جو اردو بولنے والوں کو دہشت گرد کہتے ہیں

پارلیمنٹ سیشن …سیاسی ہنگاموں کی تیاری
دہشت گردی …مسلم نوجوان پھر نشانہ پر

رشیدالدین
پارلیمنٹ کا بجٹ سیشن جو 23 فروری سے شروع ہوگا ، سیاسی ہنگاموں کی نذر ہوسکتا ہے۔ پارلیمنٹ دراصل عوام کے حق میں قانون سازی اور عوام کے حق میں فیصلوں کیلئے ہے لیکن افسوس کہ بدلتے سیاسی اقدار نے ان اداروں کو سیاسی مقصد براری کا ذریعہ بنادیا ہے۔ کوئی بھی پارٹی اس سیاسی کھیل سے مستثنیٰ نہیں۔ جو بھی پارٹی اقتدار میں ہو ، وہ پارلیمانی جمہوریت اور قانون ساز اداروں کے احترام کی دہائی دیتے نہیں تھکتی لیکن اپوزیشن میں آتے ہی سب کچھ بھلاکر سیاست میں مصروف ہوجاتی ہے ۔ سیاسی جماعتوں کے دہرے معیارات نے قانون ساز اداروں کی اہمیت اور احترام کو مجروح کردیا ہے۔ جو پارٹی اپوزیشن میں رہ کر پارلیمنٹ کو سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کرتی رہی، اس کی زبان سے پارلیمنٹ کے احترام کی باتیں کسی مذاق یا لطیفہ سے کم نہیں۔ جس طرح پارلیمنٹ کا سرمائی سیشن ہنگاموں کی نذر ہوگیا ، ٹھیک اسی طرح بجٹ سیشن کا حال ہوسکتا ہے ۔ سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے مسائل مل ہی جاتے ہیں۔ بعض ریاستوں کے اسمبلی انتخابات سے عین قبل بجٹ سیشن کا آغاز پارٹیوں کو پارلیمنٹ کے ذریعہ انتخابی مہم چلانے کا  موقع فراہم کردے گا۔ پارلیمنٹ سیشن کے آغاز سے قبل اروناچل پردیش میں صدر راج کا نفاذ ، کانگریس اور اس کی حلیفوں کو حکومت پر تنقیدوں کا موقع فراہم کرے گا ۔ اروناچل پردیش کی کانگریس حکومت کو   غیر مستحکم کرنے میں بی جے پی کے رول کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کانگریس اور دیگر جماعتیں دلتوں کی تائید حاصل کرنے حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں دلت طالب علم کی خودکشی کا مسئلہ اٹھاسکتی ہیں ۔ عالمی مارکٹ میں خام تیل کی قیمت میں کمی کے باجود مہنگائی  اپوزیشن کا موضوع بن سکتا ہے ۔

کانگریس پر جوابی حملہ کیلئے بنگلور میں غیر ملکی لڑکی سے بدسلوکی کے واقعہ کو بی جے پی استعمال کرسکتی ہے ۔ 25 فروری کو ریلوے اور 29 فروری کو عام بجٹ پیش کیا جائے گا ۔ نریندر مودی  حکومت کا یہ دوسرا بجٹ ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ ریلوے مسافرین اور عام آدمی کیلئے دونوں بجٹ کس حد تک راحت کا سامان کریں گے ۔ بجٹ کے قریب آتے ہی عوام کی توقعات میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ وہ مہنگائی میں کمی کی امید کرنے لگتے ہیں۔ متوسط طبقہ مختلف رعایتوں کا منتظر ہوتا ہے۔ صنعتی گھرانے اور دولتمند طبقہ کی امید کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ سب کا ساتھ  سب کا وکاس ، یکساں ترقی اور میک ان انڈیا کا نعرہ لگانے والی نریندر مودی حکومت بجٹ کے ذریعہ وعدوں کی تکمیل کی سمت کس حد تک پیش قدمی کرے گی ۔ غریبوں کو خوشحالی کا وعدہ کرنے والی حکومت کا یہ بجٹ غریب کے چہرہ پر کس حد تک خوشیوں کو لوٹا سکے گا؟ ہوسکتا ہے کہ مختلف ریاستوں میں  اسمبلی انتخابات کے پیش نظر مودی حکومت کا بجٹ شہرت پر مبنی اسکیمات اور اعلانات سے پر ہوگا۔ انتخابات سے قبل عوام سے جو وعدے کئے گئے تھے ، ان کی تکمیل کا عوام کو انتظار ہے۔ ہر برسر اقتدار پارٹی کی طرح بی جے پی نے بھی تعمیری اور مثبت بجٹ سیشن کیلئے اپوزیشن سے تعاون کی اپیل کی ہے لیکن 2G ، کوئلہ ، کامن ویلتھ گیمس اور دوسرے اسکامس پر بی جے پی نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی کارروائی کو جس طرح روکا تھا ، عوام ابھی بھولے نہیں ہیں۔ یو پی اے دور میں جس طرح بی جے پی نے پارلیمنٹ کو سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کیا ، اب کانگریس بھی وہی کچھ کر رہی ہے ۔ پارلیمنٹ کی کارروائی  بہتر انداز میں چلنے اور چلانے دونوں کا انحصار حکومت پر ہے ۔ عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کے ا قدامات کئے جائیں تو یقینی طور پر اپوزیشن کی تائید حاصل ہوگی۔ بیرون ملک سے کالے دھن کی واپسی ، ہر شہری کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے کے ڈپازٹ اور اچھے دن کا عوام کو انتظار ہے۔ وعدوں کی تکمیل کے ذریعہ ہی مختلف ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بہتر مظاہرہ کی امید کی جاسکتی ہے ، ورنہ دہلی اور بہار کی طرح مایوسی ، شرمندگی اور پشیمانی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ نریندر مودی حکومت کے 19 ماہ مکمل ہوگئے لیکن عوام کو اچھے دن کا احساس ایک دن بھی نہیں ہوسکا۔

نریندر مودی حکومت میں عوام کو کسی بھی مسئلہ سے راحت تو نہیں ملی لیکن عدم رواداری ، فرقہ وارانہ منافرت ، جارحانہ فرقہ پرستی اور مذہبی اقلیتوں پر مظالم کے واقعات نے عدم تحفظ اور بے چینی کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ 19 ماہ میں شائد کوئی دن ایسا نہ ہو جس دن نفرت کے سوداگروں نے زہر نہ اگلا ہو۔ مختلف عنوانات کے تحت کبھی زبانی تو کبھی عملی طور پر مسلم اور دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ وزیراعظم ان عناصر پر قابو پانے کے بجائے دنیا کی سیر و تفریح کے مزے لوٹتے رہے۔ کبھی کوئی مہمان ہندوستان آجائے تو وزیراعظم کی گھر واپسی ہوئی ورنہ زیادہ تر فلائیٹ موڈ میں رہے

اور سیلفی کے ذریعہ نوجوان نسل کے رجحان کو سیل فون کے زیادہ استعمال کی طرف راغب کرنے میں مصروف رہے۔ اس طرح سیل فون کمپنیوں کے برانڈ ایمبسیڈر کا رول ادا کیا ۔ تقریباً 40 ممالک کا دورہ مکمل ہوا لیکن پڑوسیوں سے روابط خوشگوار نہیں ہوسکے۔ اندرون ملک سنگھ پریوار کو حکومت کے اہم فیصلوں میں کھلی چھوٹ دیدی گئی اور ہندوتوا ایجنڈہ مسلط کرنے زعفرانی ایکشن پلان تیار کیا گیا ۔ سنگھ پریوار کی زہر افشانی اور اقلیتوں پر حملے ایک طرف  جاری تھے تو دوسری طرف نظم و نسق میں موجود زعفرانی ذہنیت نے خود کو بے نقاب کردیا۔ 10 سالہ یو پی اے اقتدار کے بعد نریندر مودی حکومت کے نظم و نسق میں چھپے آر ایس ایس کے پرچارک جس طرح منظر عام پر آرہے ہیں، اس سے اندازہ ہوا کہ ہر سطح پر ایڈمنسٹریشن میں  زعفرانی ذہنیت سرائیت کرچکی ہے۔ جب کبھی موقع ملتا ہے، وہ اپنی اصلیت ظاہر کرتے ہیں۔ مختلف عنوانات سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے والوں نے رام مندر کی تعمیر اور دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کے حوصلوں کو  پست کرنے کا ایجنڈہ  تیار کیا ہے۔ حکومت میں شامل افراد سرکاری طور پر رام مندر کی تعمیر کی باتیں کر رہے ہیں اور تعمیری اشیاء اکھٹا کرتے ہوئے اترپردیش کو فرقہ وارانہ کشیدگی کی آگ میں جھونکنے کی تیاری ہے ۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ دہشت گردی کے نام پر مسلم  نوجوانوں کو ہراساں کرنے کی مہم کا آغاز ہوگیا ۔ ملک میں ISIS کے خطرہ کا ہوا کھڑا کرتے ہوئے مسلم نوجوانوں کے تابناک مستقبل کو تاریک بنانے کی سازش کا ا حیاء کیا گیا ۔ کانگریس دور حکومت میں بھی نظم و نسق میں مو جود زعفرانی عناصر نے یہی کیا تھا۔ ایسے وقت جبکہ مسلم نوجوان تعلیم کی طرف راغب ہورہے ہیں اور مسابقتی امتحانات میں بہتر مظاہرے کے موقف میں ہیں،

ایسے میں ایک منظم سازش کے ذریعہ ان پر دہشت گردی کا لیبل لگادیا گیا اور پسماندگی کی تاریک وادیوں میں ڈھکیلنے کی کوشش کی گئی ۔ دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کو نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں بدنام کیا جانے لگا تاکہ وہ تعلیم و روزگار کے بہتر مواقع سے محروم ہوجائیں۔ پچھلی حکومتوں میں انڈین مجاہدین اور حرکت الجہاد الاسلامی (HUJI) کے نام پر مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا اور اب آئی ایس آئی ایس کے نام پر نوجوانوں کے مستقبل سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ دہشت گردی کے الزام کے تحت نشانہ بنائے گئے، نوجوانوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پروفیشنلس کی اکثریت ہے۔ دراصل مسلمانوں کی صلاحیت اور ترقی شرپسندوں کو برداشت نہیں۔ اب تو وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے مسلم مذہبی شخصیتوں کا اجلاس طلب کرتے ہوئے آئی ایس آئی ایس سے نمٹنے کیلئے تعاون کی اپیل کی ہے۔ وزیر داخلہ کی جانب سے اجلاس طلب کرنا خود حکومت کی ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے ۔ راج ناتھ سنگھ نے جن مذہبی قائدین سے مشاورت کی ، وہ مسلمانوں کے کامل نمائندہ نہیں ہیں۔ غیر اہم شخصیتوں کے ساتھ اجلاس کے بجائے مسلم پرسنل لا بورڈ ، ملی کونسل اور مسلم  مجلس مشاورت جیسے اداروں اور حضرت رابع حسنی ندوی جیسی شخصیت سے رجوع ہونا چاہئے تھا ، جو حکومت کے اس پروپگنڈہ کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے راجیہ سبھا کے سابق رکن احمد سعید ملیح آبادی نے پارلیمنٹ میں حکومت کو چیلنج کیا تھا کہ وہ انڈین مجاہدین کے دفتر کا پتہ بتائے، وہ انعام دینے کیلئے تیار ہیں۔ جس طرح انڈین مجاہدین کا پتہ آج تک حکومت نہیں بتاسکی ، ٹھیک اسی طرح آئی ایس آئی ایس کے ہندوستان میں وجود کو ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔ ہر سال 26 جنوری اور 15 اگست سے عین قبل دہشت گرد حملے کا ڈرامہ کرتے ہوئے چند نوجوانوں کو رسواء کیا جاتا ہے ۔ یہ سلسلہ اندرا گاندھی کے دور سے جاری ہے۔ حکومت بھلے ہی کانگریس کی نہیں رہی لیکن کانگریس کی روایات آج بھی برقرار ہیں۔ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ہندوستان میں نہ ہی آئی ایس آئی ایس کا کوئی وجود ہے اور نہ ہی مسلم نوجوانوں میں کوئی رجحان ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کو مکمل آزادی اور ترقی کے مواقع حاصل ہیں، ایسے میں ملک سے مسلمانوں کو نہ ہی کوئی شکایت ہے اور نہ مایوسی۔

دراصل زعفرانی ذہنیت کے عناصر مسلمانوں پر نفسیاتی حملہ کے ذریعہ انہیں دوسرے درجہ کے شہری کا احساس دلانا چاہتے ہیں۔ مکہ مسجد ، مالیگاؤں اور اجمیر شریف کے بم دھماکوں کیلئے بھی پہلے مسلم نوجوانوں پر شک کیا گیا لیکن حقیقت میں زعفرانی دہشت گردی کا چہرہ بے نقاب ہوا۔ افسوس اس بات پر ہے کہ قومی تحقیقاتی ایجنسی کے حکام مالیگاؤں بم دھماکوں کے ملزمین سادھوی پرگیہ سنگھ اور کرنل پروہت پر مکوکا قانون سے دستبرداری کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ بے قصور مسلمانوں پر آئی ایس آئی ایس کا لیبل اور حقیقی خاطیوں سے مہربانی یہ کیا دہرا معیار ہے۔ مہاراشٹرا کی حکومت نے اردو میڈیم مدارس میں مسلم طلبہ کو انتہاپسندی سے روکنے کے نام پر مہم کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد دراصل مسلمانوں کو دہشت گردی سے وابستہ ظاہر کرنا ہے۔ دراصل ناگپور ہیڈکوارٹر کے اشارہ پر مہاراشٹرا کی بی جے پی حکومت نے یہ مہم شروع کی ہے جو مسلمانوں پر نفسیاتی حملے کا حصہ ہے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی سے کبھی بھی مسلمانوں کا کوئی تعلق نہیں رہا۔ اس کا ثبوت مودی حکومت کے 19 ماہ میں دہشت گردی کا ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا۔ برخلاف اس کے مودی حکومت سرحدوں کی حفاظت میں ناکام ہوچکی ہے۔ مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنا اور بیف جیسے مسائل پر حملے سراسر ظلم نہیں تو اور کیا ہے ؟ دہشت گردی سے مسلمانوں کو جوڑ کر ایک فرضی سایہ تیار کرتے ہوئے مسلمانوں کو مشکوک بنانے کی یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوپائیں گی۔ منور رانا نے موجودہ حالات پر کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے   ؎
ہماری بے بسی دیکھو انہیں ہمدرد کہتے ہیں
جو اردو بولنے والوں کو دہشت گرد کہتے ہیں