سید جلیل ازہر
جہیز ایک غلط اور فطرت کے خلاف رسم ہے ، آج اس رسم نے جو قبیح صورت اختیار کرلی ہے اس کی مثال نہیں ملتی ، یہ بات درست ہے کہ کچھ سال قبل جن اشیاء کو قیمتی شمار کیا جاتا تھا وہ آج معمولی ضروریات زندگی بن چکی ہیںلیکن اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ جہیز کے نام پر لڑکی کے والدین کو قرض کے سمندر میں ڈبودیا جائے بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ
ماں باپ کا گھر بکا ، تو بیٹی کا گھر بسا
کتنی نامراد ہے یہ رسم جہیز بھی
اگر غور سے مطالعہ کیا جائے تو آج کا انسان ایک سائنسی دور میں گزر رہا ہے۔ اپنے بے پناہ علم اور غیر معمولی ترقی پر نازاں ہے۔ وسائل نے اتنی آسانیاں پیدا کردی ہیں ۔ دنیا گلوبل دیہات بن گئی ہیں۔ پلک جھپکتے تمام کام حل ہوجاتے ہیں ۔ اسنان کی ترقی مزید جاری ہے لیکن دوسری طرف بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ غریب کے گھر بیٹی پیدا ہوجائے تو ایک طرف خدا کی رحمت اور شادی کی عمر کو پہنچے تو زحمت بن جاتی ہے ، اس لئے کہ لڑکے والے جہیز جیسی لعنت کا تقاضہ کرتے ہیں۔ اس لعنت کی وجہ سے جو ظلم و ستم بہو بیٹیوں پر کئے جاتے ہیں، وہ بیان نہیں کئے جاسکتے کسی بھی علاقہ کے پولیس اسٹیشن کا ریکارڈ جاننے کی کوشش کریں تو اندازہ ہوگا کے اب پولیس اسٹیشنوں میں جرائم کی شکایت سے ز یادہ جہیز کے واقعاتہی نظر آئیں گے ۔ خواتین پر بڑھتے مظالم نے لڑکیوں کے زمین میں خوف و ہراس کی کیفیت پیدا کردی ہے ۔ سماج میں لالچی شوہروں کے ظلم و ستم کی داستان سن کر کنواری لڑکیاں جن کے والدین معاشی بدحالی کا شکار ہیں وہ یہی سوچ کر لب کشائی نہیں کر پارہی ہیں کہ
ایک معمولی سے مزدور کی بیٹی ہوں میں
مجھ کو بگڑے ہوئے حالات سے ڈر لگتا ہے
لوگ سسرال میں بہوؤں کو جلا دیتے ہیں
بس یہی سوچ کے بارات سے ڈر لگتا ہے
جہیز کی لالچ کا مرض اپنے پر پھیلاتا جارہا ہے ۔ کئی زندگیاں موت کو گلے لگارہی ہیں۔ آخر اس ناسور کو کیسے روکا جائے ؟ ضعیف والدین اپنی بیٹیوں کو جہیز جمع کرنے کیلئے جسم کی ہڈیاں کمزور ہوجانے کے بعد بھی محنت مزدوری کر کے ان کا گھر بسا رہے ہیں۔
پیتل کی بالیوں میں بیٹی بیاہ دی
اور باپ کام کرتا تھا سونے کی کان میں
وقت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ شادی کے بعد دولہے میاں کا لالچ اس غریب گھر کا سکون چھین رہا ہے ۔ نوجوان نسل کو چاہئے کہ جہیز کے خلاف جنگ کا عہد نامہ کریں اور یہ بتائیں کہ جہیز کا مطالبہ ایک جرم ہے ۔ جہیز نہ صرف عورت بلکہ برابر بھی تشدد ہے ۔ جہیز ایک شریفانہ ڈاکہ ہے ۔ جہیز جاہلانہ رسم تصور کی جائے اور نسل نو کو یہ بتائیں کہ ہم جہیز کے مطالبے کو مردانگی کی توہین سمجھتے ہیں اور ہماری غیرت ، ہماری خودداری ہم سے جہیز نہ لینے کا مطالبہ کرتی ہے تو شائد آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے راستہ ہموار ہوسکیں گے۔
ہمارے معاشرہ میں جہیز کی لعنت کا مرض بہت تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ کئی خاندان عزت کی خاطر قانون کی مدد بھی نہیں لے پاتے اور اپنی بیٹی کے غم میں سسک سسک کر یا تو کسی مہلک مرض میں مبتلا ہوتے دیکھے گئے یا پھر دنیا سے رخصت ۔ دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ماں باپ کی پریشانیوں کے تناظر میں لڑکیاں بھی جو فیصلہ لیتے ہوئے موت کو گلے لگالیتی ہیں ۔ ایسے کئی واقعات بھی سامنے آرہے ہیں بلکہ ان کی خودکشی کے تناظر میں ہی کسی شاعر نے یہ کہا ہوگا۔
بنا جہیز کے اگر دلہن بن نہیں سکتی
جان دے کر ماںباپ کا بوجھ اُٹھالیتی ہوں
وہ جوہر وقت رہتے ہیں میری فکر میں افسردہ
چلو میں ان کا یہ غم بھی مٹا دیتی ہوں
اور پھانسی لیکر خودکشی کرلیتی ہے ، ایسے واقعات تو اب ایک رواج بن گئے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کسی بھی لڑکی کی شادی کا ذکر کرتے ہی زمین کے گوشہ میں جو سب سے پہلے خیال آتا ہے وہ ہے جہیز دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شادی اور جہیز کے بغیر والدین کیلئے لڑکی کو رخصت کرنا ناممکن ہے۔ جہیز کی لعنت ہمارے معاشرے میں ایک ایسی شکل اختیار کرتی جارہی ہے جس کا علاج آسان نہیں ، کتنی جوانیاں جہیز پورا کرنے کے انتظار میں ماں باپ کے گھر میں بیٹھ بیٹھ کر بڑھاپے کی دہلیز پر جا پہونچی ہے ۔ ایک ایسے معاشرہ میں جہاں آئے دن غیرت کے نام پر بھی ماں بہن اور بیٹیاں قتل کی جاتی ہیں ، وہاں جہیز کے لین دین کے معاملہ پر ہماری غیرت بے خبری کی چادار اوڑھ کر سوجاتی ہے ۔ لڑکی والے شادی کے بعد بھی طرح طرح کے مطالبات کرتے ہیں اور اگر ان کو پورا نہ کیا جائے تو لڑکی کی زندگی کو ایک بار پھر لعن طعن اور آزمائشوں کی بھی سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ کبھی کبھی من مانی جہیز نہ دینا بھی اپنی لڑکی کی جان سے ہاتھ دھو بیٹھنا پڑتا ہے ۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ جن سماجوں میں کھلا پن ہے وہاں نسوانی طبقہ اتنا مظلوم نہیں ہے، جتنا ہمارے یہاں کم از کم دوسرے ملکوں میں جہیز کی لعنت اور اس لعنت سے اُٹھنے والے شعلوں میں جلنے ، جھلسنے کی وارداتیں تو نہیں ہوتی۔
اے جہیز کے مارو تم ناسمجھ پاؤگے
باپ کی مجبوریوں کو بیٹیاں سمجھتی ہیں
شہر ہوکے اضلاع بلکہ دیہی علاقوں میں بھی جہیز ایک ناسور بن رہا ہے ۔ راقم الحروف نے پولیس اسٹیشن میں ایک ایسا واقعہ دیکھا ۔ تہذیب صحافت کسی کو رسوا کرنے کی اجازت نہیں دیتی اس لئے صرف واقعہ بیان کر رہا ہوں۔ ایک غریب غربت میں قبول صورت لڑکی سے شادی کرلی اور دو بچوں کا باپ بن گیا ۔ فیاض قدرت نے بیوی یا اولاد کے قدم سے اس کے کاروبار میں کافی ترقی دی۔ غربت میں اہلیہ شوہر کے انتظار میں چوکھٹ پر آنکھیں بچھائے اپنے سہاگ کا انتظار کرتی تھی، اس کی بے پناہ محبت کو بھلا کر دولت کے نشہ میں اپنی جنسی ہوس کے لئے ایک خوبصورت دوشیزہ سے موصوف نے شادی کرلی۔ غربت میں قبول صورت ہی ان کی زندگی کا قیمتی سرمایہ تھی ۔ چار پیسے کیا آگئے کہ پہلی بیوی کو انہوں نے ایسے نظر انداز کردیا کہ گھرکے کسی پالتو جانور کہ گھر واپس نہ آنے پر گھر والے پریشان رہتے۔ انہوں نے تو اپنے دونوں معصوم لخت جگر اور شریک حیات کو بھلا بیٹھے بہت ہی غریب گھرانہ کی لڑکی بھی کافی انتظار کے بعد اس لڑکی نے پولیس میں شکایت درج کرائی کہ میرے شوہر نے دوسری شادی کرلی ہے اور مجھ کوپلٹ کر دیکھتا بھی نہیں ۔ پولیس نے حسب روایت شکایت درج کرتے ہوئے تحقیقات شروع کردی ۔ بعد ازاں کیا ہوا پتہ نہیں شرم کی بات ہے کہ تاریخ ایسے لوگوں کے گھر میں اپنی بہنوں کے ساتھ دہرادئے تو کیا ہوگا ؟ اس لئے کہ لڑکیاں ایک چوکھٹ چھوڑتی ہے دوسری دہلیز آباد کرتی ہیں۔ جہیز کی ہوس میں ظلم کرنے والوںکویہ بات ذہن نشین کرلینا چاہئے ۔
اُس کی پکڑ سے دور بھلا کیسے جاؤگے
سامان ہوگا ساتھ وہی جو کماؤ گے
جتنی بھی چاہو کرلو اداکاریاں مگر
بچ بھی گئے یہاں تو وہاں بچ نہ پاؤگے
ان واقعات کی روک تھام کیلئے ضروری ہے کہ سماج کے ذمہ داروں کے ساتھ ساتھ حکومتوں کو بھی چاہئے کہ جس طرح رات دیر گئے شادی بیاہ کے شور و غل پر پابندی عائد کرنے کے لئے قانون بنایا جارہا ہے اسی طرح جہیز لینے دینے کو جرم قرار دیا جائے ۔ ساتھ ہی آج کی نسل جہیز کا لالچ اپنے دلوں میں نکال دیںاور معاشرے میں اپنے مخلصانہ عمل سے انقلاب برپا کریں۔ یہ تحریر ان ظالم شوہروں کیلئے قلمبند کی جارہی ہے جو آئے دن جہیز خیرات کی طرح مانگتے ہیں۔ شریک حیات کی اہمیت کا ایک واقعہ جو دل کو چھولینے والا ہے جو میرے مطالعہ سے گزرا ہے ، اس شوہر کی دیانتداری پر رشک کرنا چاہئے اور ان کی اولاد پر واقعہ درج ذیل ہے جو پڑھنے کے بعد ذہن پرایک گہرا اثر چھوڑ جائے گا ۔ واقعہ یوں ہے۔ ایک شخص نے چھپ کر شادی کی تھی کیونکہ وہ پہلے ہی شادی شدہ تھا اور پہلی بیوی کے ساتھ اولاد بھی ہوئی تھی ۔ اس نے اپنے پہلی بیوی کے ساتھ جو اولاد تھی ان کو وصیت کیلئے جمع کیا اوران میں سے بڑے بیٹے کو ہدایت دی کہ میں ایک فلپائین کی عورت سے شادی کی ہے ۔ میرے بعد ان کا خیال رکھنا اور وراثت میں بھی حق دیا جانا چاہئے ۔ بڑے بیٹے کو وصیت کرنے کے بعد اس شخص کا انتقال ہوگیا ۔ والد کی نصیحت پرعمل کرتے ہوئے بڑے بیٹے نے فلپائن پہونچ کر اپنی دوسری ماں کا پتہ اٹھایا اور پندرہ کروڑ روپیہ اس کے حصہ کے اس کو ادا کردیئے ۔ یہ سعودی ہے ، فلپائن میں والد کی ہدایت پر دوسری ماں کا حصہ ادا کر کے واپس ہوگئے ۔ ایک برس کے بعد لڑکے نے اپنی دوسری ماں سے نمٹنے فلپائن پہونچا تو وہاں اپنی دوسری ماں کی حالت دیکھ کر حیران ہوگیا کیونکہ وراثت میں اپنی بڑی رقم دینے کے بعد بھی پرانے خستہ مکان میں رہ رہی ہے ؟ لڑکے نے ماں سے سوال کیا کہ اتنی بڑی رقم دینے کے بعد بھی آپ کی حالت میں سمجھ نہیں پایا ؟ ماں نے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر ایک جگہ پر لے گئی جہاں ایک بڑا اسلامی ادارہ قائم تھا ۔ وہاں حفظ قرآن کا شعبہ بھی تھا اور یتیم خانہ پر نظر اٹھاکر دیکھا اور بورڈ دیکھ کر بیٹے کی آنکھ میں آنسو اُمڈ آئے کیوںنکہ بورڈ پر اسکے مرحوم والد کا نام لکھا تھا ۔ ماں نے بتایا کہ میں نے اپنے وراثت کے پیسے سے بنایا ہے اور اپنے شوہر کے نام پر قائم کیا کہ اس کام کی وجہ سے ثواب ملتا رہے ۔ یہ تھی سچی محبت ورنہ اس پیسے سے وہ ایک عالیشان بنگلہ بھی بناسکتی تھی لیکن اس خاتون کا احساس اور ضمیر دونوں زندہ تھے، عالیشان بنگلہ کی کیا حیثیت، بنگلہ تو عارضی چیز ہے ، یہ ہوتی ہے محبت جبکہ دور جدید میںکچھ لالچی ایسے بھی موجود ہیں جو وراثتی رقم کے حصول کیلئے اپنے والدین کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں ۔ جہیز کی لعنت کے زہر سے کئی خاندان تباہ و برباد ہورہے ہیں۔ یہ بربادی برے لوگوںکے زیادہ ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اچھے لوگوں کی خاموشی کی وجہ سے ہے اس کے تدارک کے لئے ہر کسی کو آواز اٹھانی چاہئے ۔
لڑکیوں کے دکھ عجب ہیں اور سکھ اس سے عجیب
ہنس رہی ہیں اور کاجل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
9849172877