جہاد کے نام پر امریکہ کی خدمت

ظفر آغا

پہلے استنبول پھر کابل اور اب ڈھاکہ، پچھلے چند روز میں خود ساختہ جہادیوں کا قہر ان تین شہروں میں اپنا رنگ دکھاگیا۔ استنبول اور کابل میں سو سے زیادہ معصوم افراد ہلاک ہوئے۔ ڈھاکہ میں اس کالم کے لکھے جانے تک بھی جہادیوں کا ننگا ناچ جاری تھا۔ پتہ نہیں وہاں ابھی اور کتنے معصوم مارے جائیں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مذکورہ تینوں شہر عالم اسلام کا حصہ ہیں۔ ترکی، افغانستان اور بنگلہ دیش عالمی اسلامک کانفرنس گروپ کے حصے ہیں۔ ان تینوں ممالک کی مجموعی 90فیصد سے زیادہ آبادی مسلم ہے، یہاں جو بے گناہ ظالمانہ حملوں میں مارے گئے ان میں 90 فیصد سے زیادہ افراد مسلمان تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ مسلمان، مسلمان کو مارے اور اس کو جہاد کا نام دے، آخر یہ کونسا جہاد ہے؟ جی ہاں، پچھلی تقریباً چار دہائیوں میں جس جہاد کی ہوا چلی ہے اس میں جو افراد مارے گئے ان میں 90فیصد مسلمان تھے اور انہیں مارنے والے خود کو مسلمان گردانتے تھے کیونکہ کہنے کو اس جہاد کا نشانہ امریکہ اور مغربی دنیا ہے لیکن اس جہاد کا مرکز افغانستان، پاکستان، شام، عراق اور لیبیا جیسے ممالک ہیں جہاں 90فیصد سے زیادہ شہری آبادی مسلمانوں کی ہے۔ چاہے وہ اسامہ بن لادن کی القاعدہ ہو یا ابوبکر البغدادی کی داعش خلافت، ان سب نے مغرب میں کُل ملا کر 5000 لوگوں کی جان بھی نہیں لی ہوگی جبکہ ان تنظیموں کے جہاد میں اب تک کئی لاکھ مسلمان مارے جاچکے ہیں اور لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں اور اس دوران افغانستان، عراق اور شام جیسے ممالک پوری طرح تباہ ہوچکے ہیں۔

تشدد اور دہشت کا ایک ننگا ناچ ہے جو مسلمانوں کا ایک گروہ خود مسلمانوں کے خلاف ناچ رہا ہے۔ اس لئے اس وقت عالم اسلام کے سامنے سب سے اہم سوال یہی ہے کہ آخر یہ کیسا جہاد ہے؟ ۔ اب اس سوال کا جواب مسلم معاشرے کو تلاش کرنا لازمی ہے۔ مسلم ممالک کی حکومتوں، علمائے دین اور مدارس سب کو سر جوڑ کر اس سوال کا جواب تلاش کرنا چاہیئے اور سب کو مل جل کر ان خود ساختہ جہادیوں کو ختم کرنا چاہیئے لیکن پاکستان ہو یا افغانستان یا پھر عراق و شام ان تمام ممالک میں اس جہاد کی وباء ختم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی جارہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان دو ایسے ممالک ہیں جنہیں 1980 کی دہائی میں تازہ ترین جہاد کا موجد کہا جاسکتا ہے بلکہ مرحوم  ضیاء الحق کی سرپرستی میں یہ پاکستانی فوج ہی تھی جس نے امریکہ کے اشارے پر جہاد کو جنم دیا تھا۔ اب اس بات سے سبھی واقف ہیں کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد 1940 کی دہائی میں دنیا میں دو سوپر پاور یعنی امریکہ اور سوویت یونین اُبھر کر آئی تھیں اور دنیا ان دو کیمپوں میں بٹی ہوئی تھی۔ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان 1940 کی دہائی میں ایک سرد جنگ جاری تھی جس کا مقصد ایک دوسرے کو ختم کرنا تھا۔ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو ختم کرنا اور دنیا میں واحد سوپر پاور کی شکل میں اُبھرنا چاہتے تھے۔

1980 میں سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کردیا اور وہاں اپنی فوج کو بھیج دی۔ بس اب امریکہ نے اس موقع کو غنیمت جاناکیونکہ اسے ایسا لگا کہ اگر افغانستان میں سوویت فوجوں کو پھانس دیا جائے تو طویل جنگ کے خرچ سے سوویت یونین کا خاتمہ ہوسکتا ہے، یہ وہ دور تھا جبکہ پاکستان کم و بیش امریکہ کی غلامی میں تھا۔ ضیاء الحق بے گناہ بھٹو کو ایک قتل کے الزام میں پہلے انکا تختہ پلٹ کر پھر انہیں پھانسی پر چڑھا کر اقتدار پر قبضہ کرچکے تھے۔ ساری دنیا میں امریکہ سمیت ضیاء الحق پر اس سلسلہ میں کافی تنقیدیں ہورہی تھیں۔ ضیاء الحق اس فراق میں تھے کہ دنیا بھر میں کسی طرح ان کی ساکھ بدلے اور دنیا انہیں پاکستان کا ایک قانونی حاکم تسلیم کرے۔ بس کیا تھا سوویت یونین کے افغانستان پر حملے نے امریکہ اور ضیاء الحق یعنی پاکستانی فوج کو ایک دوسرے کا گہرا دوست بنادیا، پھر کیا تھا ضیاء الحق راتوں رات اسلام کے سب سے بڑے خادم بن گئے اور ان کی قیادت میں امریکہ نے پاکستانی فوج کو سوویت یونین کے خلاف جہاد کا ماحول بنا دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسامہ بن لادن سمیت لاکھوں نوجوان جہاد کیلئے پاکستان پہنچ گئے جو افغانستان کا پڑوسی تھا۔

ہندوستان کو چھوڑ تقریباً تمام عالم اسلام کی مساجد و مدارس سے مسلمانوں کو جہاد پر جانے کی تبلیغ شروع ہوگئی۔ اِدھر امریکہ نے پاکستان کو ہتھیاروں اور اپنی دولت سے پاٹ دیا۔ سی آئی اے نے جہادیوں کو پاکستانی سرحدی علاقوں میں فوجی ٹریننگ دی جہاں سے جہاد کے لئے لوگ سوویت یونین سے جنگ کے لئے جاکر سوویت یونین کے خاتمے پر لگ گئے۔ 1990 کی دہائی کے ابتداء میں سوویت کی فوجیں دنیا بھر کے جہادیوں سے پسپا ہوکر افغانستان سے واپس چلی گئیں اور آخر کار دو سال کے اندر سوویت یونین کا خاتمہ ہوگیا۔ اس طرح امریکہ دنیا کا واحد سوپر پاور بن گیا اور پھر اس کے کوئی دس بارہ سال بعد اسی امریکہ نے افغانستان اور عراق پر حملہ کردیا اور وہ جہادی جو 1980 کی دہائی میں سوویت یونین سے جنگ لڑرہے تھے، دھیرے دھیرے ان ہی جہادیوں نے شام، عراق ، لیبیا اور نہ جانے کن کن ممالک میں وہاں کے مسلمانوں پر قہر ڈھایا۔ آج عالم اسلام ان جہادیوں کے قہر کا نشانہ ہے اور ہر اسلامی ملک میں اس جہاد کے خطرہ سے نمٹنے کیلئے امریکی فوجی اڈے ہیں اور امریکہ جہاد کے کندھے پر سوار ہوکر دنیا کا واحد سوپر پاور بن کر دنیا بھر میں دندناتا ہوا پھررہا ہے اور اسامہ بن لادن و ابوبکر البغدادی جیسے لوگ اس مغالطہ میں ہیں کہ وہ جہاد کے ذریعہ امریکہ سے جنگ کررہے ہیں جبکہ کبھی استنبول تو کبھی کابل اور کبھی ڈھاکہ میں اس نام نہاد جہاد کے نام پر مسلمان خود مسلمانوں کے ہاتھوں مارا جارہا ہے۔

اب شاید آپ کو سمجھ میں آگیا ہوگا کہ یہ جہاد نہیں بلکہ امریکی خدمت ہے جس میں مسلم نوجوانوں کو جہاد کے نام پر پہلے سوویت یونین کو ختم کروانا تھا، پھر دنیا بھر میں اسلامک ممالک میں مسائل پید کرکے ہر جگہ باقاعدہ طور پر امریکی فوجی اڈے کھول کر اسلامی ممالک کے ذخائر پر قابض ہونا تھا تاکہ ساری دنیا پر امریکہ واحد سوپر پاور کی حیثیت سے مسلط رہے۔ افسوس کہ اس سلسلے میں ہندوستانی مدارس اور مساجد کا رول بھی مثبت نہیں رہا۔ جہاد کے نام پر اکثر مساجد و مدارس نے مسلم نوجوانوں کو جہاد کی ترغیب دی، کم از کم پاکستان اور افغانستان میں یہی ہوا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب یہی دو ممالک خود جہادیوں کے نشانہ پر ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستانی مدارس و مساجد اس لعنت سے الگ رہے لیکن آج کے انٹرنیٹ اور جہادی ویب سائیٹ نے ہندوستانی مسلم نوجوانوں کو جہاد کی تبلیغ تک پہنچادیا۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہندوستانی مسلم نوجوان اس وباء سے ابھی تک محفوظ ہیں لیکن کبھی کبھی یہ خبریں آتی ہیں کہ کچھ نوجوان گمراہ ہوگئے۔ مثلاً ابھی حیدرآباد سے یہ خبر آئی ہے کہ وہاں سے پانچ جہادی نوجوان گرفتار ہوئے ہیں۔ گوکہ زیادہ تر اس سے قبل ہندوستان میں اس طرح گرفتار کئے جانے والے نوجوان عدالتوں میں بے قصور ثابت ہوئے ہیں لیکن پھر بھی موجودہ عالمی حالات میں ہندوستانی مساجد و مدارس کو اس نام نہاد جہاد کے خلاف کھل کر ایک جنگ چھیڑ دینی چاہیئے اور ابھی عید کے موقع پر مسجد کے امام صاحب کے خطاب کا موضوع جہاد کی مخالفت ہی ہونا چاہیئے کیونکہ یہ جہاد نہیں بلکہ اپنے دشمنوں کی خدمت ہے، اس لئے سارے عالم اسلام میں خود مسلمانوں کو اس جہاد کے خلاف جنگ کرنی چاہیئے۔