کرناٹک …مودی بمقابلہ راہول
سیکولر ووٹ کی تقسیم … بی جے پی ۔جے ڈی ایس آنکھ مچولی
رشیدالدین
کرناٹک انتخابات کی مہم نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے۔ 2019 عام انتخابات سے قبل کرناٹک کے نتائج کو مودی حکومت کی کارکردگی پر عوامی رجحان کے طور پر دیکھا جائے گا ۔ شمال مشرقی ریاستوں میں کامیابی کے بعد نریندر مودی کا وجئے رتھ کیا کرناٹک سے گزر پائے گا یا پھر سدا رامیا اسے روک لیں گے ؟ ملک بھر کی نظریں مودی کے وجئے رتھ پر ٹکی ہیں۔ اگر وہ کامیابی سے گزر جاتاہے اور کانگریس کے آخری مورچہ پر بھگوا پرچم لہرا دیا جائے تو راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی کی کامیابی کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔ اگر کرناٹک میں بی جے پی کو شکست ہوتی ہے تو اس کا اثر تینوں ریاستوں پر پڑ سکتا ہے۔ اس اعتبار سے کرناٹک بی جے پی اور کانگریس دونوں کیلئے ایسڈ ٹسٹ ہے۔ کرناٹک کی کامیابی دونوں پارٹیوں کیلئے آئندہ کامیابی کی نوید ثابت ہوگی۔ عوام کو یہ طئے کرنے میں سہولت ہوگی کہ 2019 ء میں ان کی پسند کیا ہو۔ نریندر مودی اور راہول گاندھی نے اپنے اپنے لاؤ لشکر کو انتخابی جنگ میں اتاردیا ہے۔ انتخابی مہم کے فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہوتے ہی دونوں جانب سے دلچسپ ریمارکس رائے دہندوں کیلئے تفریح طبع کا سامان کر رہے ہیں۔ نریندر مودی جو الفاظ کے جادوگر ہیں، وہ جملے بازی کے جوہر دکھا رہے ہیں جبکہ راہول گاندھی سیاسی تجربہ کی کمی کے باوجود جوابی حملوں کے ذریعہ مخالف کو پریشان کئے ہوئے ہیں۔ نریندر مودی علاقہ اور موقع محل کے لحاظ سے سیاسی چال چل رہے ہیں۔ کبھی ترقی تو کبھی خواتین کے تحفظ کے وعدوں اور کبھی سدا رامیا کو ’’سدا روپیہ سرکار‘‘ جیسے طنز کرتے ہوئے بی جے پی ریالیوں کی کامیابی کی ضمانت بن رہے ہیں۔ دوسری طرف راہول گاندھی نے فلم شعلے کے اہم کرداروں کی یاد تازہ کردی ۔ گبر سنگھ ٹیکس یعنی GST اور گبر سنگھ گروہ (گبر ، سامبا اور کالیا) کے طور پر بی جے پی قائدین کی نشاندہی کی۔ ان کا اشارہ مائیننگ اسکام میں ملوث ریڈی برادرس کی طرف ہے جو ان دنوں بی جے پی کے ساتھ ہیں۔ سابق ریاست حیدرآباد کے علاقوں میں مہم کے دوران سردار پٹیل کا تذکرہ کرتے ہوئے نریندر مودی نے سقوط حیدرآباد کی یاد تازہ کردی تاکہ مذہبی جذبات کو بھڑکایا جاسکے ۔ سردار پٹیل نے مملکت آصفیہ کے انڈین یونین میں انضمام کیلئے جو کچھ کیا ، اس سے مودی واقف ہیں لیکن کاش وہ ملک کے دفاع کیلئے نواب میر عثمان علی خاں کے تاریخی اور گراں قدر عطیہ کو یاد رکھتے۔ اگر یہ یاد ہوتا تو مودی اور سنگھ پریوار کا کوئی لیڈر نظام حیدرآباد کے خلاف لب کشائی نہ کرتے۔ 1965 ء میں جب چین سے جنگ چھڑگئی تو اس وقت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری نے قومی دفاعی فنڈ میں عطیہ کیلئے نظام سے اپیل کی۔ آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں کی مملکت اگرچہ ختم ہوچکی تھی پھر بھی انہوں نے پانچ ٹن سونا نیشنل ڈیفنس فنڈ میں دیا۔ سونے کی آج کی مالیت 1500 کروڑ روپئے بتائی جاتی ہے۔ ملک کی تاریخ میں کسی فرد یا ادارہ کی جانب سے دیا گیا یہ سب سے بڑا عطیہ تھا ۔ نظام کو پاکستان کا ہمدرد قرار دینے والے ایک بھی ایسی مثال پیش کریں جہاں ان کے کسی بھکت نے ایسا عطیہ دیا ہو۔ نریندر مودی نے کرناٹک کے بہتر مستقبل کیلئے بی جے پی کو ووٹ کی اپیل کی۔ کرناٹک کے عوام جاننا چاہتے ہیں کہ 2014 ء میں اچھے دن کا جو نعرہ لگایا گیا تھا ، اس کا کرناٹک کو کتنا فائدہ ہوا۔ کرناٹک بھی ہندوستان کا حصہ ہے، جب اچھے دن چار سال میں کرناٹک تک نہیں پہنچے تو پھر اسمبلی میں کامیابی کے بعد اچھے دن کی کیا ضمانت ہوگی۔
مودی نے خواتین کے تحفظ کا نعرہ لگایا ۔ بی جے پی قائدین اور خاص طور پر نریندر مودی کی زبان سے خواتین کے تحفظ کی باتیں عجیب لگتی ہیں۔ جنہوں نے اپنی گھر والی کا تحفظ نہیں کیا اور مستحقہ مقام دینے کے بجائے در در کی خاک چھاننے کیلئے چھوڑ دیا ہو، ان سے ملک کے خواتین کے تحفظ کے وعدے کھوکھلے دکھائی دیتے ہیں۔ مودی کچھ بھی وعدہ کرلیں قابل قبول ہے لیکن خواتین کے احترام اور حقوق کی باتیں ہضم نہیں ہوتی۔ جس خاتون کو وزیراعظم کی قیامگاہ میں ہونا چاہئے ، وہ بے سہارا کی طرح آشرم میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ وزیراعظم نے جب بیٹی بچاؤ کا نعرہ لگایا تو ہر کسی نے تعریف کی لیکن آج اس نعرہ کی اصلیت سامنے آئی تو بی جے پی اور سنگھ پریوار والوں سے اپنی بیٹیوں کو بچاؤ۔ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں لڑکیوں کی عصمت سے کھلواڑ کے جو شرمناک واقعات پیش آئے، اس میں بی جے پی قائدین حتیٰ کہ یو پی میں بی جے پی رکن اسمبلی کو گرفتار کیا گیا۔ جموں میں ایک کمسن کے ساتھ جس طرح درندگی کی گئی ، اس نے انسانیت کو شرمسار کردیا لیکن بی جے پی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ نریندر مودی کرناٹک کی خواتین سے ووٹ کی اپیل سے قبل جموں اور اترپردیش کے خاطیوں کو سزا دلائیں۔ روزانہ کسی نہ کسی ریاست میں خواتین سے کھلواڑ کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ ملک کی زیادہ تر ریاستوں اور مرکز میں بی جے پی برسر اقتدار ہے ، لہذا ذمہ داری بھی بی جے پی قائدین اور وزیراعظم پر عائد ہوگی۔ کرناٹک میں کیا منہ لے کر بی جے پی خواتین سے ووٹ مانگ رہی ہے۔ جموں اور یو پی میں ملزمین کی تائید میں مظاہرے تک کئے گئے لیکن وزیراعظم نے اپنی خاموشی کو نہیں توڑا۔ کشمیر کے ڈپٹی چیف منسٹر نے کمسن لڑکی اور مظالم اور قتل کو معمولی واقعہ قرار دیا۔ عہدہ کا حلف لینے کے چند گھنٹوں میں ڈپٹی چیف منسٹر کی یہ رائے بی جے پی ذہنیت کو بے نقاب کرتی ہے۔ جموں و کشمیر جہاں چیف منسٹر ایک خاتون ہیں، ان کے ڈپٹی کی حیثیت سے غیر ذمہ دارانہ بیان دنیا بھر میں ہندوستان کی بدنامی کا سبب بنا۔ ملزمین کے حق میں دھرنا دینے والے وزراء کو کابینہ سے علحدہ کیا گیا لیکن معمولی واقعہ قرار دینے والے ڈپٹی چیف منسٹر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔
مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے نریندر مودی نے ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کو صدر جمہوریہ کے عہدہ پر فائز کرنے کو بی جے پی کے کارنامے کے طور پر پیش کیا ۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی نے اے پی جے عبدالکلام اور ایک دلت قائد رامناتھ کووند کو اعلیٰ ترین دستوری عہدہ پر فائز کیا ہے۔ جہاں تک اے پی جے عبدالکلام کا تعلق ہے، ملک کیلئے ان کی خدمات کو فراموش کرنا بد دیانتی ہوگی۔ ملک کو میزائیل ٹکنالوجی میں دیگر ممالک پر سبقت دلانے کا کام ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام نے کیا تھا۔ ان کیلئے صدر جمہوریہ کا عہدہ کوئی شناخت نہیں رہا بلکہ وہ اس عہدہ کیلئے باوقار شخصیت کی طرح تھے۔ عبدالکلام کے سبب صدر جمہوریہ کے عہدہ کی شان میں اضافہ ہوا۔ جس وقت عبدالکلام کو این ڈی اے حکومت نے صدارتی عہدہ کا امیدوار بنایا ، مودی کا دہلی میں کوئی وجود نہیں تھا۔ این ڈی اے میں شامل چندرا بابو نائیڈو نے عبدالکلام کے نام کی تجویز پیش کی تھی جسے اس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے قبول کرلیا۔ اگر نریندر مودی اس وقت مرکز میں ہوتے تو شاید اے پی جے عبدالکلام صدر جمہوریہ نہ بنتے۔ نریندر مودی نے منظم حکمت عملی کے تحت سابق وزیراعظم دیوے گوڑا کی تعریف کی تاکہ عوام میں الجھن پیدا کرتے ہوئے سیکولر ووٹ تقسیم کئے جاسکے۔ تعریف کے دو دن بعد ہی مودی نے اپنا موقف تبدیل کرلیا اور دیوے گوڑا پر فرقہ پرست عناصر سے سازباز کا الزام عائد کیا ۔ وزیراعظم نے دیوے گوڑا کی تعریف کے ذریعہ دراصل مخلوط حکومت کے امکانات کو کھلا رکھا ہے۔ مودی کی زبان سے اکثر بی جے پی سے باہر کے قائدین کی تعریف نکلتی ہے جبکہ پارٹی میں کئی سینئر قائدین کو مودی نے گوشہ گمنامی میں پہنچادیا۔ ایل کے اڈوانی جو نریندر مودی کے گرو کا درجہ رکھتے ہیں، انکے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ عوام کے سامنے ہے۔ تریپورہ دورہ کے موقع پر مودی نے اڈوانی سے مصافحہ کرنا بھی گوارا نہیں کیا جبکہ سی پی ایم کے سابق چیف منسٹر مانک سرکار سے تعظیم کے ساتھ بات چیت کی ۔ ایل کے اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی جیسے قائدین جنہوں نے پارٹی کو دو ارکان پارلیمنٹ سے 140 تک پہنچایا، آج وہ اپنوں کے درمیان اجنبی کی طرح ہیں۔ نریندر مودی کو باہر والوں کی تعریف اور احترام سے پہلے گھر کے بزرگوں کی تعظیم کرنی چاہئے ۔ رام مندر کیلئے ملک بھر میں رتھ یاترا کے ذریعہ جارحانہ فرقہ پرستی کو ہوا دیکر بی جے پی کو فائدہ پہنچانے والے ایل کے اڈوانی آج پارٹی میں مایوسی اور رسوائی کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہیں مارک درشک منڈلی میں شامل کردیا گیا جو پارٹی کے اولڈ ایج ہوم کی طرح ہیں۔ جس دن نریندر مودی کا جادو اترنے لگے گا ، انہیں بھی قائدین مارک درشک منڈلی کا راستہ دکھاسکتے ہیں۔ بی جے پی کی ان تمام چالوں کے باوجود کرناٹک کے عوام کا فیصلہ کیا ہوگا ، اس پر سیاسی مبصرین کی نظریں ہیں۔ اگر کانگریس اقتدار برقرار رکھنے میں کامیابی ہوتی ہے تو آگے بھی کامیابی کا تسلسل جاری رہے گا۔ انتخابی مہم میں بی جے پی کی رفتار بظاہر تیز دکھائی دے رہی ہے اور کانگریس کو اپنا آخری مورچہ بچانا بھی ضروری ہے۔ نتائج میں اگر کانگریس بڑی پارٹی کے طور پر ابھرتی ہے تب بھی بی جے پی اسے حکومت تشکیل دینے نہیں دے گی ، جس طرح میگھالیہ اور گوا میں کیا گیا۔ انتخابی منظر پر ڈاکٹر راحت اندوری کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
فیصلہ جو کچھ بھی ہو منظور ہونا چاہئے
جنگ ہو یا عشق ہو بھرپور ہونا چاہئے