ڈاکٹر مجید خان
شاید ہی دنیا کا کوئی ملک ہوگا انتہائی ترقی یافتہ سے لیکر اُس کا انتہائی برعکس جہاں پر جنسیات کے متعلق اتنے قوانین نافذ ہوئے ہوں گے ۔ حال حال میں جنسی زیادتیوں کے تعلق سے ذرائع ابلاغ جس برق رفتاری سے ان واقعات کو طشت ازبام کررہا ہے وہ حکومتوں ، عدالتوں اور عوام کو چوکنا کرتا جارہا ہے ۔ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اوراس کو سمجھنے کیلئے کئی زاویوں سے دیکھنا پڑے گا جس میں جنسی نفسیاتی پہلو بھی بہت اہم ہے ۔
صدیوں سے جنسی درندے مرد اور عورت اپنی ہوس بلا خوف و خطر پوری کرتے رہے ۔ کیا عوام ان گھناؤنی حرکات سے واقف نہیں تھے ۔ حکمراں تو اس کو اپنا حق سمجھتے تھے اور عورتوں کا کسی نہ کسی بہانے استحصال کرتے رہے ۔
خواتین کی مسلسل جدوجہد کے بعد سے جب مرد کی بالادستی عورتوں پر منظرعام پر لائی گئی اور ساتھ ہی ساتھ عورتوں کا سماجی اور قانونی مقام مردوں کے برابر ہونے لگا تب جنسی میاں مٹھو قانون کے شکنجے میں جکڑے جانے لگے ۔ گوکہ زنابالجبر کیلئے سخت سزائیں مقرر تھیں مگر گزشتہ صدی کے عدالتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سزائیں شاذ و نادر ہی ہوا کرتی تھیں۔ ساری دنیا سے جب مقابلہ کیا جائے تو کوئی ملک اس قابل نہیں کہ جنسی شرافت میں اُس کو تمغہ ملے ۔ مذہبی تعلیمات اس ضمن میں احساس گناہ پیدا کرتے ہوئے اُن کے ضمیروں کو جھنجھوڑ نے کی ناکام جدوجہد میں لگے رہے ۔
مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مذاہب کے محافظ ہی سب سے بڑے خاطی پائے گئے ۔ رومن کیتھولک مذہب میں پادریوں کا مجرد رہنا لازمی ہے ۔ راہباؤں کیلئے عمر بھر کے کنوارے پن کی قسم کھانا پڑتا ہے ۔ پادریوں میں ہم جنسیت اتنی عام تھی کہ انتہائی دولتمند مذہبی ادارے قانونی تاوان ادا کرتے کرتے قلاش ہوچکے ہیں۔ سب سے افسوسناک بات تو یہ ہے کہ یہ پادری اپنے اولیٰ اور اعلیٰ مذہبی رُتبے کا غلط استعمال کرتے ہوئے معصوم طلبہ کو زبردستی کے اپنی ہوس کا شکار بناتے رہے ، چرچ کو اس معاملے میں انتہائی ذلت جھیلنی پڑ رہی ہے۔ طلبا جو کم سنی میں اُن کے شکار ہوئے تھے 20,25سالوں کے بعد بھی عدالتوں میں اُن کے خلاف مقدمے دائر کررہے ہیں اور عدالتیں بڑی فراخدلی سے ہرجانے منظور کررہی ہیں۔
یہاں پر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ دوسروں کے تعلق سے بھول جائیے اور اپنے ناپاک دامن میں جھانک کر دیکھئے ۔ یہاں کاحال کچھ قابل فخر نہیں ہے ۔ ہمارے بچے اور بڑے شرمندگی کے باعث افشائے راز نہیں کئے ہیں مگر وہ دن دور نہیں جب جوابدہی کا سلسلہ یہاں پر بھی شروع ہوگا ۔ آثار تو یہ ہیں کہ یہاں پر ہرجانے کم اور جیل کی سخت سزائیں زیادہ جھیلنی پڑیں گی ۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ احتیاط کیجئے اور ہوشیار ہوجائیے ۔ ان نصیحتوں کا وقت جاتا رہا اب اپنی جنگلی شہوت کے غلط استعمال سے سولی پر لٹکنا ناگزیر دکھ رہا ہے ۔ خاطی یکے بعد دیگرے پکڑے جائیں گے ۔ آج ہی کی خبر ہے کہ اگست 2014 ء میں 7 افغانی 4 عورتوں کا اغواء کئے جو کار میں شاپنگ کیلئے جارہی تھیں۔ اُن کو ایک مہینے کے اندر عدالت سزائے موت صادر کردی ۔ سزائے موت اجتماعی آبرویزی اور زنا کیلئے نہیں بلکہ اغواء اور لوٹ کھسوٹ کے پاداش میں ۔ یہاں پر غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ شاید دنیا میں یہ پہلا ملک ہوگا جہاں پر اتنی سرعت سے یعنی ایک ماہ کے اندر فیصلہ سنادیا گیا ۔ اس کی وجہ عوام کا احتجاج جس طرح نربھیا کیس دہلی میں ہوا تھا جہاں پر 16ڈسمبر 2012 ء کو غنڈوں نے 23 سالہ لڑکی کے ساتھ زنا کرنے کے بعد اُس کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا ۔ مارچ 2014 ء میں دہلی ہائی کورٹ نے اُن چاروں کی سزائے موت کی توثیق کردی تھی ۔ سپریم کورٹ نے فی الحال سزائے موت کے تعلق سے سارے کیسس میں التواء کے احکام جاری کئے ہیں۔ میرا مقصد عوام کو اپنی پوشیدہ جنسی خواہشات کے خطرناک پہلوؤں سے واقف کرانا ہے ۔
اس کا ایک اور اہم پہلو منظرعام پر آرہا ہے۔نابالغوں کا ایسے جرائم کا مرتکب ہونا اور کم عمری کی وجہ سے سنگین سزا سے بچ نکلنا اب مشکل نظر آرہا ہے ۔ جنسی خواہشات کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اور سیاستداں مانتے ہیں کہ جنسی جنون صرف سر کے حد تک محدود نہیں ہے اس کا تعلق جذبات اور جسمانی ضروریات سے بھی ہے ۔ لاکھوں لوگ جو دہلی میں مظاہرے کئے کیا یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ موقع ملے تو وہ اپنی خواہش کو غیرواجبی انداز میں پورا نہیں کریں گے ۔ بڑا گمبھیر مسئلہ ہے ۔
بہت ہی لوگ چاہے وہ کتنے بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ ظرف کے سمجھے جاتے ہوں ’’اخراج غدود‘‘ کے قدرتی عمل سے واقف ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ نہ صرف والدین واقف ہوں بلکہ خاص طور سے اساتذہ اور ہاسٹلوں کے نگرانکار جہاں پر یہ ایک عام پوشیدہ ’’وبا‘‘ رہی ہے کڑی نظر رکھیں ۔ جانوروں میں یہ نظام بہتر انداز میں کام کرتا ہے مگر انسانوں میں ان خواہشات کو سماجی تہذیب کے اُصولوں کے تابع کرنا مشکل مسئلہ ہے۔ جنسی اشتہاء اور بھوکے پیٹ کی اشتہاء میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ اگر آپ کو تیز بھوک لگ رہی ہے اور آپ کی پسندیدہ کھانے کی کوئی چیز دستیاب نہیں ہے تو آپ جو ملے وہ کھا جائیں گے اور یہی جنسی بے راہ روی کی مثال ہے ۔
میں حکماء حضرات سے ہمیشہ شکایت کرتا رہا ہوں کہ وہ مشت زنی کو ہر لحاظ سے برا عمل قرار دیتے ہیں جو نوجوانوں کو گمراہ کرتی رہی ہے ۔ یہ غلط فہمی اور شکوک نوجوانوں کے ذہن میں اس طرح بیٹھ جاتے ہیں کہ وہ اس کو مردنی کے مختلف پہلوؤں سے جوڑتے رہتے ہیں ۔ جنسیات کے تعلق سے اپنے دقیانوسی عقیدے نوجوانوں کو اخراج مادہ کے دوسرے طریقوں پر مجبور کرتے ہیں۔ اس معاملے میں ان نوجوانوں کی ہمت ساتھیوں کے ساتھ بڑھ جاتی ہے اور سخت قانون کی پروا نہ کرتے ہوئے خطرے مولنے پر مجبو ہوجاتے ہیں ( میں مانتا ہوں کہ حکما میرے اس ادعا سے اتفاق نہیں کریں گے مگر اُن کو اپنے خیالات کا بدلنا وقت کا اہم تقاضہ ہوگیا ہے ) عصری Physiology یعنی مختلف اعضاء کے افعال کا مطالعہ جوکہ صرف میڈیکل سائنس میں ہوا ہے اُس پر غور کیجئے ۔ مردوں کو جنسی خواہش کیسے پیدا ہوتی ہے اور اخراج مادہ کی بے چینی کیوں پیدا ہوتی ہے ۔ دو غدود "Seminal Vesicles” اور Prostate منی اور دوسرا مادّہ تیار کرتے ہیں اور یہ غدود مثانے میں جس طرح سے پیشاب کے جمع ہونے اور وقتیہ اخراج کی سہولت ہونے پر جو اخراج کرنے تک بے چینی محسوس ہوتی ہے وہی کیفیت جنس یا اخراج منی کیلئے ضروری ہوجاتی ہے ۔ یہ صورتحال پیدا ہونے کے بعد اگر کوئی مشت زنی نہیں کرتا ہے تو یہ دباؤ کیسے کم ہوسکتا ہے ۔ اطراف کا عریاں ماحول اور جنسی طورپر مشتعل کرنے والے مناظر ان غدود کو بہت حساس بنادیتے ہیں ۔ بعض لوگوں کے ذہن میں جنس کا شیطان ہمیشہ چڑھا ہوا رہتا ہے ۔ سوائے جنس کے وہ اور کچھ سوچ نہیں سکتے ۔ مشت زنی کو منع کرنے کے بجائے نوجوانوں کی ایسی تربیت ہونی چاہئے جو اُن کے غدود کو قابو میں رکھے جو ممکن ہے اور اس کے لئے علحدہ مضمون کی ضرورت ہوگی ۔
ہر مرد اگر حالات زمانہ کے نئے پیچیدگیوں سے واقف ہو تو پرسکون زندگی گزارسکتاہے ۔ سوچئے خواتین کا احترام ضروری ہوگیا ہے ۔ اُن کی معمولی شکایت پر آپ گرفتار ہوسکتے ہے۔ ایک جج صاحب ہمیشہ اجلاس پر کالا موٹا چشمہ لگاکر بیٹھا کرتے تھے ۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کو ڈر ہوگیا تھا کہ کہیں کوئی خاتون یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ وہ بدنظری سے دیکھ رہے ہیں ۔
ایک اور حقیقی واقعہ میں کبھی بھول نہیں سکتا ۔ دفتر کے ایک انتہائی مہذب اور شریف عہدیدار کے خلاف ایک خاتون اہلکار نے شکایت کی کہ جب بڑے بڑے رجسٹر اُن کی تنقیح کیلئے لے جاتی ہوں اور اُن کے گود میں رکھنا پڑتا ہے تو وہ اپنے اعضائے تناسل کی نمائش کرتے ہیں ۔ چند ماہ بعد اُس کا شوہر اس عورت کو دماغی مشورے کے علاج کیلئے لایا کہ یہ ہر عہدیدار پر اسی طرح کی الزام تراشی کرتی ہے یہ کہکر وہ عہدیدار جو معصوم تھا خواہ مخواہ کے جھوٹے الزامات کے قانونی شکنجے میں پھنسا ۔ عزت و آبرو دونوں لٹ گئی۔
ہمارے نوجوان جنسیات کے معاملے میں اشتہارات سے اور پریشانیاں مول لیتے ہیں۔ صحیح معلومات حاصل کرنے کی کوشش کیجئے ۔ یاد رکھئے آپ کے ہم عمر ساتھی آپ کی ہی کی طرح نفسیاتی معلومات میں جاہل ہیں اُن کی تقلید مت کیجئے ۔