جھنجھلاہٹ میں بچوں کو جھنجھوڑو مت

میں یہ مضمون گھریلو عورتوں کی معلومات کے لئے لکھ رہا ہوں ۔ مجھے امید ہے کہ یہ مضمون پڑھنے کے بعد جس گھر میں معصوم بچے ہیں ، ان کے والدین کو ان تفصیلات سے آگاہ کریں گے ۔ چاہے وہ آپ کے گھر کی خادمہ ہو یا پھر جانے پہچانے لوگ ہوں۔ میں خود بھی ایسی صورت حال سے واقف ضرور تھا مگر اس سے پہلے اس پر لکھنے کا موقع نہیں ملا ۔ ہمیشہ کوئی دل سوز واقعہ سننے کے بعد اس کی تحریک ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے یہ مضمون لکھنے کی ۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر معلومات اب دستیاب ہورہی ہیں اور مستقبل میں امید ہے کہ لوگ اور ماہر ڈاکٹر اس پر زیادہ توجہ دینگے ۔ ہوا یہ کہ ایک اوسط گھرانے کی خاتون اپنی ہمشیرہ اور دو چھوٹے بچوں کے ساتھ سر کے درد کی شکایت کیلئے مشورے کیلئے آئی ۔ میرا تجربہ ہے کہ سر کے درد کے پیچھے بسا اوقات کئی نفسیاتی مسائل دبے ہوتے ہیں ۔ ڈپریشن یعنی قنوطیت یعنی مایوسی یا پھر تفکرات اور بے خوابی یا پھر صرف سیدھے سادھے تجربے ۔ عام سر کے درد کی دوائیں کارگر نہیں ہوا کرتی ہیں ۔ غصہ ایک اہم وجہ ہے اور صرف غصہ کا علاج کرنے سے یہ درد سر جاتا رہتا ہے۔ اس لئے مریض کی شخصیت کو سمجھنا کسی بھی ماہر نفسیات کا اولین فرض ہے ۔ ماحول کا اثر شخصیات پر بہت گہرا ہوتا ہے ۔ عام مریض اس کی اہمیت کو سمجھ نہیں پاتے اور اس کو سمجھانے کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔ کیونکہ ناقابل برداشت ماحول کے اصل کھلاڑی شوہر یا خوشدامن ان کو سر کے درد کے علاج کیلئے لائے ہوں گے ۔ ان کی موجودگی میں وہ شکایت کرنے کے موقف میں نہیں ہوتی ۔ مگر یہ خاتون اپنی بہن کے ساتھ آئی تھی۔ جب سر کے درد کی تفصیلات دریافت کی گئی تو بلک بلک کر رونے لگی۔ جب بھانڈا پھوٹ گیا کہ سر کا درد ایک بہانہ ہی تھا ۔

پھر رونا تھمنے کے بعد کہنے لگی کہ ڈاکٹر صاحب مجھے بے انتہا غصہ ہے اور اس دیوانی حالت میں میں کچھ بھی کرسکتی ہوں ۔ میری دو بچیوں سے مجھے بے حد پیار ہے مگر غصے میں ہوتی ہوں تو ان کے بے تحاشہ پیٹتی ہوں۔ دو دن پہلے میر چھوٹی بچی مجھے بے حد تنگ کررہی تھی تو میں نے اسے اٹھا کر بہت زور سے اور ظالمانہ طریقہ سے جھٹکے دئے اور زمین پر پٹک دیا ۔ بچی کچھ دیر کیلئے بے سدھ ہوگئی اور اس کا رونا بند ہوگیا ۔ پوری طرح سے بے ہوش تو نہیں ہوئی تھی مگر ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ ختم ہوگئی ۔ پھر اٹھانے پر آنکھیں کھولی اور مسلسل قئے کرنے لگی ۔ میں سمجھ گئی کہ اس کے دماغ کو گہری چوٹ لگی ہوگی اور سیدھا بچوں کے ڈاکٹر کے پاس لے گئی ۔ ڈاکٹر نے سرسری معائنہ کیا اور مجھے اطمینان دلایا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے اور قئے کی دوا دے کر بھجوادیا ۔ ظاہر ہے یہ ڈاکٹر اس حادثے کی سنگینی اور دوررس اثرات کو سمجھ نہیں سکا اور ایسی معلومات کا خود اسے علم نہیں ہوگا ۔ مگر یہ خاتون رات بھر سو نہ سکی اور احساس خطا اس کو تنگ کرنے لگا ۔ صبح صبح مشورے کے لئے آئی ۔ صاف اپنے بے پناہ غصے کے دوروں کا اعتراف کیا اور جلد سے جلد اس سے نجات حاصل کرنا چاہتی تھی ۔ غصے کا علاج تو آجکل بہت آسان ہے اور موثر دواؤں کے استعمال سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ عام طور پر لوگ اور عام ڈاکٹر اس سے واقف نہیں ہیں ۔
یہ واقعہ بیان کرنے کا میرا اصل مقصد یہ ہے کہ ایسے واقعات بہت عام ہیں ۔ والد صاحب تھکے ہوئے نوکری کے بعد گھر آتے ہیں اور چین کی نیند سونا چاہتے ہیں ۔ بیوی باورچی خانے میں مصروف ہوگی اور چھوٹی بچی یا بچہ مسلسل زور زور سے رورہا ہو ۔ غصے میں آکر اس کو اٹھا کر زوردار جھٹکے دے کر اس کو خاموش کرنے کی کوشش کرتی ہے اور اگر وہ خاموش ہوجائے تو یہ ان کے لئے ایک مفید علاج بن جاتا ہے ۔ میڈیکل سائنس کی ریسرچ کے مطابق یہ بہت سنگین مسئلہ ہے اور Head Injury کی تعریف میں آتا ہے ۔
آپ اندازہ کیجئے کہ معصوم بچوں کے دماغ یعنی بھیجے کتنے نازک ہوا کرتے ہوں گے ۔ دماغ میں لاکھوں باریک باریک آلات ہوا کرتے ہیں اور ان کو محفوظ رکھنے کیلئے اس کو مضبوط کھوپڑی کے اندر قدرت کی طرف سے رکھا گیا ہے تاکہ معمولی حادثات سے اندرونی پرزے ٹوٹ نہ جائیں ۔ اس وقت تو بظاہر کوئی نقصان نظر نہیں آتا مگر جیسے جیسے یہ بچے بڑے ہوتے ہیں دوررس اثرات ظاہر ہونے لگتے ہیں ۔ مثلاً عقل کی کمی ، یادداشت میں فرق ، دوروں کی شکایت وغیرہ وغیرہ ۔ زور سے جھٹکا دے کر بچوں کو اگر خاموش کیا جائے تو دماغ کے اندر خون جمع ہوسکتا ہے جس کے کیا مضر اثرات آئندہ ظاہر ہوں گے کہنا مشکل ہے ۔ مگر یہ سزا عام طور پر غصے والے ماں باپ دیا کرتے ہیں ۔

اکثر غریب گھرانوں میں ایسے حادثات زیادہ دیکھنے میں آتے ہیں۔ شرابی حالت نشہ میں بچوں کو غصے میں پٹک بھی دیتے ہیں ۔ اور جب دورے شروع ہوتے ہیں تو وہ دواخانوں کو لے جاتے ہیں ، مگر پٹکنے کی تفصیلات نہیں بتاتے بلکہ کہتے ہیں کہ بچی گرگئی اور اس کے بعد خاتمہ ہوجاتا ہے اور گھر لا کر رودھو کر دفن کردیتے ہیں ۔ گو کہ یہ ایک قتل کی واردات ہے مگر چونکہ شہادت نہ ہونے کی وجہ سے سزا دلوانا بھی مشکل ہے۔ پولیس والوں کو بھی ان عصری مسائل کے تعلق سے معلومات نہیں ہیں ۔ اگر پوسٹ مارٹم کے اعداد و شمار دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ پورے ہندوستان میں شاید ہی ایسے واقعات کی تفتیش ہوا کرتی ہوگی مگر اب حالات بدل رہے ہیں ۔ میں امید کرتا ہوں کہ مستقبل میں لوگ بچوں کو لیکر گھریلو حادثات کو اتفاق نہ سمجھتے ہوئے اس پر خصوصی توجہ دیں گے ۔ اس سے پہلے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ عوام کو واقف کرائیں کہ ننھے منے بچوں کو زوردار جھٹکے نہ دیں ۔ دماغ کے اندر خرابی پیدا ہونے کے علاوہ گردن کی ہڈی بھی ٹوٹ سکتی ہے اور اسی وقت موت بھی واقع ہوسکتی ہے ۔ لوگ آجکل خاندانی منصوبہ بندی کررہے ہیں اور اکثر خاندانوں میں صرف دو بچے ہوتے ہیں ۔ اس لئے یہ دو بچے بہت قیمتی ہیں اور والدین کو ان کی صحتمندی کا ضامن ہونا چاہئے ۔ بڑے ہونے کے بعد موٹر سائیکل سواروں کو کہا جاتا ہے کہ سڑک کے حادثات سے بچنے کیلئے ہیلمٹ کا استعمال ضروری ہے مگر اس کے لزوم کی جب بات کی جاتی ہے تو ہر طرف سے مخالفت کی جاتی ہے ۔ بہرحال مجھے دلی تسکین ہوتی ہے کہ میں اپنے قارئین تک عصری طبی معلومات پہنچارہا ہوں ۔ عمل کریں یا نہ کریں ان کی مرضی ، بغیر ہیلمٹ کے حادثات کے کئی لوگ اپاہج بنے ہوئے ہیں ۔
اور ذرا آجکل کے نئے حالات پر غور کیجئے ۔ ماں باپ دونوں ملازمت پیشہ ہیں اور بچوں کی نگہداشت Creche میں ہوتی ہے اور بے حساب ایسے بچوں کی نگہداشت کی سہولتیں کے مراکز قائم ہورہے ہیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ یہ مراکز چلانے والے کسی قسم کی بچوں کی نگہداشت کی تربیت سے بے بہرہ ہیں ۔ یہ لوگ ان بچوں کو خاموش کروانے کے معاملے میں ماہر ہوتے ہیں ۔ اسی لئے اگر آپ اپنے بچوں کو بحالت مجبوری ایسی جگہ پر رکھتے ہیں تو باریکی سے تفصیلات معلوم کیجئے۔ نوکروں پر بھی پوری طرح بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔ ۔اگر آپ جہاں کام کرتے ہیں انکا کوئی مرکز ہے تو وہ بہتر ہے ورنہ انجان لوگوں پر بچوں کی نگہداشت کا ذمہ دینا خطرے سے خالی نہیں ہے ۔