جنید میرا بیٹا

ہرش مندر
جنید میرا بیٹا تھا
جب وہ بقید حیات تھا میں اسے نہیں جانتا تھا لیکن اس کی موت پر اورجس انداز میں اس کی موت واقع ہوئی اس کا غم میں نے اپنے خود کے بیٹے کی طرح منایا، اس کے خواب اس مادہ پرست دنیا سے میل نہیں کھاتے تھے۔ وہ ایک عالم اور معلم قران بننے کا خواہاں تھا دوسروں کو قران کی تعلیم دینے کی خواہش اس کے قلب میں موجزن تھی۔ اور ایک دن وہ جامع مسجد کا امام بننے کی تمنا رکھتا تھا۔ اپنے ان مقاصد کی تکمیل کیلئے 6 سال کی عمر میں اسے پڑوسی علاقہ نو ہریانہ کے ایک دینی مدرسہ میں بھیجا گیا وہ بہت ہی سنجیدہ اور ذہین طالب علم تھا جس نے مقدس قران مجید کے 80000 الفاظ کو ازبر کرلیا تھا اور اس غیر معمولی کارنامہ کے عوض اسے حافظ قران کی خلعت عطا کی جانے والی تھی۔

جنید سال میں ایک مرتبہ ماہ رمضان المبارک میں مدرسہ سے اپنے گھر آیا کرتا تھا۔اس سال رمضان میں اس نے اپنے گاؤں میں بڑے فخر سے 20دنوں تک قران مجید سنائی اور شائد نماز تراویح میں وہ قران مجید سناتا رہا اور اپنے قتل سے ایک دن قبل ہی اس نے ختم قرآن کیا تھا۔ جنید کی حوصلہ افزائی اس کی تعریف و ستائش کے طور پر گاؤں والوں نے اسے چھوٹی سی رقم بطور نذرانہ پیش کی۔ اس رقم میں اس کے والد نے کچھ اور رقم جوڑ دی اس طرح جنید 1500 روپئے لئے پرانی دہلی کے بازار پہنچ گیا تاکہ اپنے لئے نئے ملبوسات، جا نماز اور بعض دوسرے تحائف خریدسکے۔ اس وقت جنید نے اپنے سر پر ٹوپی پہنی ہوئی تھی اور یہی ٹوپی اس کے لئے مہلک ثابت ہوئی۔ میں اپنے دوستوں کے ایک گروپ کے ساتھ ہریانہ کے ضلع فریدہ آباد میں واقع اس کے گاؤں کھنڈاولی پہنچا، ہم یہ سوچ رہے تھے کہ جنید کے غمزدہ باپ اس کی تڑپتی بلکتی ماں اور غم سے نڈھال بھائی بہنوں کو پرسہ دیں تو کس طرح دیں، ان سے کیا کہے۔ اس کے باوجود بڑی ہمت سے ہم نے انھیں پرسہ دیا اور جنونی فرقہ پرستوں کے ہاتھوں جنید کے قتل پر گہرے صدمہ کا اظہار کیا۔
ہمیں پتہ تھا کہ ہمارے یہ تعزیتی الفاظ ایک ایسے خاندان کیلئے زیادہ معنی نہیں رکھتے تھے جسے انتہائی ظالمانہ انداز میں اس کے ایک فرد سے محروم کرتے ہوئے زندگی بھر کا غم دیا گیا تھا۔ لیکن ہم نے جو بھی الفاظ ادا کئے وہ غمزدہ ارکان خاندان کیلئے کچھ نہ کچھ تسلی کا باعث ضرور بنے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ صرف دو ماہ قبل ہی ہم نے اسی طرح کا ایک سفر کیا تھا تاکہ نوح میں پہلو خان کے غمزدہ ارکان خاندان کو پرسہ دیں ان کی دلجوئی کریں، وہی پہلو خان جنہیں گاؤ رکھشکوں نے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ظالمانہ انداز میں موت کے گھات اُتار دیا تھا۔ ہمارا یہ سفر شائد ان کے ساتھ اظہار یگانگت کیلئے بھی تھا اور اظہار اور جنونیوں کی درندگی کا کفارہ بھی تھا۔ اور ہم سوچنے لگے کہ ہمیں اور ایسے کتنے سفر کرنے پڑیں گے؟ ہمیں بحیثیت ایک ملک ایک قوم نفرت و تشدد کے ذریعہ تباہی و بربادی کا ننگا ناچ کرنے والوں سے یہ کہنا ہوگا کہ بہت ہوچکا مزید اور نہیں، ساتھ ہی ہم کھنڈوالی اس لئے پہنچے تاکہ جنید کے ارکان خاندان سے یہ کہہ سکیں کہ آپ کی برہمی غصہ اور غم میں ہم برابر کے شریک ہیں، آپ کا غم بانٹنے کیلئے یہاں آئے ہیں۔ اگرچہ اس سے آپ کا رنج و الم کم نہیں ہوگا لیکن آپ لوگوں کو یہ اندازہ تو ہو کہ آپ لوگ تنہا نہیں ہیں۔

جنید کے والد جلال الدین جن کی عمر شائد پچاس سال سے بھی کم ہوگی مجسم غم بنے بیٹھے تھے ساکت و جامد، ان کی حالت سے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے بیٹے کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اسے قبول کرنے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں۔ انھیں اپنے چھوٹے سے مکان کے باہر جمع گاؤں کے لوگوں کی کثیر تعداد کی بھی کوئی پرواہ نہیں تھی اسی چھوٹے سے مکان کے ایک کونے میں ایک سادہ لباس پولیس انسپکٹر، جلال الدین کے بیٹوں سے جنید اور ان کے ساتھ ٹرین میں پیش آئے واقعات کے بارے میں تفصیلات حاصل کررہا تھا لیکن اپنی نوٹ بک میں وہ کچھ بھی تحریر میں نہیں لارہا تھا۔ اسی دوران گاؤں کا ایک عہدہ دار گھر میں داخل ہوا اور جلال الدین سے کہنے لگا کہ اسے اپنا مکان صاف ستھرا رکھنا ضروری ہے کیونکہ ایک سینئر سیاستداں اور سابق چیف منسٹر کچھ دیر میں ان کے مکان آنے والے ہیں۔
جلال الدین نے بڑی خاموشی سے ہماری تعزیت قبول کی اور صرف اُس نے یہ کہکر پھر چپ سادھ لی ’’ میرے بیٹے بہت ڈرے ہوئے ہیں اور مجھے اُمید ہے کہ میرا بڑا لڑکا شاکر جو اسپتال میں زیر علاج ہے بہت جلد ٹھیک ہوجائے گا اس کے دو بچے ہیں۔‘‘ ہمارے گروپ میں موجود خواتین زنانہ میں گئیں اور جنید کی ماں کے ساتھ بیٹھ گئیں جو مسلسل روئے جارہی تھی شدت غم سے اس ماں کی حالت بگڑ رہی تھی۔ اس وقت سی پی ایم لیڈر سبھاشنی علی بھی جنید کی ماں کے ساتھ موجود تھیں۔ ماں سائرہ بیگم نے روتے ہوئے بتایا کہ میرا بیٹا جنید بہت چھوٹا تھا وہ یہ نہیں سمجھ سکا کہ اسے اپنے سر پر ٹوپی نہیں پہننی چاہیئے۔ میرے دوست جان دیال زنانہ خانہ میں گئے اور سائرہ کو بتایا کہ ان کی بیوی نے سائرہ کیلئے دعائیں روانہ کی ہیں اور پھر سب نے ملکر دعا کی۔

ہم مکان کے باہر جنید کے 18سالہ بھائی ہاشم کے ساتھ بیٹھ گئے جس کے چہرے پر داڑھی تھی اور سر پر ٹوپی۔ ہاشم پر بھی ٹرین میں چاقو سے حملہ کیا گیا تھا، ہاشم نے اس رات پیش آئے ہولناک واقعہ کی تفصیلات بتائیں۔ اب تو یہ واقعہ سارے ملک میں زبان زد خاص و عام ہے۔ اس نے بتایا کہ جامع مسجد دہلی کے قریب عید کی خریداری کے بعد تینوں بھائی صدر بازار کے اسٹیشن سے ایک لوکل ٹرین میں سوار ہوئے اور اپنی نشستیں سنبھال لی، اوکھلہ میں ہجوم ٹرین میں داخل ہوا اور جنید نے بطور احترام اپنی نشست سے اٹھ کر اس پر ایک ضعیف العمر شخص کو بٹھادیا اسی دوران 15 افراد کے ایک گروپ نے انتہائی بد تمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرے بھائیوں سے اپنی نشستیں خالی کرنے کیلئے کہا اور جب ان لوگوں نے اپنی نشستوں سے اٹھنے سے انکار کردیا تب ان لوگوں نے انھیں تھپر رسید کئے اور مارپیٹ شروع کردی ان کے سروں سے ٹوپیاں نکالکر پھینک دیں، داڑھیاں نوچ لی، وہ مذہب کا نام لیکر گالیاں بکنے لگے اور ان بھائیوں پر پاکستانی، گائے کا گوشت کھانے والے اور ختنہ والے کہکر طعنے کسنے لگے اس سنگین صورتال کو دیکھ کر ان بھائیوں میں سے ایک نے خوف کے عالم میں گاؤں میں موجود اپنے بھائیوں کو فون پر خبر کردی اور انھیں بچانے کیلئے فوری بلبھ گڈھ ریلوے اسٹیشن آنے کیلئے کہا جہاں سے وہ اپنے گاؤں جاسکتے تھے۔ اس دوران بلبھ گڈھ اسٹیشن آگیا لیکن ان شرپسندوں نے ان بھائیوں کو ٹرین سے اترنے نہیں دیا اور جو بھائی ان کے بچاؤ کیلئے پہنچے تھے انھیں بھی ٹرین کے ڈبے میں کھینچ لیا۔بلبھ گڈھ سے اگلے اسٹیشن آساوتی 9منٹ کے سفر کے دوران شرپسندوں نے چاقو نکال لئے اور تینوں بھائیوں پر چاقو سے متعدد وار کئے یہاں تک کہ ان بھائیوں نے مدد کیلئے چیخ و پکار شروع کردی لیکن بوگی میں موجود مسافرین میں سے کوئی بھی مدد کیلئے آگے نہیں بڑھا۔ حد تو یہ ہے کہ کمپارٹمنٹ میں ہر طرف خون ہی خون دکھائی دینے لگا اس کے باوجود لوگ مدد کی بجائے اپنے فونس پر ویڈیوز اور تصاویر لینے میں مصروف ہوگئے۔ مسافرین میں سے بعض نے تو حملہ آور نوجوانوں کو اُکسایا ان میں وہ ضعیف شخص بھی شامل تھا جسے جنید نے اٹھ کر اپنی نشست دے دی تھی۔ اساوتی اسٹیشن پر تینوں بھائیوں کو ٹرین سے باہر پھینک دیا گیا۔ اس گہما گہمی میں بعض قاتلین بھی ٹرین سے اُتر کر رفو چکر ہوگئے۔ ٹرین صرف ایک منٹ کیلئے رکی اور پھر سفر کیلئے آگے بڑھ گئی۔ یہ بھائی حیران و پریشان رہ گئے انھیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ کریں تو آخر کیا کریں۔ اس اسٹیشن پر بھی کوئی بھی ان کی مدد کیلئے آگے نہیں بڑھا۔ کوئی مسافر، کوئی ریلوے اسٹاف، کوئی پولیس والا یہاں تک کہ اسٹیشن کے دکاندار اور وہاں کاروبار کرنے والوں نے بھی ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ اس دوران جنید کے جسم سے خون بہتا رہا جس کے نتیجہ میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ اس کا سر اپنے بھائی کے گود میں جھول رہا تھا دوسرے دو بھائی بھی شدید زخمی پڑے تھے ان بھائیوں نے کسی نہ کسی طرح جنید کو پٹریاں عبور کرتے ہوئے ریلوے اسٹیشن کے باب الداخلہ پر لایا اس دوران ایک بھائی پلوال کے ایک خانگی اسپتال سے ربط پیدا کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ 45 منٹ بعد اس اسپتال کی ایمبولنس آئی لیکن اسپتال پہنچنے پر جنید کو مردہ قرار دیا گیا۔

جنید کے غمزدہ ارکان خاندان کو پرسہ دینے کے بعد میں اور میرے رفقاء آساوتی ریلوے اسٹیشن پہنچے اسٹیشن پر ریلوے حکام، دکانداروں اور دوسرے لوگوں سے بات چیت کی ہم نے ہر کسی سے یہی الفاظ سنے ’’ ہم میں سے کسی نے اس شام کچھ نہیں دیکھا ، ہم نے کچھ دیکھا ہی نہیں ‘‘جنید میرا بیٹا تھا وہ ان لوگوں کا بھی بیٹا تھا جن کے ساتھ اس نے ٹرین کے کمپارٹمنٹ میں اپنا آخری سفر کیا تھا اور اس ریلوے اسٹیشن پر موجود لوگوں کا بھی بیٹا تھا جہاں اس نے اپنی آخری سانس لی پھر بھی ان لوگوں نے اسے مرنے دیا اس کی جان نہیں بچائی۔