حاسدوں کی سیاست ۔ پارٹیوں کو خطرہ

 

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
جمہوریت میں عوام کے ووٹ لے کر جب کوئی لیڈر اس ووٹ کے تقدس کو پامال کرتا ہے تو پھر اس کا سیاسی کردار مشکوک ہوجاتا ہے ۔ پھر آئندہ انتخابات کی تیاری کرتے ہوئے سیاسی قائدین ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنا شروع کرتے ہیں اور پارٹی سے انحراف کر کے دوسری پارٹیوں میں شامل ہوجاتے ہیں ۔ اب انتخابی ماحول بن رہا ہے ۔ یہ انتخابی مہم لمبی چلے گی ۔ تلنگانہ تلگو دیشم لیڈر ریونت ریڈی کے کانگریس میں شامل ہونے کی خبروں کے درمیان کئی قائدین کی دل بدلی کی اطلاعات زور پکڑ رہی ہیں تو پھر اوپر سے لے کر نیچے تک اس ماحول کے اثرات دکھائی دیں گے ۔ ہر کوئی اپنے اپنے طبلے سارنگیاں لے کر میدان میں آجائیں گے وہ اودھم مچے گا کہ پھر اس شور شرابے میں سب کچھ ہوگا مگر عوام سے وعدے غیر اہم ہوجائیں گے ۔ منشور نامی کوئی شئے سامنے آئے گی تو بھی اس میں بڑے بڑے دعوے اور بلند بانگ باتیں سننے کو ملیں گی ۔ جلسوں میں ایک دوسرے کی درگت بنائی جائے گی یوں الیکشن کا ماحول پروان چڑھے گا ۔ لیڈروں کی سودے بازی اور ووٹ خریدنے کے کلچر کو پوری شدت سے ہوا دی جائے گی ۔ سیاسی قائدین کی بے وفائیوں کی ایک بڑی تاریخ ہے ۔ کانگریس کو انحراف پسند لیڈروں کا تلخ تجربہ ہے اب تلگو دیشم کو اس تجربہ سے دوچار ہونا پڑرہا ہے ۔ تلنگانہ میں تلگو دیشم چھوڑ کر کانگریس میں شامل ہورہے ہیں تو آندھرا پردیش میں وائی ایس آر کانگریس ترک کر کے تلگو دیشم میں شامل ہونے والے قائدین کا سلسلہ جاری ہے ۔ آندھرا پردیش کی تقسیم کا سب سے بڑا نقصان تلگو دیشم کو ہوا ہے ۔ اس پارٹی کو تلگو فلموں کے مشہور اداکار این ٹی راما راؤ نے شروع کیا تھا ۔ جنہوں نے دہلی میں اقتدار کی راہ داریوں میں تلگو عوام کا سر فخر سے بلند کردیا تھا ۔ این ٹی راما راؤ نے 80 کے اوائل میں تلگو دیشم کو تاریخی کامیابی دلائی تھی ۔ مخالف کانگریس طاقت بن کر ابھرنے والی تلگو دیشم کو ایک موقع پر ہندوستانی سیاسی تاریخ میں اہم رول ادا کرنے کی ضرورت آں پڑی تھی ۔ مرکز میں اقتدار کی مرکزیت کے خلاف تلگو دیشم نے مورچہ سنبھالا تھا اور ملک میں وفاقی طاقتوں کے اندر حوصلہ پیدا کرنے کا بھی تلگو دیشم ہی ایک رول ماڈل بن گئی تھی ۔ این ٹی راما راؤ کے بعد ان کے داماد چندرا بابو نائیڈو نے مرکزی سطح پر معاشی اصلاحات کی پہلی لہر میں اپنا کردار ادا کیا تھا ۔ عالمی بینک نے بھی انہیں اصلاحات کے عمل میں قائدانہ رول ادا کرنے پر ستائش کی تھی لیکن بدبختی سے یہ پارٹی اچانک فرقہ پرستوں کی چوکھٹ پر بوسہ دینا شروع کیا اور اقلیتوں کی محبت سے دور ہونے لگی ۔ ایک دہے طویل سیاسی انحطاط کے بعد پارٹی کو چند اہم سبق ملے ہیں اب اس پارٹی کے قائدین انحراف کے ذریعہ کانگریس کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں ۔ لیکن فی الحال کانگریس اور تلگو دیشم کے لیے ایک الجھن زدہ سیاسی فضاء پائی جاتی ہے کیوں کہ تلنگانہ کو اس وقت حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کا مضبوط گڑھ تصور کرلیا گیا ہے ۔

حالیہ سنگارینی کالریز یونین انتخابات میں ٹی آر ایس حامی یونین کی کامیابی کے بعد ٹی آر ایس کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں ۔ 2019 کے انتخابات کے لیے یہ کامیابی ٹی آر ایس کے لیے ایک بڑا سیاسی فیصلہ ہے ۔ اس کامیابی کے پیش نظر ہوسکتا ہے کہ کانگریس کو دیگر پارٹیوں کے اہم قائدین کو ترغیب دے کر ایک مہا گٹھ بندھن کی تیاری کرنے کا موقع مل جائے ۔ بی جے پی کا اس ریاست میں کوئی وجود ہوگا یا نہیں وقت ہی بتائے گا ۔ ٹی آر ایس ایک اچھوت پارٹی بن رہی ہے تو کانگریس کو اس ریاست کے عوام قبول کرنے تیار دکھائی نہیں دیتے ۔ اب رہا تلنگانہ تلگو دیشم کا تو یہ پارٹی داخلی طور پر کمزور ہوتے جارہی ہے ۔ تلنگانہ کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ابھی غیر واضح ہے ۔ کانگریس کو اگر تلنگانہ کی سیاست کا اونٹ سمجھا جائے تو اس میں شامل ہونے کی تیاری کرنے والوں کے لیے اس کی سواری اونٹ کی سواری کے مانند ہوگی ۔ اونٹ کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی ۔ اس لیے جب وہ کھڑا ہوتا ہے تو ایسے جھکولے کھاتا ہے کہ اس پر بیٹھنے والا ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں وہ گر ہی نہ جائے اور جب وہ بیٹھتا ہے تو کبھی دائیں جھکتا ہے اور کبھی بائیں ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ دائیں کروٹ بیٹھے گا یا بائیں کروٹ لے گا ۔ تلنگانہ کی سیاست میں جب ایسی ہی صورتحال پیدا ہوتے دکھائی دے رہی ہے تو یہ سیاست کس کو کہاں لے جائے گی یہ وقت ہی بتائے گا ۔ عوام اس چشم تصور سے دیکھ رہے ہیں کہ اس بار انتخابات مسائل کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک دوسرے پر سنگین الزامات اور پارٹیاں چھوڑ کر جانے والوں پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے فقرے کسنے میں گذر جائیں گے خود تلگو دیشم کی کمزوری بھی اسی زمرے میں آتی ہے ۔ مگر لگتا نہیں کہ اس بنیاد پر کانگریس کو کوئی سیاسی فائدہ ہوگا ۔ حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کو بھی داخلی طور پر حکمرانی کے کئی مسائل ہیں ۔ جی ایس ٹی نے اس پارٹی کے عزائم اور حوصلوں پر کاری ضرب پہونچائی ہے کیوں کہ جی ایس ٹی کی وجہ سے اس کی آمدنی متاثر ہوئی ہے جب کسی ریاست کے سرکاری خزانے میں کوئی آمدنی نہ ہو تو وہ ترقیاتی اسکیمات انجام دینے سے قاصر ہوتی ہے ۔ ٹی آر ایس کا بھی جو حال ہورہا ہے ۔اس پر چیف منسٹر فکر مند ہوئے ہیں متبادل انتظامات کرسکتے ہیں ۔ وہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے آمدنی بڑھانا چاہتے ہیں مگر مرکز کی حکومت نے جی ایس ٹی کے ذریعہ ان کی پارٹی کی کمر توڑ دی ہے ۔ ریاست میں حکومت کرنے والی پارٹی اور مرکز میں برسر اقتدار طاقت عوام کے اوپر خاص کر تلنگانہ عوام پر حکومت کررہی ہیں ۔ ان کے راستے جدا جدا ہیں ۔ ریاستی حکومت عوام کو ایک جانب لے جانا چاہتی ہے تو مرکزی حکومت دوسری جانب لے جارہی ہے اور وہ پارٹیاں جو حکمرانی کا خواب دیکھ رہی ہیں ان کی کوشش عوام کو اپنی جانب لے جانے کی ہے ۔ ایسی صورتحال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش سے الجھن مزید بڑھ رہی ہے ۔ تلگو دیشم اور ٹی آر ایس کی نیندیں اڑانے کے لیے ہی مسٹر ریونت ریڈی نے کانگریس میں شمولیت کا شوشہ چھوڑا ہے تو سیاسی حاسدوں کی فہرست میں ایک اور نام کا اضافہ سمجھا جائے گا ۔ تلگو دیشم صدر چندرا بابو نائیڈو اس تبدیلی کو ہضم نہیں کرسکیں گے ۔ لیکن وہ اچھی طرح جان چکے ہیں کہ تلنگانہ میں ان کی پارٹی انٹینسوکیر یونٹ میں شریک کرادی گئی ہے ۔ پارٹی کے 15 ارکان اسمبلی کے منجملہ 12 نے تلگو دیشم کی سیکل کو چھوڑ کر ٹی آر ایس کی کار میں سواری کی ہے ۔ انسداد انحراف قانون بھی تلگو دیشم صدر کی کچھ مدد نہیں کرسکتا ۔ تلنگانہ میں اگر تلگو دیشم کی موجودہ حالت کو سیاسی خود کشی کے درپے لے جائے گی تو یہ بہت برا حشر ہوگا ۔ چندرا بابو نائیڈو کی سیاسی بصیرت و تدبر کو سمجھنے والوں نے یہ قیاس کیا ہے کہ وہ تلنگانہ میں دیگر 3 پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کا اختیار کھلا رکھیں گے ہوسکتا ہے کہ کانگریس کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹی آر ایس بھی تلگو دیشم سے ہاتھ ملا لے کیوں کہ چیف منسٹر کے سی آر کے دورہ اننت پور کے بعد سیاسی تیور بدلتے جارہے ہیں ۔
kbaig92@gmail.com