جنوبی ایشیاء میں مذہبی بنیاد پرستی و قوم پرستی

رام پنیانی
نو آبادیاتی دور کے خاتمہ کے بعد ان ریاستوں میں مذہب کے نام پر کی جانے والی سیاست ایک بڑا کردار ادا کر رہی ہے ۔ خاص طور پر جنوبی ایشیاء میں مذہب کے نام پر سیاست کی جارہی ہے ، 1956 ء میں پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ بنا اور یہ اصطلاح وقت گزرنے کے ساتھ بار بار منظر عام پر آتی رہی اور مختلف انداز میں اس کا استعمال ہوتا رہا۔ پاکستان پہلے اسلامی جمہوریہ بنا اور پھر اسے ایک نئے دستور کے تحت جمہوریہ پاکستان میں تبدیل کردیا گیا۔
پھر پاکستان کے موقر انگریزی روزنامہ ’’ڈان‘‘ نے 4 فروری 1963 ء کو ایک خبر شائع کی جس میں بتایا گیا تھا کہ مملکت پاکستان کو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ سے موسوم کرنے کیلئے ایک دستوری ترمیم توقع ہے کہ 8 مارچ کو ڈھاکہ میں شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اختتامی اجلاس کے دوران متعارف کروائی جائے گی ۔ اس طرح مملکت پاکستان کو ’’جمہوریہ پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا اور کہا گیا کہ اس نام میں لفظ اسلامی 1956 کے دستور کا نام بحال کرے گا۔ بعد میں جنرل ضیاء الحق نے سیاسی میدان میں اسلام کی موجودگی کو تقویت عطا کی اور اس رجحان کی حوصلہ افزائی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ملک میں اسلامی قوانین کا نفاذ عمل میں آئے گا اور سب سے زیادہ توجہ اسلامی معاشرہ کے قیام پر مرکوز کی جائے گی جس کیلئے پاکستان کی تخلیق یا اس کا قیام عمل میں آیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق قرآن اور سنت کی رو شنی میں ملک کے قانون، سماجی ، اقتصادی اور سیاسی اداروں کو اسلامی اصولوں اقدار اور روایات کے تحت لانے کے خواہاں تھے تاکہ پاکستان کے عوام کو اسلام کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کا سلیقہ سکھایا جائے ۔

بنگلہ دیش نے پاکستان سے اپنی علحدگی کے بعد مکمل اسلامیانے کی مزاحمت کی اور ہنوز اس ملک کی دو اہم اور بڑی سیاسی جماعتیں ، سیاسی میدان میں اسلام کے تصور کی مطیع ہوگئیں۔ بنگلہ دیش میں بنیاد پرستوں کو بھی مضبوط گڑھ حاصل کرنے میں کامیابی ملی ۔ ملک میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھی، اسلام کے سیاست کا جزلائنفک ہونے سے متعلق آئیڈیا یا نظریہ بھی بہت مقبول ہوا ۔ 2013 ء میں پیو ریرچ نے ایک سروے کیا تھا جس میں جن لوگوں سے انٹرویوز لئے گئے ان میں سے 87 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ بہت ہی بدبختی کی بات ہے کہ بنگلہ دیش میں مکمل شرعی نظام نافذ نہیں کیا گیا اور شرعی قوانین کا اطلاق عمل میں نہیں آیا۔
جہاں تک مائنمار میں سیاست اور مسلمانوں کیلئے پائے جانے والے نفرت کے ماحول کا سوال ہے ۔ مسلمانوں سے نفرت کی بہ نسبت مائنمار سیاست کے کئی عوامل ہیں۔ مائنمار کی سیاست میں مسلمانوں کے تئیں نفرت کے علاوہ اور کئی چیزیں پائی جاتی ہیں۔ مائنمار کی جو سب سے بڑی سیاسی پارٹی جسے وہاں سب سے بڑی قوم پرست پارٹی کہا جاتا ہے ، وہ اسوسی ایشن فار دی پروٹیکشن آف ریس اینڈریجلینس (عام طور پر اس کا مقامی زبان میں Ma Batha سے حوالہ دیا جاتا ہے، اس جماعت یا تنظیم کو بدھ راہوں اورراہباوں و عام لوگوں نے قائم کیا تھا ۔
MaBatha ایک ایسی تنظیم ہے جو اپنے سیاسی یا مسلم دشمن مقاصد کے حصول پر ہی زیادہ توجہ مرکوز کرتی ہے اور اس تنظیم یا جماعت کے حامی اسے ایک وسیع تر مذہبی تحریک سمجھتے ہیں، ایک ایسی مذہبی تنظیم جس کا مقصد صرف اور صرف بدھ ازم کا تحفظ اور اس کا فروغ ہے۔ اس نے یہ موقف ایک ایسے وقت اختیار کیا ہے جب ملک میں غیر متوازی تبدیلی اور ایک غیر یقینی کی صورتحال پائی جاتی ہے ۔ مائنمار ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں تاریخی طورپر بدھ ازم اور ریاست ایک دوسرے کیلئے لازم اور ملزوم ہیںاور جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے۔

1980 ء کے دہے سے ہندوستانی سیاست پر سیاست سے بالاتر ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس چھائی ہوئی ہے ۔ آر ایس ایس نے مختلف سطحوں پر کثیر تعداد میں تنظیموں کو جنم دیا ہے اور ان تمام تنظیموں کا ایک ہی ایجنڈہ ’’ہندو ملک‘‘ کا قیام ہے جو حقیقت میں دستور ہند میں بتائے گئے ہندوستانی قوم پرستی کے اصولوں کے مغائر اور ان کے برعکس ہے ۔
رام مندر مہم اور اس کے بعد تشدد میں اضافہ کے ذریعہ آر ایس ایس کی سیاسی ونگ ’’بی جے پی ‘‘ ، 1996 ء میں پہلی مرتبہ اقتدار میں آئی اور پھر اس نے 1998 ء میں اور اب 2014 ء میں اقتدار حاصل کیا ۔ ان میں سے اکثر تنظیمیں اور ان کی دوسری جماعتیں مذہب کی شناخت استعمال کرتے ہوئے سیاسی تیاری کرتی ہیں۔ وہ مذہب کی شناخت کا شور مچاتی ہیں اور رام مندر ، گاؤ ماتا اور شاندار ہندو ماضی جیسے جذباتی مسائل کے ذریعہ مقاصد کی تکمیل کرتی ہیں ۔
آر ایس ایس کی ذیلی تنظیمیں اس کی سیاسی ونگ بی جے پی کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کیلئے ایسے ہی جذباتی مسائل اٹھاتی ہیں ۔ ان تنظیموں کو مختلف موقعوں پر فرقہ پرست ، بنیاد پرست کے نام دیئے گئے اور ان میں سے کئی میں فسطائیت واضح طور پر دیکھی گئی جہاں تک فرقہ پرستی کا سوال ہے فرقہ پرستی ایک ایسی سیاست ہے جو سیکولر جمہوریت کی مخالفت کرتی ہے ۔ فرقہ پرستوں کیلئے صرف ایک مذہب کی یعنی اپنے مذہب کی برتری پیش نظر ہوتی ہے ۔ ان کیلئے دو وقت کی روٹی ، مکان ، روزگار اور عوامی حقوق کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور اس معاملہ میں وہ نتائج کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ ان کیلئے اپنا ایجنڈہ ہی سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔
بنیاد پرستی کی اصطلاح کا عام طور پر بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے ۔ بنیاد پرستی پر مبنی سیاست کی کئی خصوصیات اس سیاسیات یا سیاسی تشکیل میں سرائیت کرجاتی ہیں۔ اگرچہ ان کے مقاصد سیاسی ہوتے ہیں لیکن وہ اس طرح کا تاثر دیتے ہیں کہ ان کے مقاصد مذہب کی بنیادیں ہیں۔ وہ اس طرح کے سیاسی مقاصد رکھتے ہیں جس کے ذریعہ معاشرہ میں ان کے نظریات و اصولوں پر عمل کرنے والے طبقہ کو بالادستی حاصل رہے ۔ یہ دراصل جاگیردارانہ ذ ہنیت ہوتی ہے یا جاگیردارانہ نظریہ ہوتا ہے ۔ یہ تمام پیدائش پر مبنی درجہ بندی یا پدرانہ نظام پر مبنی ہوتے ہیں جبکہ ان سیاسی تحریکوں میں کافی یکسانیت پائی جاتی ہے ۔ ایسی سیاسی تحریکوں کی مختلف ملکوں میں مختلف شدت پائی جاتی ہے اور ان کا اظہار انداز بھی مختلف ہوتا ہے لیکن تمام کے مقاصد ایک ہوتے ہیں اور وہ ہے معاشرہ پر اپنی بالادستی قائم کرنا خود کو برتر اور دوسروں کو کم تر سمجھنا ۔

ایسے ہی نظریات آر ایس ایس ۔ بی جے پی رکھتی ہے اور اس فسطائیت کی دھار ان کی خوبیوں میں شامل ہے ، حالانکہ فسطائیت ایک برائی اور ایک لعنت ہے ۔ آر ایس ایس ۔ بی جے پی کی کئی خوبیوں میں مذہب، نسل کو برتر بتانا، اقلیتوں کو مرکزی دشمن کے طور پر نشانہ بنانا ، انتہا پسندانہ قوم پرستی ، ماضی پر فخر ، بڑ ے بڑے صنعتی گھرانوں و اداروں سے گہرے تعلقات بالفاظ دیگر مضبوط اتحاد اور صرف ایک کرشماتی قائد کو ابھارنا و دیگر خوبیاں شامل ہیں۔

اگر جنوبی ایشیاء میں فاشسٹ تنظیموں اور جماعتوں کے وجود اور ان کے فروغ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے اکثر کی جڑیں نوآبادیاتی دور کے دوران رونما ہوئی ، سماجی ، معاشی اور سیاسی تبدیلیوں میں پیوست ہیں جبکہ جدید صنعتوں ، تعلیم اور مواصلات کے منظر عام پر آنے کے ساتھ نئے سماجی طبقات سیکولر جمہوریت کے جذبہ کے ساتھ ابھرے ہیں جبکہ بادشاہوں راجہ رجواڑوں ، جاگیرداروں ، زمینداروں کا ماضی میں جبر و استبداد کرنے والے طبقات معاشرہ کی جمہوریت پسندی اور سیکولر پسندی کی جانب رغبت کے باوجود نئی سیاسی صورتحال میں جاگیردارانہ اقدار معاشرتی ڈھانچہ اور پدرانہ نظام سے چپکے رہے ، اس لئے کہ وہ ہر حال میں معاشرہ میں اپنی بالادستی اور اجارہ داری چاہتے تھے ۔

نوآبادیاتی دور : سماجی و سیاسی تبدیلیاں: برصغیر ہند نوآبادیاتی دور کے دوران حمل و نقل ، مواصلات اور عصری تعلیم کے نتیجہ میں معاشرہ یا سماج خود کو بدلتے حالات کے ساتھ ہم آہنگ کرنا شروع کیا۔ اس طرح نئے سماجی طبقات ، صنعت کار ، صنعتی مزدور اور تعلیم یافتہ طبقات ابھرتے گئے۔ یہ گروپس بتدریج دیکھ سکتے تھے کہ برطانیہ کی جو پالیسیاں ہیں ان کا مقصد سرزمین برصغیر ہند سے برطانیہ کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانا ہے۔ یہ تعلیم یافتہ ذی فہم طبقات یہ بھی دیکھ سکتے تھے کہ اس سرزمین پر امکانات و مواقعوں میں اضافہ کا باعث بننے والی مناسب سہولتوں کو بھی فروغ نہیں دیا جارہا ہے ۔
برصغیر کے ان ہی طبقات کی سوچ و فکر نے ایک قومی تحریک کی بنیاد ڈالی جو ابھرتے طبقات کی آرزوں ان کی تمناؤں ، ارادوں و عزائم کی بنیاد پر تھی ، ایسے میں پستی کی طرف گامزن ہونے یا اپنا اثر و رسوخ کھونے والے زمین داروں ، جاگیرداروں اور راجاؤں ، نوابوں (بادشاہوں ، ہندو یا مسلم) نے آنے والے وقتوں میں فرقہ وارانہ سطحوں کی بنیادیں ڈالتے ہوئے اپنے رد عمل کا اظہار کیا ۔ لارڈ ہیوم کی پہل سے قائم ہوئی انڈین نیشنل کانگریس ان ہندوستانی قوم پرستوں کیلئے بہترین امکان ثابت ہوئی جو اپنے سیاسی عزائم کا اظہار کرنے کے خواہاں تھے ۔ انڈین نیشنل کانگریس سیاسی ارادوں و عزائم کے اظہار کا ایک غیر معمولی پلیٹ فارم بن گئی تھی ۔ انڈین نیشنل کانگریس کے قیام اور اس کی جانب سے شروع کی گئی مہم میں دیکھتے ہیں کہ بلا لحاظ و مذہب و ملت رنگ و نسل ذات پات لوگ انڈین نیشنل کانگریس سے خود کو وابستہ کرتے رہے اور اس کے ذریعہ تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کانگریس نے اصولوں سے خالی ایک تنظیم ، ایک قومی تحریک ہونے کی بجائے خود میں ہندوستانی قوم پرستی سیکولرازم اور جمہوریت کو جذب کیا ، یہ بھی سچ ہے کہ کانگریس نے ہندو اور مسلم فرقہ پرستوں کیلئے 1934 ء تک اپنے دروازے کھلے رکھے جس کے بعد کانگریس نے فرقہ پرستوں کو خود سے دور رکھنے کا فیصلہ کیا ۔

یہ بھی سچ ہے کہ کانگریس میں چند کم شدت کے فرقہ پرست عناصر شامل رہے لیکن کانگریس کا اصل نظریہ ہندوستانی قوم پرستی تھا ، قومی تحریک میں قومی احساسات کو اجاگر کرنے اور اسے بڑھانے پر زیادہ تر توجہ مرکوز کی گئی اور جہاں تک قومی احساسات اجاگر کرنے کا سوال ہے یہ نسلی، فرقہ پرست تنظیموں کا متضاد ہے جو مذہب کے نام پر ایک ملک کے خواہاں تھے ، ایک مسلم یا ایک ہند ملک۔