محمد ریاض احمد
امی ا بو کہاں ہیں؟ وہ کب آئیں گے؟ کیا ابو رمضان میں روزے رکھنے کیلئے اللہ کے پاس گئے ہیں؟ ہم تو دعا کررہے ہیں کہ ابو جلد سے جلد گھر واپس ہوں اور ہمیں اپنے ساتھ لے کر گھومے پھریں۔ دادا ابو کہاں ہے؟ دادی ابو کہاں ہے؟ وہ کب آئیں گے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو جھارکھنڈ میں فرقہ پرستوں کے ہاتھوں شہید ہوئے شیخ نعیم کی بیٹیاں مصباح پروین، صنوبر پروین اور بیٹا شیخ صادق پوچھ رہے ہیں۔ ان معصوم بچوں کے سوالات پر شہید شیخ نعیم کی بیوہ سلمیٰ بی بی، غمزدہ باپ حاجی شیخ مرتضیٰ علی اور اپنے بیٹے کی یاد میں تڑپتی بلکتی ضعیف ماں زرینہ خاتون اور اپنے چھوٹے بھائی کی موت پر صدمہ سے دوچار بھائی شیخ غلام الدین کچھ جواب تو دے نہیں سکتے ہاں ان سوالات کے سنتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں۔ سینے میں آگ بھڑک اٹھتی ہے اور وہ آسمان کی جانب ہاتھ اٹھائے اپنے رب سے ان بچوں کو صبروجمیل عطا کرنے کی دعا کرتے ہیں۔ قارئین … جھارکھنڈ میں شہید ہوئے شیخ نعیم کے گھر میں اسی طرح کے حالات ہیں۔ اس گھر سے اکثر شیخ نعیم کی نوجوان بیوہ، بوڑھے والدین اور معصوم بچوں کی آہیں سنائی دیتی ہیں۔ کاش! ان مظلوموں کی آہیں اور یتیم بچوں کے سوالات وزیراعظم نریندر مودی کے کانوں سے ٹکراتے، چیف منسٹر جھارکھنڈ رگھوبرداس کے ضمیر کو جھنجھوڑ پاتے، فرقہ پرستوں کیعزائم کی تکمیل میں ساتھ دینے والے پولیس عہدیداروں میں احساس ذمہ داری پیدا کرتے۔ ناگپور اور ملک کے دوسرے مقامات پر بیٹھے ہندوتوا کے ٹھیکیداروں کو درندگی سے انسانیت کی طرف لانے تو کتنا بہتر ہوتا۔ کاش شیخ نعیم شہید کی بیوہ، بچوں اور ضعیف والدین کی آہیں شدت غم سے ان کی زبانوں سے نکلنے والی چیخیں ہندوستانی قوم کو ملک کے دشمن فرقہ پرستوں کے خلاف متحدہ کرتی تو بہتر ہوتا۔ جھارکھنڈ میں کسی مسلمان کو شہید کرنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ جب سے مرکز میں مودی کی زیرقیادت بی جے پی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے خاص طور پر بی جے پی زیراقتدار ریاستوں میں ہندوتوا طاقتیں آپے سے باہر ہوچکی ہیں۔ ان کی نظڑوں میں ہندوستانی دستور اور قانون کی کوئی اہمیت نہیں۔ وہ بنا کسی ڈروخوف اور خلل کے قانون اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔ ایک بات تو ضرور ہیکہ مودی حکومت میں ایک نئے طریقہ و انداز سے مسلمانوں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ فرقہ پرست غنڈوں اور ہندوتوا دہشت گردوں کو ہجوم کی شکل میںاکٹھا کرکے مختلف بہانوں سے مسلمانوں کا قتل کیا جارہا ہے۔ مسلم خواتین کی عصمتیں لوٹی جارہی ہیں۔ لڑکیوں پر تیزاب پھینکا جارہا ہے اور اسے بے قابو ہجوم کی کارروائی قرار دے کر قانون اور عوام دونوں کو دھوکہ دیا جارہا ہے۔ جھارکھنڈ میں صرف ایک ہفتہ کے دوران ہجوم کے حملوں میں 11 افراد کی موت ہوئی ہے، جس میں 18 مئی کی شب چار مسلم نوجوانوں کے قتل کی واردات بھی شامل ہیں۔ ان چار نوجوانوں 35 سالہ شیخ نعیم، 25 سالہ شیخ شجو، 26 سالہ شیخ سراج اور 28 سالہ شیخ حلیم کا قصور بھی کیا تھا وہ تو صرف مویشیوں کی خریدی کیلئے ہلدی پوکھرسے راج نگر جارہے تھے۔ تاہم ایک منصوبہ بند انداز میں پہلے ’’بچہ چوری‘‘ کی افواہ پھیلائی گئی اور پھر گاؤرکھشکوں نے ہجوم کو اکٹھا کرتے ہوئے ان مسلم نوجوانوں کی کار کو گھیر لیا انہیں لاٹھیوں اور پتھروں سے مار مار کر لہولہان کردیا۔
شیخ نعیم اور دوسرے نوجوان ہجوم سے ہاتھ جوڑے، رحم کی بھیک مانگ رہے تھے۔ انہیں بار بار بتا رہے تھے کہ بچہ چوری سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ اس کے باوجود ہجوم انہیں شدید زدوکوب کرتا ہے۔ شاید ان درندوں کو اپنے آقاؤں سے یہ حکم ملا تھا کہ چاروں مسلم نوجوانوں پر رحم نہیں کیا جائے بلکہ ان کا پیٹ پیٹ کر قتل کردیا جائے۔ ان چار مسلمانوں کا قتل ریاست میں پارٹی کو مستحکم کرے گا۔ آئندہ بھی اقتدار برقرار رہے لیکن اقتدار کیلئے بے قصور انسانوں کا خون بہانے والے درندوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ حد سے زیادہ ظلم کا نتیجہ ظالم کی تباہی و بربادی کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ جہاں تک جھارکھنڈ کا سوال ہے 15 نومبر 2000ء میں ریاست بہار کو تقسیم کرتے ہوئے اسے وجود میں لایا گیا۔ اس ریاست کی سب سے اہم بات یہ ہیکہ اس کی 86 فیصد آبادی دیہاتوں میں آباد ہے۔ اگرچہ جھارکھنڈ میں ہندوستان کے 40 فیصد معدنی وسائل پائے جاتے ہیں لیکن یہ ریاست شدید غربت کا شکار ہے۔ 40 فیصد سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گذارتی ہے۔ 45 فیصد لوگوں کی بجلی کی سہولت تک رسائی نہیں ہے۔ اچھی سڑکیں تک نہیں اس ریاست میں مسلمانوں کی آبادی 15 فیصد ہے۔ 81 رکنی اسمبلی میں بی جے پی کو 36، کانگریس کو 7، جھارکھنڈ مکتی مورچہ کو 19، جے وی ایم کو 8 ، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ایم آر) (اپل) کو ایک اور دیگر کو 4 نشستیں حاص ہوئیں لیکن بی جے پی نے جے وی ایم کے 6 ارکان کو انحراف کراتے ہوئے پارٹی میں شامل کرالیا۔ افسوس کی بات یہ ہیکہ ریاستی اسمبلی کیلئے صرف مسلم امیدوار عالمگیر عالم، عرفان انصاری (دونوں کانگریس)، بالترتیب پکور اور جامترا سے منتخب ہوئے اور دونوں بیچارے ریاست میں مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ راقم الحروف نے شیخ نعیم الدین کی بیوہ اور بھائی سے بات کی سلمیٰ بی بی نے بتایا کہ ان کی شوہر کو بے قصور مارا گیا۔ اس خاتون نے روتے ہوئے بتایا ظالموں نے میرا سہاگ اور میرے بچوں کے سر سے باپ کا سایہ چھین لیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ریاستی حکومت نے دو لاکھ ایکس گریشیاء کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ رقم چاہے وہ دو لاکھ ہو یا دو کروڑ میرے شوہر کو تو واپس نہیں لاسکتی۔ ہاں حکومت کو چاہئے کہ وہ حقیقت میں انصاف کرتے ہوئے قاتلوں کو عبرت ناک سزائیں دلائے۔سلمیٰ بی بی نے انٹر تک تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ سرکاری ملازمت کیلئے تیار ہیں لیکن ریاستی حکومت نے اب تک انہیں ملازمت کی پیشکشی نہیں کی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضرور ہوگا کہ جھارکھنڈ میں سال 2025 میں مویشیوں کے تاجر مظلوم انصاری اور 13 سالہ لڑکے امتیاز خاں کو گاؤرکھشکوں نے شدید زدوکوب کرکے درختوں پر لٹکا کر موت کی نیند سلادیا تھا۔ سیاست میں ان خاندانوں کی بے بسی، مجبوری و لاچاری اور کسمپرسی کے بارے میں سیاست مضمون اور رپورٹ کی اشاعت کے بعد حیدرآباد اور ملک و بیرون ملک سے ان کی غیرمعمولی مالی امداد کی گئی۔ شرم کی بات یہ ہیکہ مظلوم انصاری اور امتیاز خاں شہید کے قاتل ضمانت پر ہیں اور گواہوں پر اثرانداز ہورہے ہیں۔ حال ہی میں اس کیس کے کلیدی ملزم ہنٹی ساہو نے گاوں کے پرمکھ جناب انصاری کے گھر پر گولیاں چلائیں۔ پولیس نے اس واقعہ کی شکایت کے باوجود ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ مسلمانوں کا احساس ہیکہ بی جے پی حکومت میں آر ایس ایس، بجرنگ دل، گاؤرکھشاسمیتی اور دوسری ہندو فرقہ پرست تنظیموں و جماعتوں کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ ضلع لاتہیار کی نمائندگی اسمبلی میں بابو لال مرانڈی کی پارٹی جے وی ایم کے پرکاش رام کرتے ہیں۔ ان کے نمائندے قمرالعارفی کے مطابق پرکاش رام نے متاثرہ خاندانوں کو فی کس 51 ہزار روپئے امداد پیش کی قمیرالعارفی اور محمد جاوید عالم نے بتایا کہ یہ سب کچھ منصوبہ بند انداز میں کیا جارہا ہے تاکہ مسلمانوں کو خوف و دہشت میں مبتلاء کرکے سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے بھولے بھالے ہندوؤں کا استحصال کیا جاسکے۔ ان لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ قومی سطح کی شوٹرتارا سہادیو نے جب اپنے شوہر رنجیت سنگھ کوہلی عرف رقیب الحسن اور اس کی ماں پر زبردست مذہب تبدیل کروانے کا الزام عائد کیا تب سے ریاست میں لو جہاد کے نام پر مسلم نوجوانوں کو ہراساں کیا جانے لگا ہے۔ اس کے بعد گاؤرکھشک کے نام پر امتیاز خان اور مظلوم انصاری کو شہید کیا گیا۔ واٹس اپ پر منہاج انصاری کے پوسٹ پر انتقامی کارروائی کرتے ہوئے پولیس اور ہجوم نے منہاج انصاری کو بھی شہید کرڈالا۔ غرض کسی نہ کسی بہانے سے ریاست میں مسلم آبادی کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ اترکھنڈ سے آنے والا گوپال منی راج بھی گاؤرکھشک کے نام پر ہندوؤں کو مسلمانوں کے قتل پر اکساتا رہا ہے جبکہ حکومت اور پولیس خاموش تماشائی کا رول ادا کررہے ہیں۔ ایسا لگتا ہیکہ یہ ادارے اندھے، بہرے اور گونگے ہوگئے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہیکہ جھارکھنڈ میں ریاستی سطح کی کوئی ایسی مسلم تنظیم نہیں جو مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائے جبکہ سیاسی جماعتیں ہمیشہ نامردی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں کو حکومت پولیس اور بزدل سیکولر جماعتوں پر تکیہ کرنے کی بجائے اپنے طور پر ہی ایسا کچھ کرنا ہوگا جس سے سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
mriyaz2002@yahoo.com