کے این واصف
خالق کائنات نے مخلوق کو ’’بھیجہ‘‘ یا دماغ سے نوازا ہے ۔ جسے ہمارے جسم میں حاکم کی حیثیت حاصل ہے ۔ سارے اعضا اس کے تابع یا حکم کے غلام ہوتے ہیں ۔ اس کے فیصلے صحیح ہوں یا غلط جسم کے سارے اعضاء کو ماننا ہی پڑتا ہے کیونکہ یہ ’’سر چڑھ کر بولتا‘‘ ہے یعنی بالفاظ دیگر یہ ہمارے جسم کا ’’وائٹ ہاوز‘‘ ہے جہاں سے صادر ہوا ہر فیصلہ دنیا کیلئے حرف آخر ہوتا ہے ۔ وہ کسی کو دہشت گرد قرار دے دے تو بغیر کسی ثبوت و شہادت کے دنیا اسے دہشت گرد مان لے گی ۔
اگر وہ کہہ دے کہ فلاں ملک میں تباہ کن ہتھیار ہیں تو دنیا کیلئے اس بات کا تسلیم کرنا لازم ہوجاتا ہے ۔ ان کے پاس ایک جیتے جاگتے انسان کی بات سے زیادہ ان کے بے جان کمپیوٹر کی قدر و قیمت ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک مرتبہ ہمارے اس وقت کے وزیر دفاع جارج فرنانڈیز جب امریکہ پہنچے تو امریکی ایمیگریشن کے کمپیوٹر نے انھیں مشکوک شخص قرار دے دیا ۔ اب جارج فرنانڈیز صاحب لاکھ یہ کہتے رہے کہ وہ ایک اتنے بڑے ملک کے وزیر دفاع ہیں اور ایک معروف شخصیت ہیں لیکن امریکی ایمیگریشن افسران کو تو اپنے کمپیوٹر پر زیادہ بھروسہ تھا لہذا انھوں نے جارج فرنانڈیز کی ایک نہ سنی اور تفتیش کے نام پر انھیں ’’ننگا‘‘ کردیا کیونکہ یہ ان کے کمپیوٹر کا حکم تھا ۔ ایسا ہی کچھ سلوک انھوں نے ہمارے سابق صدر جمہوریہ ہند عبدالکلام صاحب کے ساتھ بھی کیا تھا ۔ اور تو اور بالی ووڈ سے ہالی ووڈ تک جانے جانے والے ہندوستانی سوپر اسٹار شاہ رخ خان کو تک انھوں نے نہیں بخشا ۔ ان کے ساتھ ہوئی بدسلوکی کے خلاف بالی ووڈ نے ’’My Name is Khan‘‘ کے نام سے ایک فلم ہی بناڈالی ۔ خیر امریکہ نے تو صرف شک کی بنیاد پر دنیا کے کئی ممالک تباہ و تاراج کردئے تو بھلا ذی حیثیت ، قابل قدر اور معروف شخصیات کے ساتھ بدسلوکی ان کے پاس کیا اہمیت رکھتی ہے ۔
اب قارئین یقیناً سوچنے لگے ہوں گے کہ مضمون کا عنوان کیا ہے اور ہم کیا کچھ لکھے جارہے ہیں ۔ مگر ایسا نہیں ہے کہ ہم اپنے موضوع سے بھٹک گئے ہیں بلکہ ہم اصل بات پر آنے سے قبل یہ بتانا چاہ رہے تھے کہ آج کی دنیا میں یا تو ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ والا معاملہ ہے یا زور اور زر رکھنے والے کا سکہ چلتا ہے یا پھر جھوٹے ، چالاک ، مکار بھی اپنے سکے بلکہ ’’کھوٹے سکے‘‘ چلانے میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ خصوصاً سیاسی میدان میں تو آج وہی کامیاب ہیں جن کے پاس زر ، زور ، چالاکی ، مکاری اور سچ کو شرمسار کرنے والے جھوٹ بولنے کا ہنر ہو ۔ عوام کو جھوٹے نعروں کے فریب میں لاسکنے کا فن رکھتے ہوں ۔ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ، ان کی آنکھوں سے کاجل چرانے کا فن رکھتے ہیں ۔
دراصل ہم نے یہ ساری تمہید ایک قصہ سنانے کیلئے باندھی ہے جو پچھلے دنوں ہم نے ٹی وی پر ایک ریالٹی شو میں سنا تھا ۔ کسی بالی ووڈ کے اداکار نے یہ سیاسی طنز لئے ہوئے قصہ کو لطیفہ کے طور پر پیش کیا تھا ۔ قصہ یوں بیان کیا گیا تھا کہ ایک دن جنگل میں جانوروں کی جنرل باڈی میٹنگ ہوئی ۔ کئی مسائل زیر بحث آئے ۔ مختلف جانوروں نے اظہار خیال کیا ۔ کسی نے کہا کہ انسانوںکی آبادیاں پھیلتی جارہی ہیں اور جنگل کے رقبے کم ہوتے جارہے ہیں ۔ انسانوں کا یہ عمل ہمارے مستقبل کیلئے خطرے کا باعث ہے ۔ کسی نے کہا کہ انسانوں کے علاقے میں من مانی ، افراتفری اور بدنظمی کے ماحول کو ’’جنگل راج‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ ہمیں اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنی چاہئے ۔ کسی نے کہا انسان اپنی بداخلاقی کی حرکتوں کو کسی نہ کسی جانور سے منسوب کردیتے ہیں ۔ یہ سراسر ناانصافی اور ہماری بے عزتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ پھر باری آئی ایک بندر کی اس نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے لئے اہم مسئلہ یہ ہے کہ صدیوں سے ہمارے جنگل میں شیر ببر کی بادشاہت قائم ہے ۔ خاندانی حکومت کے اس سلسلے کو ختم ہونا چاہئے اور اس ’’ماساہاری‘‘ (گوشت خور) خاندان کے ظلم و ستم کا خاتمہ ہونا چاہئے اور جنگل پر بادشاہت کی اس موروثی اجارہ داری کے سلسلے کو ختم ہونا چاہئے ۔ بندر کی یہ گفتگو سن کر دوسرے بندر نے کہا کہ تمہاری بات بالکل درست لگتی ہے مگر ایسا کرنا کیوں کر ممکن ہوگا ۔
اس پر پہلے بندر نے کہا کہ ہم ’’شاکاہاری‘‘ (غیر گوشت خور) اپنا ایک الگ طاقتور گروپ بنائیں گے ۔ اور جنگل میں الیکشن کروائیں گے اور اپنا بادشاہ خود منتخب کریں گے تاکہ ہم شیر ببر کے ظلم سے نجات حاصل کرسکیں ۔ پلان کے مطابق الیکشن ہوئے اور بندر نے اپنے چالاکی اور مکاری کا بھرپور استعمال کیا ۔ اپنے فریبی نعروں اور جھوٹے وعدوں کے بل بوتے پر الیکشن جیت گیا اور جنگل کی بادشاہت کے منصب پر فائز ہوگیا ۔ کچھ روز بعد ’’بندر بادشاہ‘‘ کے دربار میں ہرنوں کا ایک بڑا جلوس احتجاج کرتے ہوئے آیا کہ شیر ایک ہرن کو اٹھالے گیا ۔ بندر پریشان ہوگیا کیونکہ وہ کچھ کر تو نہیں سکتا تھا مگر بندر تھا تو چالاک اس نے چند لمحے سوچ کر فوراً کہا کہ شیر ایسا ہرگز نہیں کرسکتا ۔ میں اس کو سبق سکھاؤں گا۔ ہرنوں نے اپنے کان ہلاکر اپنے بادشاہ کے عزم کی داد دی ۔ چالاک بندر نے اپنے آپ پر مصنوعی غصہ طاری کیا اور پھر دانت نکال کر غراتے ہوئے ایک درخت سے دوسرے درخت اور ایک شاخ سے دوسرے ڈال پر پھلانگتا رہا ۔ پھر تھک ہار کر ہانپتا کانپتا زمین پر آبیٹھا ۔ اور ہرنوں کے جھنڈ سے مخاطب ہو کرکہا ساتھیوں یہ اور بات ہے کہ میں شیر کا شکار ہوئے ہرن کو واپس تو نہ لاسکا مگر میں نے آپ کے سامنے اس کیلئے کافی جد وجہد اور دوڑ دھوپ تو کی جس کے آپ خود گواہ ہیں ۔ ہرنوں کا جھنڈ بندر کا جواب سن کر کچھ کہہ نہ سکا اور اپنا سا منہ لیکر واپس ہوگئے کیونکہ اس چالاک و مکار کو انھوں نے خود منتخب کیا تھا ۔
knwasif@yahoo.com