جو تھے سیاسی گھرانے والے سب ایک نکلے

رشیدالدین

عوام کو اچھے دنوں کا خواب دکھاکر بی جے پی نے ملک کے اقتدار پر قبضہ تو کرلیا لیکن سنگھ پریوار این ڈی اے حکومت پر اپنی گرفت مضبوط کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ نریندر مودی کی آڑ میں سنگھ پریوار ملک پر حکمرانی کی تیاری میں ہے۔ سنگھ کے اس منصوبہ پر عمل آوری کا آغاز اس وقت ہوچکا تھا ، جس وقت نریندر مودی کو گجرات کے چیف منسٹر کے عہدہ سے ترقی دیکر نئی دہلی منتقل کیا گیا۔ بی جے پی میں موجود تمام سینئر اور اعتدال پسند قائدین کو کنارہ کرتے ہوئے قدامت پسند گروپ کی تائید سے نہ صرف مودی کو قومی سطح پر ابھارا گیا بلکہ پہلے پارٹی کی انتخابی مہم کی کمان اور پھر وزارت عظمی کے امیدوار کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔ اتنا ہی نہیں مودی کے وفاداروں بالخصوص گجرات کے سپہ سالار کو قومی سطح پر ترقی دی گئی۔ وزارت عظمیٰ پر نریندر مودی کے فائز ہونے کے بعد تو جیسے حکومت پر سنگھ پریوار کا کنٹرول ہوچکا ہے۔ نریندر مودی نے اترپردیش میں نفرت کی سیاست کے ذریعہ بی جے پی کو تاریخی کامیابی سے ہمکنار کرنے والے امیت شاہ کو پارٹی کے قومی صدر کی حیثیت سے ترقی دی۔

امیت شاہ جو کہ راج ناتھ سنگھ کے جانشین ہیں لیکن درحقیقت مودی کو ان کا سپہ سالار مل چکا ہے۔ وزیراعظم اور پارٹی صدر کے گجرات سے تعلق کے سبب مرکز پر گجرات کی حکمرانی دکھائی دے رہی ہے لیکن حقیقت میں حکومت اور پارٹی پر سنگھ پریوار کے کنٹرول کی یہ علامت ہے۔ اب تو حکومت اور پارٹی دونوں کا ریموٹ کنٹرول آر ایس ایس کے ہاتھ میں آچکا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آر ایس ایس کے تھنک ٹینک سمجھے جانے والے قائد رام مادھو کو خاموشی کے ساتھ بی جے پی میں شامل کردیا گیا۔ ریلوے اور عام بجٹ پر عوام کی توجہ تھی لیکن ایسے وقت آر ایس ایس ترجمان رام مادھو کی کسی پبلسٹی کے بغیر بی جے پی میں شمولیت سنگھ پریوار کے منصوبوں کو ظاہر کرتی ہے۔ دراصل بی جے پی میں ایسے قائدین کی کمی ہوچکی ہے جو آر ایس ایس کے نظریات کو عام کرنے میں مددگار ثابت ہوں۔ لہذا نریندر مودی کے اطراف سنگھ پریوار کی ٹیم کی تیاری کے حصہ کے طور پر رام مادھو بی جے پی میں شامل ہوگئے۔

عین ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں رام مادھو کو اہم ذمہ داری دی جائے۔ ان حالات میں عوام کے لئے اچھے دنوں کی امید محض خوش فہمی نہیں تو کیا ہوگی ؟ نریندر مودی متنازعہ مسائل سے خود کو دور رکھتے ہوئے پارٹی کے ووٹ بینک کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی حکمت عملی کے تحت ان کی حکومت کا پہلا بجٹ بھی متوسط طبقات کو خوش کرنے کی کوشش تھی۔ نریندر مودی بظاہر عوام میں اپنا امیج سدھارنا چاہتے ہیں، وہیں سنگھ پریوار کے رول میں اضافہ کا کوئی موقع ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتے۔ وزیراعظم اور پارٹی صدر دونوں بی جے پی کی نظریاتی سرپرست آر ایس ایس کے پسندیدہ اور بااعتماد شمار کئے جاتے ہیں۔ اسے ہندوستانی جمہوری نظام کی خوبی کہیں یا پھر عوام کی بدقسمتی کہ وزارت عظمی پر ایسی شخصیت فائز ہے جس کا دامن گجرات کے مظلوم و معصوم مسلمانوں کے خون سے داغدار ہے۔ ایسے شخص کے وزیراعظم کے عہدہ پر فائز ہونا کیا ستم تھا کہ اب برسر اقتدار پارٹی کی صدارت بھی ایسے شخص کو سونپی گئی جو گجرات میں فرضی انکاؤنٹرس معاملات میں ملزم ہے۔ اترپردیش میں جارحانہ فرقہ پرستی پر مبنی انتخابی مہم کے ذریعہ مذہبی بنیاد پر ووٹ تقسیم کرنے میں کامیاب امیت شاہ کیلئے بی جے پی کی صدارت بہتر کارکردگی کے عوض کوئی تحفہ نہیں بلکہ جاریہ سال کے اواخر میں ہونے والے ہریانہ اور مہاراشٹرا اسمبلی انتخابات کی تیاری ہے۔

آئندہ سال جموں و کشمیر اور جھارکھنڈ میں بھی چناؤ ہوں گے۔ امیت شاہ کو اگرچہ فرضی انکاؤنٹر کے مقدمہ میں عدالت سے برأت نہیں ملی لیکن اس کے باوجود مقدمہ کا سامنا کرنے والے شخص کو پارٹی صدر مقرر کرنا آر ایس ایس کی دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔ امیت شاہ کو مستقبل میں بھی کسی پریشانی سے بچانے کیلئے حکومت نے انکاؤنٹر مقدمہ کی سماعت کرنے والے جج کا تبادلہ کردیا اور سہراب الدین فرضی انکاونٹر مقدمہ میں سپریم کورٹ کی اعانت کرنے والے قانون داں گوپال سبرامنیم کو سپریم کورٹ کا جج بننے سے روک دیا گیا ۔ ظاہر ہے کہ اب سی بی آئی تو حکومت کے ہاتھ میں ہوگی اور کوئی عجب نہیں کہ وہ امیت شاہ کو کلین چٹ دیدے۔ امیت شاہ کا انتخاب اگرچہ بی جے پی کا داخلی معاملہ ہے لیکن کوئی بھی انسانیت اور انصاف پسند اس اقدام کی تائید نہیں کرسکتا۔ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ اور ترقی میں مسلمانوں کو مساوی حصہ داری کا نعرہ لگانے والے نریندر مودی نے مسلمانوں کے جذبات کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ جن لوگوں نے مسلمانوں کو زخم دیئے انہیں اعلیٰ عہدوں پر فائز کرتے ہوئے سنگھ نے اپنی ذہنیت کو آشکار کیا ہے۔

بی جے پی نے الیکشن مینجمنٹ میں مسلمانوں کو نظرانداز کیا اور پھر اقتدار ملنے پر داغدار امیج رکھنے والوں کے ہاتھ اقتدار سونپ دیا گیا۔ امیت شاہ 2002 تا 2006 گجرات کے وزیر داخلہ تھے اور اس مدت کے دوران 22 انکاؤنٹرس ہلاکتیں ہوئیں۔ 2004 ء میں عشرت جہاں ، 2005 ء میں سہراب الدین شیخ اور ان کی اہلیہ اور 2006 میں سہراب الدین کے ساتھی تلسی رام پرجاپتی کے فرضی انکاونٹرس میں امیت شاہ کا مبینہ طور پر اہم رول ہے۔ سی بی آئی نے سہراب الدین اور پرجا پتی انکاؤنٹرس میں امیت شاہ کے خلاف چارج شیٹ داخل کی اور انہیں گرفتار کر کے گجرات کے سابرمتی جیل میں رکھا گیا تھا ۔ حیرت تو ان اپوزیشن جماعتوں پر ہے جو سیکولرازم کا دعویٰ اور مسلمانوں سے ہمدردی کا دم بھرتی ہیں۔ پھر بھی امیت شاہ کے مسئلہ پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
نریندر مودی حکومت نے اپنا پہلا بجٹ پیش کردیا جس میں تمام طبقات کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ 45 دن قدیم نریندر مودی حکومت جس نے عوام سے کئی وعدے کئے تھے، اس کے پاس بجٹ میں تمام کو خوش کرنے کے سواء کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ متوسط طبقات کو ٹیکس رعایت اور دیگر مراعات کے ذریعہ ووٹ بینک کی سیاست کی گئی۔ ساتھ ہی ساتھ دولت مند طبقہ اور صنعتی گھرانوں کے مفادات کی تکمیل کا خاص خیال رکھا گیا۔

انتخابی مہم کے دوران مودی نے عوام کو ہتھیلی میں جنت دکھائی تھی، اس کا نظارہ بجٹ میں کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ غربت کے خاتمہ اور مہنگائی پر قابو پانے کے سلسلہ میں بجٹ کسی رہنمائی سے قاصر رہا۔ حسب روایت بعض اشیاء کی قیمتیں کم اور بعض میں اضافہ کے اقدامات کئے گئے لیکن قیمتوں میں کمی کا راست طور پر غریبوں کو فائدہ نہیں ہوگا۔ ہیرے ، قیمتی پتھر ، ایل سی ڈی ، کلر ٹی وی ، کاسمیٹکس ، کمپیوٹرس جیسی چیزوں سے غریب اور لوور مڈل کلاس کا کیا تعلق؟ یہ دولتمند اور اپر مڈل کلاس کا ضرورت کا سامان ہے ۔ اس کی قیمت میں کمی سے عام آدمی کو کیا فائدہ ؟ ویسے بھی حکومت نے بجٹ سے قبل ہی ریل کرایوں کے علاوہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافہ کردیا تھا جس سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں پہلے ہی بڑھ چکی ہیں۔ کمر درد سے پریشان فینانس وزیر فینانس ارون جیٹلی پارلیمنٹ کی روایت سے ہٹ کر جس وقت اپنی نشست پر بیٹھ کر بجٹ پیش کر رہے تھے ، اس وقت کمر توڑ مہنگائی سے بدحال عام آدمی بجٹ میں اپنے لئے راحت تلاش کر رہا تھا۔ کاش کمر درد محسوس کرنے والے وزیر فینانس کو عام آدمی کے کرب کا احساس ہوتا۔ اچھے دن کا خواب دیکھنے والے غریبوں کے حصہ میں کوئی خاص خوشی نہیں آئی۔ بجٹ میں مسلم اقلیت کا تذکرہ صرف ایک بار کیا گیا وہ بھی دینی مدارس کو عصری بنانے کے حوالے سے۔ اس کے لئے حکومت نے 100 کروڑ روپئے مختص کئے ہیں۔ بظاہر یہ ایک اچھی اسکیم دکھائی دیتی ہے لیکن اصل مقصد دینی مدارس کے تشخص کو ختم کرنا ہے۔ کانگریس نے جو کام ادھورا چھوڑا تھا بی جے پی اسے مکمل کرنا چاہتی ہے۔ مسلمانوں کی تعلیمی و معاشی پسمادندگی اور تحفظات جیسے امور کے بجائے صرف دینی مدارس پر نظریں کیوں؟ دینی مدارس کا حکومت اور سرکاری امداد سے کیا تعلق ؟ عصری بنانے اور امداد کے نام پر مدارس کے اسلامی کردار کو مسخ کرنا اور ان کے قیام کے حقیقی مقاصد سے دور کرنا پس پردہ سازش کا حصہ ہے۔ مولانا طیب قاسمی ، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی علی میاں، مولانا منت اللہ رحمانی ، مولانا عبدالکریم پاریکھ جیسے جید اکابرین کے علاوہ صدر مسلم پرسنل لا بورڈ مولانا سید رابع حسنی ندوی نے ہمیشہ ہی حکومت کی اس سازش کے خلاف چٹان کی طرح کھڑے ہوکر دینی مدارس کے تشخص کا تحفظ کیا ۔ یہ وہی بی جے پی اور سنگھ پریوار ہے جس کے نزدیک دینی مدارس دہشت گردوں کو تیار کرنے کی فیکٹریاں ہیں۔ پھر اچانک انہیں دینی مدارس کو عصری بنانے میںدلچسپی کیوں ؟ حکومت کی امداد کے نام پر سرکاری اداروں کو دینی مدارس کے امور میں مداخلت کا موقع مل جائے گا۔ یقیناً حکومت کی اس تجویز کی تائید میں گنبد اقتدار کے بعض کبوتر اور خود ساختہ مذہبی اور سیاسی رہنما کھڑے ہوں گے لیکن مسلمانوں کو ان سازشوں کا بردباری اور حکمت سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ تاکہ اسلام کے قلعوں کا تحفظ ہوسکے۔ ائمہ مساجد و موذنین کی تنخواہوں کی حکومت کی جانب سے ادائیگی سے متعلق تجویز بھی اسی سازش کا حصہ ہے۔ امیت شاہ کی گجرات سے نئی دہلی ترقی پر معراج فیض آبادی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
جو تھے سیاسی گھرانے والے سب ایک نکلے
بجھانے والے جلانے والے سب ایک نکلے