جمہوری قدروں کی آزمائش

کلدیپ نیر
مجھے بڑی تعداد میں روزانہ پاکستان سے ٹیلی فون موصول ہوتے ہیں اور کئی ٹیلی فون بنگلہ دیش سے بھی آتے ہیں ۔ یہ ٹیلی فون کرنے والے لوک سبھا الیکشن کے متعلق تفصیلات جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کو خوف اس بات کا ہے کہ اگر خدانخواستہ مودی ملک کے وزیراعظم بن جاتے ہیں تو ملک کا جمہوری نظام تہس نہس کرکے رکھ دیں گے ۔ مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ مودی نئی حکومت کی باگ ڈور نہیں سنبھال پائیں گے ۔یہ بات درست ہے کہ بہت سے اوپینین پولس اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ این ڈی اے جس کی قیادت بی جے پی اور مودی کررہے ہیں اسے واضح طور پر اکثریت حاصل ہونے والی ہے ۔ لیکن ان لوگوں کا تقابلی جائزہ قابل اعتماد نہیں ہے کیونکہ جو کچھ سننے کو مل رہا ہے اس میں پوری صداقت نظر نہیں آرہی ہے بلکہ جس لہر کی بات کی جارہی ہے اسکا اثر جنوبی ہند کی ریاستوں آندھرا پردیش ، کرناٹک ، کیرالا اور اڑیسہ میں کہیں بھی نظر نہیں آرہا ہے ۔ یہاں تک کہ مغربی بنگال اور تمل ناڈو میں بھی مودی لہر کا کوئی اثر نہیں نظر ارہا ہے ۔ جہاں علاقائی جماعتیں ووٹرس پر مکمل طور پر اثر انداز ہیں ، اگر بی جے پی کا کوئی اثر بھی ان ریاستوں میں پایا جاتا ہے تو وہ نہایت معمولی ہے ۔ جہاں تک ملک کے دوسرے گوشوں کا تعلق ہے تو بعض قائدین کے ذریعہ جو زبان کا استعمال کیا جارہا ہے وہ نہایت قابل مذمت ہے ۔ یہ وہ لیڈرس ہیں جنھیں آر ایس ایس کی سرپرستی حاصل ہے ۔ جس طرح کی نفرت انگیز زبان کا استعمال کیا جارہا ہے ، اس سے ملک کے مزاج کا اندازہ ہوتا ہے ۔ کمال کی بات یہ ہے کہ انٹلی جنس اس کا کوئی نوٹس نہیں لے رہا ہے اور نہ ہی دوسرے ذمہ داران اپنی مخالفت درج کرارہے ہیں ۔

الیکشن ریلیوں میں یہ بات فیشن بن چکی ہے کہ مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے انھیں ڈرایا دھمکایا جائے اور بعد میں جب ان کے نفرت انگیز ریماکس پر سوال قائم کئے جائیں تو اس کی صفائی میں یہ بات کہی جائے کہ جس لیڈر کی بات پر سوال قائم کئے جارہے ہیں ، اس کی بات کو غلط سمجھا جارہا ہے بلکہ اس کا غلط مطلب نکالا جارہا ہے یہاں تک کہ اسے بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یہ ایک اچھی بات دیکھنے کو آئی ہے کہ بی جے پی نے اس لیڈر کی سختی سے مخالفت کی اور اس بات پر عدم اتفاق کا اظہار کیا جس میں کہا گیا تھا کہ جو لوگ مودی کی حمایت نہیں کرنا چاہتے وہ پاکستان چلے جائیں ۔ اگر پارٹی اس شخص کواپنی پارٹی سے خارج کردیتی تو اس کا وقار بڑھ جاتا اور لوگ اس کی ستائش بھی کرتے ۔ حالانکہ جموں وکشمیر کے وزیراعلی عمر عبداللہ کا ریمارک کہ وہ مودی کے خلاف کچھ نہ بولنے سے پاکستان جانا بہتر تصور کریں گے ۔ یہ ریمارک بھی غیر سنجیدہ اور بچکانہ ہے ۔

یہ الگ سچائی ہے کہ بی جے پی کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس لوگوں کے تاثرات کا غلط مطلب نکال رہی ہے ۔ وہ ہندو اور مسلم کو منقسم ہونے دینا نہیں چاہتی ہے ۔ معاشرہ یہ نہیں چاہتا ہے کہ ایک ایسا شخض جس کی سیاست پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو ہے ، وہ اقتدار اعلی پر فائز ہوسکے ۔ مجھے اس بات کا یقین نہیں ہے کہ مودی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان نہیں پہنچاسکتے ہیں ، جیسا کہ آر ایس ایس اور بی جے پی دعوی کررہی ہیں ۔ سال 2002 میں ہندو مخالف فسادات میں ان کی حصہ داری سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے ۔ یہاں تک کہ گجرات کے مجسٹریٹ کورٹ نے انھیں کلین چٹ دے دی ہے ۔ ایک ریاست کے وزیراعلی کی حیثیت سے یہ ان کی مکمل ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لوگوں کا تحفظ کریں ۔ ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کریں ۔ اقلیتوں کا تحفظ نہایت اہم ہوتا ہے ۔ انھوں نے یہاں تک کہ معذرت خواہی سے بھی انکار کردیا ۔ انھوں نے یہاں تک بھی نہیں کہا کہ اس واقعے کو بھول جائیں ۔ چند دنوں قبل جب انھیں اس بات کا موقع فراہم ہوا تھا کہ وہ اس واقعے پر اظہار افسوس کریں اس کے باوجود انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا ۔ اب بھی اس بات کے امکانات پائے جاتے ہیں کہ کوئی ہندوتوا موافق اس ملک کی قیادت کرسکتا ہے ۔ مودی کی تقریریں حالانکہ وطن پرستی کے نظریات سے پُر ہوتی ہیں ۔ وہ پاکستان کا ذکر نہیں کرتے ہیں لیکن وہ مسلسل ڈیولپمنٹ کی باتیں دہراتے رہتے ہیں تاکہ وہ اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈہ پر پردہ ڈال سکیں ۔ کچھ لوگ اس کا ایقان رکھتے ہیں کہ مودی اکثریت میں وحدت کی پالیسی کی حقیقت کا سامنا کرسکتے ہیں اور وہ دوسرے باجپائی بن سکتے ہیں جو پاکستان کے لئے ایک نہایت مقبول لیڈر تھے ۔
مودی کا ایجنڈا جو کچھ بھی ہو ، لیکن وہ اپنے پڑوسی ملک پاکستان کے لئے برا نہیں بن سکتے ہیں ۔ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرسکتے ۔ وہ ایک بار پھر مذاکرات کا آغاز کرسکتے ہیں جو بمبئی حملہ 26 نومبر 2008 کے بعد برفدان کی نذر ہوچکے ہیں ۔ مودی اور بی جے پی ، کی بھلے ہی تھیوری جو بھی ہو لیکن یہ اس بات کو اچھی طرح محسوس کرتے ہیں کہ اسلام آباد کے ساتھ تعلقات بحال رکھنا ہی نئی دہلی کے حق میں ہوگا۔
پاکستان جہاں انتہا پسندوں کی جڑیں مضبوط ہیں ، وہ میڈیا کو نشانہ بنارہے ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ ان کے پیچھے جمہوری طاقتیں بھی کارفرما ہیں ۔ حامد میر جو آزاد صحافی ہیں ، ان پر گولیوں سے حملہ کیا گیا ان پر حملہ کرنے والے مذہبی جنونی تھے ۔ حالانکہ پاکستانی عوام ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں لیکن وہاں کے شدت پسند نہیں چاہتے کہ ہند و پاک کے رشتے استوار ہوسکیں ۔
پاکستان کا ایک طالب علم آکسفورڈ میں مجھ سے ملا ۔ میں جہاں پر قیام پذیر تھا وہیں میری اس سے ملاقات ہوئی ۔ یہ صرف چند دن قبل کی بات ہے ۔ اس نے پاکستان کا دورہ کیا اور اس نے اس بات کی تجویز پیش کی کہ پاکستان کو ہندوستان تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے کوشش کرنے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہیں کرنی چاہئے ۔ اس ملک کا بس ایک ہی طریقہ ہوگا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات قائم رکھے ۔ کیونکہ طالبان اور تحریک طالبان جس طرح اپنے اثر و رسوخ بڑھاتے جارہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ملک میں اچھے حالات پیدا نہیں ہوسکتے ۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ اسلام آباد نئی دہلی سے بہتر تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرے ۔