جو شئے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا

سعید حسین
روزنامہ سیاست بتاریخ 21 فروری میں محمد مصطفی علی سروری کا بہت ہی سبق آموز مضمون شائع ہوا ۔ سروری صاحب اہل حیدرآباد کے لئے تعارف کے محتاج نہیں ہیں ۔ سماج میں جو برائیاں اور فتور پیدا ہورہے ہیں ان پر آپ کی گہری نظر رہتی ہے ۔ کوئی بھی ایسا واقعہ جو بذریعہ اخبار سماج میں پنپ رہی برائیوں کے تعلق سے وقوع پذیر ہوتا ہے تو ایک سچے اور دردمند مسلمان ہونے کی حیثیت سے موصوف فوراً قلمبند کرتے ہیں اور عوام کو ان کی غلطیوں اور بیہودہ رسم و رواج کے بندھن میں بندھے ہوئے لوگوں کو یہ پیغام پہنچاتے ہیں کہ اب بھی وقت ہے مسلمانو! سنبھل جاؤ ورنہ ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں ۔حال ہی میں شہر حیدرآباد میں وقوع پذیر ہونے والے تین واقعات کا انہوں نے ذکر کیا ہے کہ کس طرح ایک ایم ٹیک لڑکی ایس ایس سی فیل 40 سالہ شخص کے جال میں پھنس گئی اور تقریباً 37 لاکھ کے کثیر سرمایہ سے ان کے والدین کو ہاتھ دھونا پڑا۔ سب سے پہلے تو اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ آج کل کی خواتین اپنے شوہروں کو اپنی مٹھی میں لئے ہوئے ہیں ۔ یا یوں کہئے کہ مرد زن مرید ہوچکے ہیں ۔ یہ سب دینی تعلیم سے رغبت کم ہونے کا نتیجہ ہے ۔ پچھلے دو تین دہوں سے جب سے خلیج میں ملازمت کی غرض سے مرد حضرات باہر جارہے ہیں اپنی بیوی اور اولاد کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ تم جو چاہو کرو ۔ تمہاری ہر حرکت قابل قبول ہے ۔
پچھلے دنوں میرے ایک دوست نے اپنا ایک واقعہ سنایا ہے جو قارئین کے لئے سبق آموز ہے ۔ خواتین کی بے جا حرکتوں کی وجہ سے سماج میں جو برائیاں پیدا ہورہی ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ایک دوست کی اہلیہ کا انتقال ہوچکا ہے ۔ بچے یوروپ اور امریکہ میں ملازمت کررہے ہیں جن کی عمر 50 سال کے آس پاس ہے ۔ عقد ثانی کی نیت سے اخبار میں اشتہار دیتے ہیں ، مختلف لوگوں کی جانب سے انہیں فون آتے ہیں ، جن میں سے ایک صاحب جن کی بہن کی عمر تقریباً 42 سال ہے ، بیوہ ہے ۔ جنہیں ایک عدد لڑکی بھی ہے جس کی عمر تقریباً 8 سال ہے ۔ بہن کی تفصیلات بتانے کے بعد لڑکے سے بھی ساری تفصیلات معلوم کرنے کے بعد موصوف کو اپنے گھر بلاتے ہیں تاکہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ سکیں ۔ حسب پروگرام وہ صاحب بیوہ کے گھر جاتے ہیں ۔ رشتہ پسند کرکے اپنی رضامندی کا اظہار کرتے ہیں کہ مجھے آپ کی بہن سے رشتہ منظور ہے اور اس لڑکی کو بھی میں اپنی بیٹی کے طور پر قبول کرتا ہوں ۔ آپ سوچ لیں میں آپ کے جواب کا منتظر ہوں ۔

دوسرے دن تقریباً گیارہ بجے بیوہ کا فون صاحب موصوف کے پاس آتا ہے وہ اپنا تعارف کرانے کے بعد کہتی ہیں کہ کل مجھے آپ دیکھ کر گئے ہیں اگر آپ واقعی مجھے میری بیٹی کے ساتھ قبول کرنے تیار ہیں تو ’’خدارا مجھے اس جہنم سے چھٹکارا دلایئے میں زندگی بھر آپ کا احسان نہیں بھولوں گی‘‘ ۔ صاحب موصوف وقتی طور پر فکرمند ہوگئے اور کہنے لگے کہ محترمہ میں آپ کی بات سمجھنے  سے قاصر ہوں آپ کیا کہہ رہی ہیں ۔ اگر مناسب سمجھیں تو تفصیلات بتائیں تاکہ میں اس کا کوئی حل نکال سکوں ۔
روتے ہوئے محترمہ نے سارا واقعہ سنایا کہ بھائی میرا ہے لیکن بھاوج میری نہیں ہے ۔ کل آپ کے جانے کے بعد بھائی خوشی خوشی مجھ سے کہنے لگے کہ اللہ کاشکر ہے کہ آپ مجھے میری لڑکی کے ساتھ قبول کرنے تیار ہیں ۔ اب تم بتاؤ کہ کیا تمہیں یہ رشتہ منظور ہے ۔ بات کاٹتے ہوئے بھابی نے کہا خبردار اس بوڑھے سے میری پھول جیسی نند کی آپ شادی کریں گے ۔ میرے رہتے ہوئے ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ بھائی نے پوچھا اس شخص میں کیا عیب ہے ؟ صاحب جائیداد ہے ، صحت مند ہے ، اچھی آمدنی ہے اور کوئی ذمہ داری بھی نہیں ہے۔ ہماری بہن وہاں خوش رہے گی ۔ میں بھی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاؤں گا ۔ تمہارے سر سے بھی یہ بوجھ اتر جائے گا ۔ یہ سب سن کر بھابی آگ بگولہ ہوگئی اور چلانے لگی ۔ سارا کام پکانا ، برتن دھونا ، کپڑے دھونا ، گھر کی صفائی نہیں ہوگی اور چار بچوں کی ذمہ داری مجھے قبول نہیں ہے ۔ لو سنبھالو تم اپنا گھر ، یہ کہہ کر اور بچوں کو لے کر میکے چلی گئی ۔ میرے باپ کے پاس بہت کچھ ہے ۔ میں آرام سے وہاں رہوں گی ۔ بیوی کے تیور دیکھتے ہی میاں مٹھو نے ہتھیار ڈال دیئے اور بیوی کی حمایت میں اتر آئے ۔ بہن سے کہنے لگے کہ تمہاری بھابی ٹھیک ہی کہتی ہے ۔ ہم تمہارے لئے کوئی اور اچھا سا رشتہ تلاش کریں گے ۔ اس طرح پچھلے کئی سالوں سے ان کی خود غرضی اور مکاری کے ہم ماں اور بیٹی شکار ہیں ۔ مجھے تو میری بیٹی کا مستقبل بھی روشن نظر نہیں آتا کیونکہ میرے ساتھ ساتھ میری لڑکی کا بھی استحصال کیا جارہا ہے ۔ میرے بھائی کے بچے شہر کے بڑے نامور اسکول میں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور میری لڑکی کو قریب کے خیراتی اسکول میں شریک کروایا گیا ہے ۔ میرے بھائی کے بچے آٹو میں جاتے ہیں اور میری بچی کو میں خود اسکول چھوڑ آتی ہوں ۔ یہاں تک کہ میری بچی کو اپنے بچوں کے ساتھ کھیلنے سے بھی منع کرتے ہیں اس طرح میں اور میری بچی ڈپریشن کا شکار ہیں ۔
آپ کو دیکھنے کے بعد مجھے یہ اندازہ ہوا کہ آپ ایک شریف آدمی ہیں لہذا میں نے اپنے دل کی بات آپ کے سامنے رکھ دی ۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے ۔ میں ہر طرح سے آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوں ۔ بشرطیکہ آپ میری بچی کو بھی قبول کریں ۔ کسی طرح میرے بھائی سے بات کرکے ان سے میرا رشتہ مانگیں ۔ چنانچہ دو دن بعد صاحب موصوف نے بھائی سے رابطہ قائم کیا تو بھائی نے سختی سے منع کردیا اور کہنے لگا کہ آئندہ مجھے فون کرنے کی زحمت نہ کریں ۔ یہاں دو چیزیں قابل غور ہیں ۔ ایک تو بیوہ کو اپنی لڑکی کے مستقبل کا خیال ہے ۔ دوسرے ضرورت نفس ۔

خدائے تعالی نے اس کائنات میں ہر ایک انسان اور جانور کے لئے ان کے جوڑے پیدا کئے ہیں جس کا قرآن کریم میں بھی واضح ذکر موجود ہے ۔ چنانچہ نفس کی ضرورت کے لئے جانور پریشان ہوسکتا ہے تو کیا انسان پریشان نہیں ہوسکتا ۔ ان حالات میں والدین اور سرپرستوں کو چاہئے کہ اپنی اولاد اور متعلقین کے رشتوں کے لئے اپنی انا کو مسئلہ نہ بنائیں ۔ انا ، خاندان ، رتبہ اس فکر میں اپنی اولاد کی زندگی برباد کررہے ہیں جس کی وجہ سے وہ غیر مسلموں کے ساتھ اپنے رشتے جوڑ رہے ہیں ۔ میں یہاں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ہر ماں باپ کی سوچ ایسی ہے لیکن میرے علم میں یہ بات ہے کہ ایک غریب ڈرائیور کا لڑکا اعلی تعلیم حاصل کرکے خلیجی ملک میں اچھی ملازمت حاصل کرتا ہے ۔ شہر کے پاش علاقے میں ایک بہترین مکان تعمیر کرواتا ہے  ،مکان کیا ایک عالیشان محل ہے ۔ جس میں ضروریات زندگی کی ہر چیز موجود ہے ۔ بہترین کار میں سفر کرتا ہے ۔ جب اس کی ماں اس کی شادی کا اظہار کرتی ہے تو وہ اپنی ہم جماعت دوست کا ذکر کرتا ہے جو ایک بہت بڑے خاندان کی بیٹی ہے ۔ لڑکی کے والد شہر کے ایک معزز شہری ہیں ۔ جب اس لڑکے کا رشتہ اس خاندان میں جاتا ہے تو والد جو اپنی انا اور اسٹیٹس کے نشے میں چور ہیں ،انکار کردیتے ہیں ۔ اور اپنی لڑکی کا رشتہ ایک خاندانی رئیس کے نکمے جاہل اور کاہل کے ساتھ کردیتے ہیں ۔ لڑکی چونکہ تعلیم یافتہ اور نہایت سنجیدہ مزاج ہے اور لڑکا انتہائی رنگین مزاج  ،ناکارہ اور کاہل ہے ، دونوں کا خیال ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتا ، نتیجہ میں خلع لینی پڑی ہے ۔ضدی والدین اپنی انا ، اپنے خاندان کا وقار ، جھوٹی شان اور گھمنڈ کی وجہ سے ایک معصوم لڑکی زندگی داؤ پر لگا کر زندگی بھر کے لئے اسے تڑپنے کے لئے مجبور کردیتے ہیں ۔ ماں باپ اپنی انا اور اسٹیٹس کی فکر میں تیس بتیس سال تک اپنی لڑکیوں کے لئے مناسب رشتہ ڈھونڈنے میں ناکام ہوتے ہیں جس کی وجہ سے لڑکیاں مجبور ہو کر خود اپنے طور پر سوشیل میڈیا کا سہارا لیتی ہیں اور ناتجربہ کاری کی بنا پر جذباتی فیصلہ کرکے خود شادی کرلیتی ہیں لیکن یہ شادیاں پائیدار نہیں ہوتیں اور زندگی بھر پچھتانا پڑتا ہے ۔

روزنامہ سیاست میں پروفیسر شمیم علیم کا ایک مضمون ’’خلع ۔ مرض بڑھتا ہی گیا‘‘ کے زیر عنوان ایک تفصیلی مضمون پڑھنے کو ملا ۔ محترمہ عرصہ دراز سے سماج میں پیدا ہونے والی برائیوں کو بہت ہی موثر انداز میں سیاست کے قارئین تک اپنے احساسات اور جذبات  کا اظہار فرماتی ہیں ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ لڑکیاں اپنے طور پر بزرگوں کی مرضی کے خلاف رشتہ طے کرلیتی ہیں جو وقتی طور پر ایک جذباتی فیصلہ ہے ۔ یا پھر والدین بغیر کسی تحقیق کے اپنے بچوں کا رشتہ طے کردیتے ہیں اور پچھتاتے ہیں۔ بہت سے ایسے لڑکے ہیں جن کے غریب والدین اپنی لڑکیوں کے رشتوں کے لئے فکر مند رہتے ہیں ۔ ایسے ذمہ دار لڑکے اپنی نفس کے ساتھ جنگ کرتے ہیں اور اپنی بہنوں کے بہتر مستقبل کے لئے لڑتے ہیں اور شریف ماں باپ کی بیٹیاں بھی اپنے شوہر کے اس نیک مقصد کے لئے برابر ان کا ساتھ دیتی ہیں ۔ نفس کے ساتھ جنگ بہت بڑا جہاد ہے ۔ آخر میں میری یہ دعا ہے کہ ایسی بہو ، بیٹیوں کی اللہ تعالی حفاظت فرمائے ۔