جمہوری تماشہ ختم ہوا… دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے

غضنفر علی خاں
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان میں منعقدہ عام انتخابات میں مجموعی طور پر 60 کروڑ رائے دہندوں نے حصہ لیا۔ ان کا فیصد 67.11 تک ہے۔ اس میں شک نہیں کہ 90 کروڑ کل رائے دہندوں میں 60 کروڑ کی حصہ داری خود ایک عجوبہ ہے۔ علم سیاسیات کے کسی ماہر نے جمہوری حکومت کے تعلق سے یہ بڑی تلخ ستائی بیان کی ہے کہ ’’احمقوں کو انتخابات لڑنے دیجئے، طرز حکومت کچھ بھی ہو جو بہتر حکمرانی کریں گے وہ سب سے بہتر ہوں گے۔‘‘ یہ بات ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں بھی ثابت ہوتی ہے۔ ابھی دو روز پہلے ہوئے الیکشن میں کئی صداقتیں سامنے آئیں۔ کئی بڑی پارٹیوں کے تجربہ کار لیڈروں کی زبان جو انہوںنے اپنی تقاریر میں استعمال کی اس کو سن کر ہمہ لسانی، ہمہ مذہبی، ہمہ تمدنی ہندوستان کے لوگ اشکباری کرتے رہے۔ سیاسی پارٹیوں نے انتخابی مہم کے دوران اپنے پروگرام اور پالیسیوں کو واضح کرنے کے بجائے مخالفین کی عجیب جوئی کرتے رہے۔ اس طویل انتخابی عمل کے دوران رائے دہی بھی ہوتی رہی اور عوام صرف انتظار کرتے رہے کہ کوئی پارٹی یا لیڈر ان کے اپنے مسائل جیسے غربت، بیروزگاری، ضروری اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور فرقہ پرستی جیسے سلگتے ہوئے مسائل پر روشنی ڈالے گا یا ان کے حل پیش کرے گا۔ یہ سب تو نہیں ہوا البتہ ہر پارٹی کے جلسہ و جلوس، ریالی اور پلیٹ فارم پر اخلاق سوز باتیں ہوتی رہیں۔ بہرحال جس طریقے سے سیاسی پارٹیوں نے مہم چلائی اس کو کبھی ہندوستانی عوام فراموش نہیں کرے گی۔ انہیں حیرت ہورہی تھی کہ اس ملک کا وزیراعظم اور اہم سیاسی لیڈر ایک دوسرے کی مخٔالفت میں کتنا گرسکتے ہیں کہ ایک دوسرے کی نجی زندگی میں دخل دے گی۔ ایگزٹ پول کے نتائج کے اعتبار سے بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے محاذ کو اکثریت مل گئی ہے، جب کہ اپوزیشن کے کھوکھلے اور ناپائیدار عظیم اتحاد مہاگٹھ بندھن وہ اثر نہیں رکھ سکا جس کی محاذ سے امید کی جارہی تھی اور اسی طرح سے نریندر مودی کی قیادت والے این ڈی اے کو بھی وہ کامیابی مل گئی جو 2014ء کے چنائو میں ملی تھی۔ جمہوریت میں جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا ہے کہ ’’یہ وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں انسانوں کو تولا نہیں کرتے بلکہ گنا کرتے ہیں۔‘‘ جمہوریت کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ تعداد کی حمایت رکھنے والے پارٹی کواس ملک کی آبادی کا نمائندہ بنایا جاتا ہے۔ اب جس کہ این ڈی اے کو دوبارہ حکمرانی کا موقع مل گیا، بی جے پی اور اس کے ہمنوا بلکہ گرو اور استاد آر ایس ایس کو زیادہ غور کرنا پڑے گا کہ اس ملک میں کسی ایک دھرم، مذہب کی حکومت قائم نہیں کی جاسکتی۔ ان دونوں پارٹیوں نے ملک میں محض اپنی غلط اور گمراہ کن نظریہ کے تحت عوام کو کسی حد تک (اعداد کی روشنی میں) گمراہ ضرور کیا ہے لیکن ابھی بھی ملک کے اجتماعی مزاج میں سکیولرازم اور شخصی آزادی کے ماننے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اگر فرقہ پرستی کی نمائندگی کرنے والی ان دونوں جماعتوں نے ان انتخابی نتائج سے یہ سبق نہیں سیکھا کہ ہندوستان میں کسی بھی اور میں دھرم یدھ یا مذہبی نظریہ کی جنگ نہیں کی جاسکتی تو یہ سمجھا جانا چاہئے کہ 2019 ء کے ان انتخابات میں بی جے پی نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ ملک کے اس اجتماعی مزاج کو کوئی پارٹی ختم نہیں کرسکتی اور جو مزاج صدیوں کے عمل در عمل سے بنا ہے اس کو نہ بدلا جاسکتا ہے اور نہ مٹایا جاسکتا ہے۔

انتخابات میں ہوئے شکست کوئی نئی بات نہیں، جب کبھی اور جہاں کہیں چنائو ہوتے ہیں وہاں کوئی ایک پارٹی شکست کھاتی ہے اور کوئی دوسری پارٹی کامیاب ہوتی ہے۔ یہ کامیابی اسی طرح عارضی اور نقش برآب جیسے شکست کھانے والی پارٹی یا پارٹیوں کے اتحاد کی ہار ہوتی ہے۔ اقتدار کسی ایک پارٹی پر ہمیشہ مہربان نہیں ہوتا، اقتدار کی یہ فطرت ہوتی ہے کہ وہ اپنی روش بدلتے رہتا ہے۔ اس پر اعتماد کرنے والی سیاسی پارٹیاں ہمیشہ برے نتائج سے دوچار ہوتی ہیں۔ اگر بی جے پی یا اس کی ہمنوا جماعتیں یہ باور کرتی ہیں کہ اب اقتدار ان سے کبھی چھینا نہیں جاسکتا تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’یہ سب احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔‘‘ دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں ہیں ان کا بھی یہی حال ہے۔ ملک کے بدلتے ہوئے سیاسی پس منظر کو بشمول کانگریس دوسری تقریباً تمام جماعتوں نے صحیح طور پر نہیں سمجھا نہ بدلتے ہوئے وقت کے تیور ان کو دکھائی دیئے اور نہ تیور دیکھنے کے بعد اپوزیشن پارٹیوں کو کبھی ہوش آیا ہے، اب یہی دیکھئے کہ کہنے کو سیاسی پارٹیوں نے اپنی عظیم الشان محاذ بنالیا تھا لیکن ان میں حقیقی معنوں میں ایسا موثر اور مضبوط اتحاد ان تمام انتخٓبی مراحل میں نہیں دیکھا گیا جس کی توقع اس مہا گٹھ بندھن سے عوام کررہے تھے۔ آخری وقتوں تک ان میں باہمی کشاکش جاری رہی۔ اپوزیشن لیڈروں نے ایک سینئر لیڈر شرد پوار بھی ہیں جن سے علاقائی پارٹیوں کے لیڈرس ملاقاتیں کرتے رہے اور ایسی ہر ملاقات کے بعد سکیولر عوام کی یہ امید بنتی گئی کہ فرقہ پرستی کے خلاف محاذ مضبوط ثابت ہوگا۔ آخری مراحل پر یو پی اے کی صدر سونیا گاندھی نے بھی ایسی ملاقاتوں کا در پردہ ساتھ دیا۔ یہ بات بالکل ناقابل فہم ہے کہ انتخابات کے ایگزٹ پول کے بعد بھی اپوزیشن جماعتوں نے صورت حال کو بالکل نہیں سمجھا اور وہی خلش بدستور قائم رہی۔ صرف یہ واحد مقصد عوام کے لیے کوئی کشش نہیں رکھتا تھا کہ اپنی ریالیوں میں چیخ چیخ کر مہا گٹھ بندھن کے کرتا دھرتا بطور خاص مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتابنرجی کا مائیکرو فون لے کر اسٹیج پر ٹہلتے ہوئے یہ نعرہ لگانا کہ ’’مودی کو ہٹائو‘‘ کچھ کام نہ آسکا۔ مخالف مودی نعرہ بازی اور صرف ان ہی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی کوشش جس کو بڑے تسلسل کے ساتھ ممتابنرجی کے علاوہ صدر کانگریس راہول گاندھی نے بھی جاری رکھا بلکہ ہر گزرتے ہوئے دنوں کے ساتھ اس نعرہ بازی میں شدت پیدا ہوتی گئی اور انتخابات شاید عوام میں بھی یہ احساس پیدا کرتی گئی کہ اکیلے مودی جن کے خلاف اتنا ہنگامہ کیوں یہ احساس ہوسکتا ہے کہ آخری مراحل میں ہمدردی کی ایک لہر بن گیا ہو۔ کانگریس پارٹی نے وہی غلطی کی جو 1977 ء میں جتناپارٹی کی حکومت نے جس کے سربراہ مرارجی دیسائی تھے نے کی تھی۔ اس حکومت نے اندراجی کے خلاف ’’شاہ کمیشن‘‘ تشکیل دیا تھا جو مختلف بدعنوانیوں اور ایمرجنسی میں کی گئی غلطیوں کے واقعات کا جائزہ لے رہا تھا۔ ہر بات، ہر وقت، ہر جگہ مسلسل کہی جائے تو اس کا اثر باقی نہیں رہتا۔ اس قسم کی غلطی کی وجہ سے ہی اپوزیشن محاذ انتخابی مراحل میں وہ اثر نہیں دکھا سکا جس کی ہندوستانی عوام نے توقع کی تھی۔ اب زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا‘‘ نہ بی جے پی کا سفر ختم ہوا ہے اور نہ ہندوستانی جمہوریت میں سکیولر پارٹیوں کا کام پورا ہوگیا ہے۔