جنوبی کوریا کے کیمپ ہیمفریز میں ٹرمپ کی امریکی اور کوریائی فوجیوں سے ملاقات

 

مون جے اور فوجیوں کے ساتھ لنچ، مزید جنرلوں سے ملاقات کی خواہش
شمالی کوریا کو نیست و نابود کردیا جائے گا تاہم مذاکرات کا متبادل موجود
جنوبی اورشمالی کوریا کو علحدہ کرنے والے ’’غیرفوجی علاقہ‘‘ کے دورہ سے گریز
کیمپ ہیمفریز (جنوبی کوریا) ۔ 7 نومبر (سیاست ڈاٹ کام) کوریائی جزیرہ نما میں امریکی فوجیوں کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے والے دورہ پر آئے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ آج بیحد مسرور نظر آئے کیونکہ انہوں نے جس گرمجوشی سے امریکی اور جنوبی کوریائی فوجی قائدین سے ملاقات کی وہ اس بات کا ثبوت تھا کہ ٹرمپ بیحد خوش ہیں۔ ٹرمپ دو روزہ دورہ پر یہاں پہنچے ہیں جہاں جنوبی کوریائی قائدین کے ساتھ بات چیت کے دوران شمالی کوریا پر اس بات کا دباؤ بھی ڈالا جائے گا کہ وہ اپنا نیوکلیئر توانائی پروگرام ترک کردے۔ یاد رہیکہ حالیہ دنوں میں شمالی کوریا کے کم جونگ ان اور امریکی صدر ڈونالڈ کے درمیان اول الذکر کے ذریعہ کئے گئے نیوکلیئر بالسٹک میزائل لانچنگ کے بعد دونوںایک دوسرے کے مدمقابل تو نہیں ہوسکتے لیکن لفظی جنگ میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ اس وقت اگر کسی ملک نے امریکہ جیسے مستحکم ملک کی ناک میں دم کر رکھا ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ شمالی کوریا ہے اور جنوبی کوریا بھی یہ بات جانتا ہیکہ کم جونگ ان کو ٹرمپ کو دیوانہ بھی کہا تھا لہٰذا آج ٹرمپ شمالی کوریا کے خلاف جی بھر کر اپنے دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں کیونکہ جب انہیں تقریر کا موقع دیا جائے گا تو پھر سمجھئے کہ شمالی کوریا کی شامت آگئی۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ ٹرمپ کے جنوبی کوریا پہنچتے ہی انہوں نے بذریعہ ہیلی کاپٹر کیمپ ہیمفریرز میںواقع فوجی اڈہ کا دورہ کیا جو سیول سے تقریباً 40 میل کے فاصلہ پر واقع ہے جہاں انہوں نے اپنے مختصر سے خطاب کے دوران سیکوریٹی اور باہمی تجارت سے متعلق بیانات دیئے۔ البتہ آپریشنل خطاب کے دوران انہوں نے اس بات کی خواہش ظاہر کی کہ شمالی کوریا کو سبق سکھانا اس وقت ان کی (ٹرمپ) اولین ترجیح ہے اور اس کیلئے جنوبی کوریائی فوجی جنرلوں سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔

بہرحال اس معاملہ پر بہت جلد کوئی قطعی فیصلہ ہوجائے گا اور فیصلہ ہونا ضروری بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک جنوبی کوریا کے قائدین سے جو بھی بات چیت ہوئی ہے وہ حوصلہ ا فزاء ہے کیونکہ بات چیت کے مطابق امریکہ میں روزگار کے کئی مواقع پیدا کئے جائیں گے۔ یہی نہیں بلکہ فوجیوں کے ساتھ انہوں نے خوشی خوشی لنچ بھی کیا جس کا ایک بڑے ہال میں اہتمام کیا گیا تھا جو عام طور پر فوجیوں کے زیراستعمال رہتا ہے۔ میز پر ٹرمپ کے ہمراہ جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان بھی بیٹھے تھے۔ یوایس اور کورین سرویس ارکان سے بات کرنے کے بعد انہوں نے اخباری نمائندوں سے بھی کوریائی غذا کی بیحد ستائش کی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہیکہ ٹرمپ نے ایشیائی ممالک کے 12 روزہ دورہ کاجو پروگرام بنایا ہے، جنوبی کوریا اس پروگرام کے مطابق ان کے دوسرے توقف میں شامل ہے جبکہ جاپان میں انہوں نے شمالی کوریا کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی کے امکانات کو مسترد کردیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ اب بھی وقت ہے کہ کم جونگ ان نیوکلیئر ہتھیاروں کی ٹسٹنگ بند کردیں۔ حالیہ بالیسٹک میزائل ٹسٹنگس کو ٹرمپ نے مہذب دنیا اور عالمی امن و استحکام کیلئے ایک خطرہ قرار دیا۔ یاد رہیکہ جنوبی اور شمالی کوریا کو علحدہ کرنے والے ’’غیر فوجی علاقہ‘‘ کا اب تک ہر امریکی صدر دورہ کرتا آیا ہے تاہم ڈونالڈ ٹرمپ نے یہاں کے دورہ سے گریز کیا۔ اس سے قبل صرف آنجہانی صدر رونالڈ ریگن نے یہاں کا دورہ نہیں کیاتھا جو دراصل جنوبی کوریا کے ساتھ امریکہ اظہاریگانگت کیلئے کرتا رہا ہے۔ ٹرمپ اور مون نے باہمی اتفاق کے ساتھ شمالی کوریا پر تحدیدات عائد کرنے کا اشارہ دیدیا ہے لیکن ٹرمپ نے جہاں کل کم جونگ ان سے بھی ملاقات کرنے کا متبادل پیش کرتے ہوئے اپنی شخصیت کے نرم پہلو کو ظاہر کیا تھا وہیں انہوں نے آج ایک بار پھر سخت موقف اپناتے ہوئے کہا کہ شمالی کوریا نے اگر اب بھی من مانی کا سلسلہ جاری رکھا تو اسے نیست و نابود کردیا جائے گا اور یہ بات بار بار دہرائی کہ امریکہ کے پاس ہر متبادل موجود ہے۔ یوں تو سفارتی طور پر ٹرمپ اور مون کے درمیان زبردست تال میل دیکھا گیا لیکن ٹرمپ کے ساتھ سفر کرنے والی ماہرین کی ٹیم کا کہنا ہیکہ ٹرمپ نے جاپانی وزیراعظم شینزوآبے اور صدر چین ژی جن پنگ کے ساتھ جو تال میل دکھائی وہ مون کے ساتھ نظر نہیں آئی۔ شینزوآبے کے ساتھ انہوں نے گولف کھیلتے کھیلتے کئی اہم مسائل پر بات کرلی تھی۔