لولا نائر ؍ پراچی پنگلے
گجرات میں مینوفیکچرنگ کے مرکز سورت کے مضافاتی علاقہ میں واقع کیمایا انڈسٹریز جو ایک ٹکسٹائل یونٹ ہے وہاں بظاہر کام پہلے کی طرح چل رہا ہے، جیسا کہ گراؤنڈ فلور پر مختلف رنگوں کے ڈبے رکھے ہوئے ہیں، مشینیں چل رہی ہیں، ایک اور فلور پر ورکرس ایمبرائیڈری کے کام میں مصروف ہیں۔ ایک جانب ساڑیوں کے انبار لگے ہیں جو پیاکنگ کے بعد پارسل کئے جانے کیلئے تیار ہیں۔ اچٹتی نگاہ ڈالیں تو بزنس معمول کی طرح معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ایسا ہے نہیں۔ 85 کے لگ بھگ ورکرس کیلئے سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ گزشتہ ایک سال میں اُن کے تقریباً 15 ساتھی ورکروں نے اپنی نوکریاں کھو دی ہیں۔ ورکرس کے ماحول میں بے چینی کا احساس پایا جاتا ہے حالانکہ گڈز اینڈ سرویسیس ٹیکس (GST) کو ایک سال گزر چکا ہے ، پھر بھی ہندوستان کے چھوٹے کاروباروں پر اس کا مضر اثر پڑ رہا ہے۔ نومبر 2016ء میں نوٹ بندی کی کاری ضرب کے بعد لاگو جی ایس ٹی سے ہم آہنگ ہونا لگ بھگ ہر کسی کیلئے مشکل امر ثابت ہوا ہے۔ تاہم ، یہ سسٹم کسی کسی کیلئے کچھ مختلف یا فائدہ مند بھی ثابت ہوا ہے۔ اترپردیش کے کئی سو میل شمال میں میرٹھ میں قائم کنوہر الیکٹریکلس لمیٹیڈ کے ایم ڈی دنیش سنگھل کا کہنا ہے کہ اُن کا بزنس جی ایس ٹی کے سبب پھلا پھولا ہے کیونکہ اس نے بین ریاستی چیک پوائنٹس پر تاخیر کو ختم کردیا ہے، جس کی وجہ سے اُن کے پراڈکٹس کے اپنی منزلوں تک 40 تا 50 فیصد کم وقت میں پہنچنا ممکن ہوا ہے۔
کئی دہوں تک غوروخوض اور تیاری کرنے کے بعد جی ایس ٹی کو گزشتہ سال یکم جولائی کو پارلیمنٹ میں نصف شب کو منعقدہ تقریب میں نافذ العمل کیا گیا۔ اسے ملک کا مابعد آزادی سب سے بڑی ٹیکس اصلاح قرار دیا گیا جس کا مقصد کئی سطحوں کے محصولات کو ختم کرتے ہوئے 1.3 بلین لوگوں، 29 ریاستوں اور 22 سرکاری زبانوں کے ملک کو ’’ایک قوم، ایک ٹیکس‘‘ زمرہ کے تحت متحد کرنا ہے۔ اس سے توقع کی گئی کہ بزنس کے طریقے میں بدلاؤ آئے گا اور مرکز و ریاستوں دونوں جگہ حکومت کی مدد ہوگی، ٹیکس جال پھیلنے سے وصولیات میں اضافہ ہوگا، اور متوازی یا کالا دھن کا سدباب ہوگا۔ لہٰذا، ایک سال میں اس کی کارگزاری کیسی رہی ہے؟ کیا اس پُرجوش ٹیکس سسٹم نے یو پی اے حکومت کے برسوں کے بعد سے سست رو معیشت کیلئے موزوں اصلاحی عمل ثابت ہوا ہے؟ ایک سال بعد یہ کس حد تک کامیاب ہوا ہے؟
اس کی شروعات بلاشبہ کافی الجھن آمیز اور پریشان کن رہی۔ جی ایس ٹی کو متعارف کرانے سے پہلے اور اس کے بعد کی بے چینی کا سیاسی گوشے میں بھی نمایاں اثر دیکھنے میں آیا۔ انتخابی اثرات محض نعروں سے کہیں آگے بڑھ گئے؛ ووٹنگ کے نہج سے برہمی معلوم ہوئی۔ اور پھر معمول کی لفاظی بھی دیکھنے میں آئی جس میں اپوزیشن نے بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے کو قوم پر عجلت میں مسلط کردینے کا مورد الزام ٹھہرایا جیسا کہ اس نے ’نوٹ بندی‘ کے معاملے میں کیا تھا۔ اونچی قدر والی بینک نوٹس پر صدمہ انگیز امتناع سے معیشت ابھی سنبھلنے نہ پائی تھی کہ جی ایس ٹی کئی گوشوں کیلئے دوہرا جھٹکہ ثابت ہوا۔ ایک سال گزرنے کے بعد جھٹکے ہوسکتا ہے کچھ ماند پڑے ہیں لیکن مابعد جھٹکے والے اثرات بدستور محسوس ہورہے ہیں، بالخصوص بہت چھوٹی اور چھوٹی صنعتوں کیلئے معاملہ ہنوز مشکل ہے اور وہ نئے سسٹم سے ہم آہنگ نہیں ہوپارہے ہیں، کیونکہ ٹیکس میں ردوبدل کا سب سے زیادہ اثر یہی چھوٹی اور بہت چھوٹی صنعتوں پر پڑرہا ہے۔ کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ جی ایس ٹی میں چار ٹیکس سلاب جس میں اقل ترین 5 فیصد ہے، کچھ زیادہ اور من مانی شرح پر مبنی ہیں۔ بعض دیگر کیلئے یہ بدلاؤ مختلف اور انوکھے نوعیت کے مسائل لے کر آیا ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ شعبوں میں پارچہ جات کی صنعت شامل ہے۔ کیمایا انڈسٹریز چلانے والے روہت بنسل کا کہنا ہے کہ ابتدائی رکاوٹوں پر قابو پالینے کے باوجود مارکیٹ گزشتہ ایک سال سے ہنوز مندی میں مبتلا ہے۔ ’’نقدی کی کمی کی وجہ سے تجارت گھٹ چکی ہے۔ اگرچہ قرض؍ اُدھار کی مدت کو 90 یوم سے بدل کر 150 یوم کردیا گیا ہے، پھر بھی فینانس کی گردش کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہوچکا ہے۔ برآمدات کیلئے کریڈٹس پر ریفنڈس کی وصولی میں تاخیر سے بزنس سنبھالنا بہت مشکل ہورہا ہے۔ ابتداء میں بنسل کو جی ایس ٹی کی درکار شرائط سے نمٹنا آسان معلوم ہوا کیونکہ وہ سافٹ ویئر سے واقف ہے اور اسٹاف کو بھی تربیت دے چکا تھا جو سورت کی ٹکسٹائل مارکیٹ میں قائم 70,000 دکانات والے چھوٹے تاجرین کو میسر نہیں ہوا۔ لیکن دیگر مسائل اُبھر آئے۔ بنسل کا کہنا ہے ، ’’ہم بین الاقوامی یا دیسی منڈیوں میں مسابقت کے قابل نہیں ہیں کیونکہ کپڑے کی قیمتیں 10 تا 12 فیصد بڑھ چکی ہیں‘‘۔ بتایا جاتا ہے کہ نوٹ بندی کے بعد تقریباً 30 فیصد چھوٹے تاجرین بزنس سے نکل گئے؛ بقیہ اب کسی طرح جی ایس ٹی سے نمٹنے کی کوشش کررہے ہیں۔
حال ہی میں انڈسٹری کے نمائندوں کے ساتھ رابطے میں منسٹر آف اسٹیٹ فینانس شیو پرتاپ شکلا نے کہا کہ جی ایس ٹی کونسل جو ملک گیر ٹیکس کیلئے قواعد و ضوابط وضع کرنے والا اعلیٰ ترین ادارہ ہے، اس کی ٹیکس شرحوں کو واجبی بنانے پر کام کررہی ہے۔ اپنی شروعات کے بعد سے جی ایس ٹی پہلے ہی بعض تبدیلیوں سے گزر چکا ہے، جیسا کہ جنوری میں جی ایس ٹی کونسل نے 54 سرویسیس اور 29 اشیاء پر ٹیکس شرحوں کو گھٹادیا۔ قبل ازیں نومبر میں کونسل نے 178 ایٹمس کو 28 فیصدی سلاب سے ہٹایا تھا جبکہ نان اسٹار کیٹگری والے رسٹورنٹس کو 5 فیصد والے سلاب میں ڈال دیا۔ ایک عام شخص کو کبھی ٹیکس بچت کرنے کا مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا، لیکن اب تاجر تک خود کو ٹیکس سسٹم کی بھول بھلیوں میں پھنسا ہوا پارہا ہے۔ انیل بھردواج سکریٹری جنرل، فیڈریشن آف انڈین مائیکرو اینڈ اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزس (MSMEs) کا کہنا ہے کہ چھوٹے تاجرین کو e-way bills کی تیاری میں نیا مسئلہ درپیش ہے، جو کاغذی بلوں کی جگہ آن لائن کام کاج ہے۔ مثال کے طور پر ایک لیتھ مشین آپریٹر جس کے محدود وسائل اور محدود جانکاری ہوتی ہے، اسے انٹرنٹ کے ذریعے ای۔وے بل بنانے کی ضرورت آن پڑی ہے۔ اس کیلئے اسے کمپیوٹر اور اس کو چلانے کیلئے کسی جانکار شخص کی ضرورت ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مائیکرو انڈسٹریز چلانے کیلئے لاگت میں اضافہ ہوچکا ہے۔ انھیں نیا سسٹم سمجھ نہیں آرہا ہے۔ ان کیلئے مشکل ہے کہ محض اس مقصد کیلئے وہ کسی کو ملازم رکھیں۔ یہ ان کے پہلے سے معمولی نفع کی گنجائش کو مزید گھٹا دیتا ہے۔ بعض اوقات کسی کو ملازم رکھنا اس سے کہیں زیادہ مہنگا ہوسکتا ہے جتنا متعلقہ کمپنی کی کمائی ہوتی ہے۔ بھردواج کا مزید کہنا ہے کہ نیا سسٹم بلیک مارکیٹ پر قابو پانے میں ناکام ہوا ہے جس سے وصولیات کا نقصان ہورہا ہے۔
اگرچہ کوئی سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کئے گئے ہیں، لیکن مانا جاتا ہے کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے مل کر کئی شعبوں میں متعدد نوکریوں کو ختم کردیا ہے۔ گزشتہ اگست لوک سبھا میں ایک تحریری جواب میں حکومت نے کہا کہ 610 ٹکسٹائل ملز جن کے پاس تنخواہ پر 3,00,697 ورکرس کام کررہے تھے انھیں ہندوستان بھر کے مختلف علاقوں میں بند کردینا پڑا ہے۔ اس جواب میں صراحت نہیں کی گئی کہ ایسا کب ہوا۔ آشیش گجراتی جس کی سورت میں کپڑا بنانے کی یونٹ ہے، ان کا کہنا ہے کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے دوہرے اثرات کے سبب ایک اندازہ کے مطابق 35,000 ورکرس اپنی نوکریوں سے محروم ہوگئے ہیں۔
اس طرح قطعی رائے ہنوز منقسم ہے لیکن حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جن کو جی ایس ٹی سے فائدہ ہوا ہے، ان کا کہنا ہے کہ کئی پیچیدہ مسائل برقرار ہیں۔ احمدآباد کے تیجاس دیسائی کنسلٹنٹ برائے ایم ایس ایم ایز سرویس سیکٹر اور ان جیسے پروفیشن والوں کیلئے جی ایس ٹی کے فوائد بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب سرویس ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے بارے میں الجھن ختم ہوگئی۔ وہ جی ایس ٹی کے سبب مختلف جابس کرنے کے قابل ہوئے ہیں اور الجھن نہیں رہتی کہ کون سا جاب کس زمرہ کے تحت آتا ہے۔ تاہم، ان کا کہنا ہے کہ کافی تعداد میں ٹکسٹائل یونٹ کے مالکین نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے دوہرے جھٹکے کے بعد اپنے کاروبار فروخت کردیئے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس آف انڈیا کے بابو ابراہم کا کہنا ہے کہ یوں تو جی ایس ٹی آسان ٹیکس سسٹم ہے لیکن کئی شرحوں نے اسے پیچیدہ بنا دیا ہے۔ پراوین کھانڈیلوال سکریٹری جنرل کنفڈریشن آف آل انڈیا ٹریڈرس کا احساس ہے کہ جی ایس نے انڈسٹری اور ٹریڈنگ کمیونٹی کیلئے کئی فوائد لائے ہیں۔ ایک حقیقی فائدہ یہ ہے کہ عہدیداروں کے ساتھ دوبدو رابطے کا طریقہ ختم ہوگیا ہے۔ ایک شعبہ جہاں جی ایس ٹی کا سب سے زیادہ فائدہ دیکھنے میں آیاوہ لاجسٹکس کا شعبہ ہے، بالخصوص اشیاء کی بین ریاستی حمل و نقل کے معاملے میں نئے سسٹم سے فائدہ ہوا ہے۔
مالی سال 2017-18ء کے چوتھے سہ ماہی میں 7.7 فیصد کی جی ڈی پی شرح حکومت کیلئے اچھی خبر ہے جس کا اسے آئندہ سال کے جنرل الیکشن میں داخل ہوتے ہوئے بے چینی سے انتظار تھا۔ لیکن جی ایس ٹی اور نوٹ بندی سے جو خلل پیدا ہوا اس کے سیاسی اثرات کو نظرانداز کرنا مشکل ہوگا۔ خاص طور پر ایم ایس ایم ای اور غیرمنظم شعبوں میں نوکریوں کے نقصان کی اطلاعات پریشان کن ہیں۔ وزیراعظم نے ہر سال دو کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کا وعدہ کیا تھا تاکہ بڑی تعداد میں بیروزگار نوجوانوں کے مسئلے سے نمٹا جاسکے۔ چار سال گزر جانے کے بعد اب اس وعدے کی تکمیل ممکن نہیں دکھائی دیتی ہے۔ اب جی ایس ٹی کے پہلے سال کی تکمیل پر حکومت توقع ہے جولائی میں پارلیمنٹ کے مانسون سیشن کے دوران نئے سسٹم میں ترامیم کرے گی۔ مقصد یہی ہوگا کہ اسے سادہ تر اور سب کیلئے سازگار بنایا جائے۔ مودی نے بے شک اچھا اور سادہ ٹیکس کا وعدہ کیا تھا۔ صدر کانگریس راہول گاندھی نے اسے گبر سنگھ ٹیکس قرار دیتے ہوئے عوام میں اس کا مضحکہ اڑایا۔ جی ایس ٹی سے امید رکھی گئی کہ یہ کمتر ٹیکس عائد کرے گا۔ کمزور شرح ترقی کے اِن دنوں میں ہندوستان کو بلاشبہ راحت کی ضرورت ہے۔