوں میں محمود ایازؔ، ڈاکٹر سید مصطفیٰ کمال، ڈاکٹر مجیدبیدار، حضرت مضطر مجازؔ، سید مبارز الدین رفعت، سلیمان خطیبؔ، سید امام الدین سعید، مفتی خلیل احمد، مفتی سید صادق محی الدین اور مولانا فصیح الدین نظامی شامل ہیں۔
حافظ محمد جیلانی کی تحریروں میں مقصدیت کا غلبہ ہے۔ ’’گفتار مصنف‘‘ کے ذریعے انہوں نے یہ برملا اظہار کیا ہے۔
’’مصنف کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے قلم کا اس طرح استعمال کرے کہ اس سے مخلوق کو فوائد حاصل ہوں‘‘۔
انہوں نے مقصدی تحریر کو عبادت کے زمرے میں شامل کیا ہے۔ جہاں تک مصنف کے طرز نگارش کا تعلق ہے وہ سادہ اور پُرکار ہے۔ تحریروں میں سلاست اور روانی پائی جاتی ہے تاہم لفظیات اور معنوی سطح پر مزید ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ اس کتاب کی اوراق گردانی سے مصنف کا جو شخصی خاکہ ابھرتا ہے وہ ایک نہایت شریف انسان کا ہے جس کی تحریریں اسلامی افکار، اخلاقی شعائر اور اردو دوستوں سے بے پناہ چاہت کا احاطہ کرتی ہیں۔
مجھے امید ہے 224صفحات پر محیط ’’گلستانِ ادب‘‘ اہل علم و ادب کی توجہ مبذول کرنے میں کامیاب ہوگی۔ اس کتاب کو آپ حیدرآباد میں دکن ٹریڈرس، مغلپورہ سے بنگلور میں روؤزنامہ ’’سالار‘‘ کے دفتر کے علاوہ حیاء شوروم، فریزر ٹاون سے 40فیصد ڈسکاونٹ کے ساتھ حاصل کرسکتے ہیں۔ جبکہ اس کی قیمت 250/- روپئے ہے۔