جن کے چہرے پہ چہرے بہت ہیں

رشیدالدین

تمام مذاہب کا یکساں احترام، مذہبی رواداری، اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے کی آزادی اور مذہبی منافرت کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی۔ یہ الفاظ وزیراعظم نریندر مودی کی زبان سے ادا ہوئے جس پر یقیناً ملک ہی نہیں دنیا نے حیرت کا اظہار کیا ہوگا۔ ہمیں بھی نریندر مودی کی تقریر سنتے ہوئے یقین نہیں ہورہا تھا کہ وہی مودی ہیں جو گزشتہ آٹھ ماہ سے ملک میں جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کی سرگرمیوں پر خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے اور لب کشائی کی زحمت نہیں کی۔ کارروائی توکجا مودی نے ان سرگرمیوںکی مذمت نہیں کی ۔ عیسائی فرقہ کی مذہبی تقریب میں نریندر مودی نے جب مذہبی رواداری اور مذہبی آزادی کے دستور میں دیئے گئے حقوق کا تذکرہ کیا تو عوام یہ طئے نہیں کر پارہے تھے کہ یہ مودی کے ’’من کی بات‘‘ ہے۔ شاید تقریر کے اسکرپٹ رائٹر نے ان کی مرضی کے بغیر یہ سب کچھ لکھ دیا تھا جسے پڑھنے کے سوا مودی کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ اقوام متحدہ اور مغربی ممالک نے ہندی زبان میں من کی بات بتانے والے مودی خود اپنے ملک میں انگریزی زبان کے سہارے مذہبی رواداری اور آزادی کا درس دے رہے تھے۔

ہوسکتا ہے کہ وہ ملک کے باہر موجود بعض طاقتوں کو یہ باتیں سنانا چاہتے تھے جنہوں نے مودی کو مذہبی آزادی کے تحفظ کی صلاح دی تھی۔ نریندر مودی کی ان باتوں کی زیادہ ضرورت اندرون ملک ان طاقتوں کو تھی جو بی جے پی کی سیاسی سرپرستی میں سماج میں نفرت کا زہر گھول رہے ہیں۔ اگر مودی کو یہ درس سنگھ پریوار کو دینا مقصود ہوتا تو یقیناً وہ ہندی میں بات کرتے لیکن ان کے مخاطب سنگھ پریوار نہیں بلکہ امریکی صدر براک اوباما تھے جنہوں نے دورہ ہند اور پھر وطن واپسی کے بعد مودی کو راج دھرم نبھانے کی نصیحت کی تھی۔ چونکہ عیسائیوں اور ان کی عبادت گاہوں پر سنگھ پریوار کے حملوں کے بارے میں اوباما فکرمند ہیں اس لئے وزیراعظم نے عیسائیوں کی تقریب میں اوباما کو ان کی زبان میں پیام پہنچادیا اور دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ہندوستان اپنی روایات پر قائم ہے۔ کسی بھی انسان اور اس کی باتوں پر اعتبار اس کے کردار، عمل اور سابق ریکارڈ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ گجرات میں ہزاروں بے قصور مسلمانوں کا قتل عام اور کئی فرضی انکاؤنٹرس جن کے دور میں ہوئے اور اس پر ندامت کا کوئی اظہار تک نہیں۔ ایسی شخصیت کی زبان سے مذہبی رواداری کی باتیں محض دکھاوا اور اداکاری نہیں تو کیا ہے؟ مرکز میں برسر اقتدار آتے ہی ملک میں مسلمانوں کے خلاف سنگھ پریوار کو کھلی چھوٹ دینے والی شخصیت کی زبان سے رواداری کی باتیں ایسی ہی ہیں جیسے کوئی اپنے عہدہ کی رسم نبھا رہا ہو۔

گزشتہ 8 ماہ میں مسلمانوں ، ان کی عبادت گاہوں ، دینی مدارس اور مذہبی تشخص کو مٹانے کیلئے مختلف عنوانات کے تحت کیا کچھ نہیں کیا گیا لیکن دستور کی پاسداری کا حلف لینے والے وزیراعظم نے خاموشی نہیں توڑی لیکن عیسائیوں کے مسئلہ پر اوباما کے حرکت میں آتے ہی مودی کو دل سے نہ سہی لکھی ہوئی اسکرپٹ کے ذریعہ اوباما کو مطمئن کرنا پڑا۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دراصل ایک اسٹیج شو میں مودی نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ مودی کی اس تقریر کے ساتھ ہی مختلف گوشوں سے خیرمقدمی بیانات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وزیراعظم کی کرسی کی ذمہ داری نے مودی کو بدل دیا ہے۔ جارحانہ فرقہ پرستی کے داغ دھونے اور امیج کو کلین کرنے کی کوشش کے حصہ کے طور پر ’’سوچھ امیج‘‘ مہم کے تحت یہ ڈرامہ کیا گیا۔ زبانی بیان بازی سے مذہبی عدم رواداری اور فرقہ وارانہ منافرت پر قابو نہیں پایا جاسکتا ، اس کیلئے عملی ثبوت دینا ہوگا۔ مودی جس وقت دنیا کے روبرو اپنا امیج بنانے کی کوشش کر رہے تھے، مہنت ادتیہ ناتھ نے تمام مسلم عبادتگاہوں میں مورتی بٹھانے سے متعلق شرانگیزی کا بیان دیا۔ وشوا ہندو پریشد نے کہا کہ عیسائیوں کو وزیراعظم نے نصیحت کی جو بقول ان کے ہندوؤں پر حملے کر رہے ہیں۔

آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے تنظیم کے خفیہ اجلاس میں قائدین اور سوئم سیوکوں کو مشورہ دیا کہ وہ ہندوتوا کے ایجنڈہ پر قائم رہیں اور ان امور پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں جو بی جے پی کو ناگوار گزریں۔ ظاہر ہے کہ سنگھ پریوار کا مطلب صاف ہے کہ مودی کے باتوں کا ان کی سرگرمیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ براک اوباما کی پھٹکار کے بعد عیسائیوں کے پروگرام میں اس طرح کا اظہار خیال کوئی کمال نہیں۔ سنگھ پریوار کا اجلاس طلب کر کے یا پھر ناگپور جاکر مودی ان باتوں کو دہراکر دکھائیں۔ چناؤ میں آر ایس ایس اور سنگھ کی مدد سے کامیابی حاصل کرنے والی بی جے پی کے وزیراعظم کس طرح یہ جرات کرسکتے ہیں۔ کرسی بچانا ہو تو انہیں سنگھ کی اطاعت کرنی ہوگی۔ گھر واپسی کے نام پر عیسائی مذہب قبول کرنے والے خاندانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کی مہم کے تناظر میں مودی کا یہ بیان محض رسمی نوعیت کا ہے۔ وزیراعظم کو بھولنا نہیں چاہئے کہ یہ سنگھ پریوار اور عیسائیوں کے درمیان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ تمام مذہبی اقلیتوں کا ہے جن میں مسلمان بھی شامل ہیں جو ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہیں۔ اگر وزیراعظم میں ہمت ہو تو آگرہ سے کیرالا اور ٹاملناڈو تک ان تمام علاقوںکا دورہ کریں جہاں جبری گھر واپسی کے کیمپ لگائے گئے تھے اور ان تمام کو دوبارہ اپنی پسند کے مذہب پر واپسی کی راہ ہموار کریں۔ کیا وزیراعظم ان پروگراموں کی جانچ کرتے ہوئے خاطیوں کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں ؟ وزیراعظم قومی یکجہتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرتے ہوئے فرقہ وارانہ منافرت کے خلاف سخت قوانین وضع کریں اور تمام چیف منسٹرس کو کارروائی کا اختیار دیں۔ کیا یہ ممکن ہے؟ ظاہر کہ بی جے پی اس طرح کے عملی اقدامات کا تصور بھی نہیں کرسکتی کیونکہ اس کے سیاسی سرپرستوں کا ایجنڈہ ہندو راشٹر ہے۔

مذہبی آزادی کے تحفظ اور منافرت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کے دعوؤں پر عوام اس وقت تک اعتبار نہیں کرسکتے جب تک بی جے پی کے منشور میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا نکتہ شامل رہے گا۔ پہلے اس کو ایجنڈہ سے حذف کریں پھر اس کے بعد عوام سے روبرو ہوں۔ وزیراعظم کو اپنی سنجیدگی ثابت کرنے کیلئے کابینہ میں شامل سادھوی نرنجن جیوتی، سنجیو بلیان اور گری راج سنگھ کو برطرف کرنا چاہئے۔ مظفر نگر فسادات کے ملزم سنجیو بلیان اور مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دینے والے گری راج سنگھ کو کابینہ میں شامل رکھتے ہوئے نریندر مودی کے یہ دعوے کھوکھلے ثابت ہوں گے۔ ناتھورام گوڈسے کو دیش بھکت اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے والے ساکشی مہاراج کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

مظفر نگر کے ایک ملزم سنگیت سوم جنہیں جیل میں ہونا چاہئے، مرکز نے زیڈ پلس سیکوریٹی فراہم کی ہے۔ وزیراعظم کو پہلے پارٹی میں موجود ان عناصر کے خلاف کارروائی کرنی ہوگی جو منافرت پھیلانے کے چمپین ہے۔ دراصل نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد فرقہ پرست طاقتوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور وہ بے قابو ہیں۔ نریندر مودی کا ماضی اس قدر داغدار ہے کہ اقلیتیں ان کی باتوں میں آنے والی نہیں ہیں۔ عوام کو تلخ تجربہ ہے اور وہ عمل کی کسوٹی پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس وقت تک اعتبار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قول و فعل میں تضاد کے ذریعہ عوام کا دل جیتا نہیں جاسکتا۔ اس کا ثبوت دہلی کے اسمبلی انتخابات میں سیکولر رائے دہندوں کا فیصلہ ہے۔ جنہوں نے فرقہ پرست طاقتوں کو منہ توڑ جواب دیا۔ نریندر مودی ہندو ویراٹ سمیلن اور پارلیمنٹ کے مجوزہ سیشن میں اس تقریر کو دہرانے کی کیا ہمت کرپائیں گے؟ گجرات مسلم کش فسادات کے ایک بھی ملزم کو سزا نہیں ملی اور 10 برس کے بعد بھی مظلومین انصاف سے محروم ہیں ۔ برخلاف اس کے فسادات اور فرضی انکاؤنٹر کے ملزمین کو برات مل رہی ہے، جن میں سیاسی قائدین اور پولیس کے اعلیٰ عہدیدار شامل ہیں۔ ملک کا عدلیہ تو آزاد ہے اور اس کی غیر جانبداری پر شبہ کی کوئی گنجائش نہیں لیکن حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی استغاثہ کو کمزور کردیا گیا جس کے نتیجہ میں ملزمین کو کلین چٹ مل رہی ہے۔ یہ دراصل انصاف کا خون ہے۔ جو حکومت خاطیوں کو وزارت کا تحفہ دے اور پارٹی اور حکومت میں اہم عہدوں پر فائز کرے، اس سے مذہبی آزادی کے تحفظ کی امید کرنا فضول ہوگا۔ جب حکومت کا سربراہ خود ملزمین کی پشت پناہی کرے تو تحقیقاتی اداروں کے انداز کارکردگی میں تبدیلی فطری امر ہے۔

اس کا نتیجہ ہے کہ فرضی انکاؤنٹر کے ملزم گجرات کے اعلیٰ پولیس عہدیدار ضمانت پر رہا ہورہے ہیں۔ ان میں سے ایک نے تو ’’اچھے دنوں‘‘ کی واپسی کی بات کہہ کر سرکاری سرپرستی کا واضح اشارہ دیا ہے۔ عدلیہ کو ان معاملات کی اپنے طور پر تحقیقات کرنی چاہئے کہ کس طرح ثبوت اور گواہوں کو مٹانے اور کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ موجودہ حالات میں عدلیہ ہی مظلومین کیلئے امید کی آخری کرن ہے ۔ اسی دوران بعض نام نہاد علماء نے آر ایس ایس کے قائد اندریش کمار سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ کھلکھلاکر ہنستے ہوئے تصاویر لی گئیں۔ آخر یہ خود ساختہ علماء بابری مسجد کی شہادت یا پھر گجرات کے مسلم کش فسادات کے آر ایس ایس کے کارنامے پر ہنس رہے تھے؟ مظفر نگر کے فسادات کو کیا انہوں نے بھلادیا؟ میڈیا اور سوشیل میڈیا میں جس طرح کی تصاویر منظر عام پر آئیں ، اس سے نام نہاد علماء کی آر ایس ایس قائد سے قربت اور روابط کا ثبوت ملتا ہے ۔ جہاں تک مودی کے بیان کا تعلق ہے ، یہ کہنا ان کی مجبوری ہے ۔ وہ اور سارا سنگھ پریوار مل کر بھی ملک میں مذہبی آزادی اور رواداری کی روایات کو ختم نہیں کرسکتے۔ ہندوستان میں دستور ، قانون اور عدلیہ کی بالادستی جب تک رہے گی ، اس وقت تک فرقہ پرست طاقتوں کے عزائم ناکام ہوں گے۔ حنا تیموری نے کہا ہے ؎
اس زمانہ میں ایسے بہت ہں
جن کے چہرے پہ چہرے بہت ہیں