تلنگانہ الیکشن میں 22 لاکھ ووٹرز حذف، چیف الکٹورل آفیسر کی معذرت خواہی اور معاملہ ختم!
پی چدمبرم
جمہوریت بس توازن والا معاملہ ہے۔ جب توازن خطرے میں پڑے یا متاثر ہوجائے، تب جمہوریت کی بقاء پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ ہندوستان خود کو ایسے مرحلے میں پارہا ہے جہاں یہ سوال کافی اُبھر آیا ہے کہ آیا ہندوستان میں جمہوریت کی بقاء ہوپائے گی؟ ہر ایک مسئلہ جس کا میں ان سطور میں تجزیہ کروں گا، ہوسکتا ہے جمہوریت کیلئے خطرہ نہ معلوم ہو اور قابل تلافی ظاہر ہوسکتا ہے۔ تاہم، اگر کوئی اصلاحی حل نہ پایا جائے تو کوئی ایک مسئلہ تک جمہوریت کی ڈگر کو بگاڑ سکتا ہے۔ اگر اس طرح کے کئی مسائل حل کئے بغیر چھوڑ دیئے جائیں تو مجھے یقین ہے کہ جمہوریت جیسا کہ آزاد، فراخدل اور سمجھ دار اقوام میں سمجھی جاتی ہے، ویسی نہ ہوگی اور ناکام ہوجائے گی۔
انتخابات : تلنگانہ میں انتخابات کے نتائج کا اعلان ہونے کے بعد اُسی روز ریاست کے چیف الکٹورل آفیسر (سنٹرل الیکشن کمیشن کے نامزد عہدہ دار) نے انتخابی فہرستوں سے 22 لاکھ ووٹرز حذف پائے جانے پر ’معذرت خواہی‘ کی ( جو 283 لاکھ رائے دہندوں کی سرکاری تعداد کا 8 فیصد ہوتے ہیں)۔ چپکے سے معذرت خواہی کرلی اور معاملہ ختم۔ کوئی چوکس جمہوریت ہوتی تو تمام سیاسی پارٹیاں یکجا ہوکر اس اسکینڈل پر احتجاج کیلئے لاکھوں عوام کو سڑکوں پر لے آتے۔ سی ای او مستعفی ہوجاتا یا اسے برطرف کردیا جاتا ۔ سی ای سی کے عہدیداران جنھوں نے تلنگانہ میں انتخابی فہرستوں کا جائزہ لیا، انھیں معطل کردیا جاتا۔ اس میں سے کچھ بھی نہیں ہوا، اور کوئی بھی غصہ نہیں ہے۔ تلنگانہ میں جمہوری طور پر منتخب چیف منسٹر کے تحت زندگی جاری ہے۔
مقننہ جات : اِس جدول پر نظر ڈالئے، جنس کا عدم توازن عیاں ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ جنس کی مساوات والا سماج تشکیل دینے کے تعلق سے کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے۔
ریاست
منتخب ایم ایل ایز
خاتون ایم ایل ایز
چھتیس گڑھ
90
13
راجستھان
199
23
مدھیہ پردیش
230
22
تلنگانہ
119
6
میزورم
40
0
ہر پارٹی کو ذمہ داری ضرور قبول کرنا چاہئے۔ انھوں نے کم خاتون امیدواروں کو انتخابی میدان میں ٹھہرایا، مردوں کو ’جیت کی قابلیت‘ کی بنیاد پر ترجیح دی، یا خواتین کو امیدواروں کے طور پر ایسے حلقوں میں نامزد کردیا جہاں پارٹی کی کامیابی کا امکان کم ہے۔ چند خاتون ایم ایل ایز کا مطلب ہے چند خاتون وزراء ہوں گے؛ میزورم میں کوئی بھی خاتون ایم ایل اے نہیں کیونکہ وہاں کامیاب ایم این ایف نے کوئی خاتون امیداور ہی نہیں ٹھہرایا! اس کا حل سادہ ہے: مقننہ جات میں کم از کم 33 فیصد نشستیں خواتین کیلئے محفوظ کی جائیں۔ یہ کوئی انقلابی خیال نہیں کیونکہ اس طرح کا ریزرویشن پہلے ہی بلدیات اور پنچایتوں کے انتخابات میں قانون ہے۔
عدالتیں : عدالتی نظام ٹوٹ چکا ہے، اور یہ مشکوک ہے کہ آیا اسے کوئی واجبی وقت کے اندرون مجموعی طور پر جوڑا جاسکتا ہے۔ مسئلہ خالی جائیدادوں تک محدود نہیں، یہ کہیں زیادہ بڑا ہے۔ ٹوٹے سسٹم کے دیگر پہلو فرسودہ اور ناقص طریقے، انفراسٹرکچر کا فقدان، ماڈرن ٹکنالوجی کا عدم استعمال، نااہل مرد و خواتین کا وکلاء کے بھیس میں ہونا، دغابازوں کو نکال باہر کرنے کیلئے بار کونسلوں کی عدم آمادگی یا ناقابلیت، اور تمام سطحوں پر کافی پھیلا ہوا کرپشن۔ اگر ایسا سسٹم ہونے کے باوجود کئی کیسوں میں انصاف ہوتا ہے تو خدا کی مہربانی اور ایماندار ججوں سے ممکن ہورہا ہے۔ تشویشناک حقیقت یہ ہے کہ اس قبیل میں اضافہ نہیں ہورہا ہے۔
مفاد عامہ کا مقدمہ : وہ چیز جس کی حوصلہ افزائی ’’عدالتوں تک رسائی سے محروم غریبوں اور مظلومین‘‘ کو انصاف دلانے کیلئے ہوئی تھی، بداندیش قانونی ہتھیار میں تبدیل ہوچکی کہ نتیجوں کو ’فکس‘ کیا جائے اور معمول کے قانونی طریقوں کو ناکام کیا جاسکے۔ پی آئی ایل کے بعض عرضی گزاروں کے مقاصد مشکوک ہیں۔ پی آئی ایل عرضیوں سے نمٹتے ہوئے عدالتوں نے قابل اعتراض جواز کے انوکھے طریقے اختیار کرلئے ہیں۔ اس عمل میں اعلیٰ عدالتوں نے دائرۂ کار پر قبضہ کرلیا ہے، عاملانہ حکومت کے اختیارات حاصل کرلئے اور حتیٰ کہ مقننہ جات؍ پارلیمنٹ کے حدود میں بھی گھس گئے ہیں۔ ایسا ظاہر ہوسکتا ہے کہ زیربحث معاملے میں ’انصاف ہوا ہے‘، لیکن درحقیقت قانون کے قائم کردہ طریقۂ کار کے ساتھ ساتھ قانون کے مسلمہ اُصولوں کو بھی شدید نقصان ہوا ہے۔ بعض کیسوں میں فیصلے کھلم کھلا غلط ہیں۔
بیوروکریسی : ہمارے اڈمنسٹریشنس کی سب سے بڑی ناکامی پراجکٹوں اور پروگراموں کو انجام دینے اور وعدے کئے گئے نتیجوں؍ فوائد پہنچانے کی ناقابلیت رہی ہے۔ شاذونادر موقعوں پر اڈمنسٹریشن نے چیلنج کے مطابق کام کیا ہے (جیسا کہ تباہی کی صورت میں راحت کاری)، لیکن اکثروبیشتر عوام کو بالکلیہ مایوسی ہوتی ہے۔ یوں تو منتخب سیاستداں اصلاحی اعتبار سے ذمہ دار ہیں، لیکن اصل ذمہ داری بیوروکریسی یا افسرشاہی کی ہوتی ہے۔ سیول سرونٹس پراجکٹس اور پروگرامس ترتیب دیتے ہیں، وہ لاگت اور وقت کے اندازے قائم کرتے ہیں، اور وہ عمل آوری کیلئے راست ذمہ دار ہوتے ہیں؛ پھر بھی کئی پروگرامس مکمل طور پر ناکام ہوگئے اور کئی دیگر کے غیراطمینان بخش نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ملک میں وافر ٹیلنٹ ہے، لیکن اس طرح باصلاحیت افراد خانگی شعبے کی خدمات کررہے ہیں یا بیرونی ممالک میں برسرکار ہیں۔ ہم نے اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ڈھونڈا ہے جو گزرتے برسوں کے ساتھ ابتر ہوتا جارہا ہے۔
ادارہ جات، تنظیمیں : ماضی میں کبھی نہیں ہوا کہ اتنی تعداد میں اداروں کو اس قدر مختصر عرصے میں کافی نقصان پہنچایا گیا جس طرح گزشتہ چار سال میں ہوا ہے۔ سی ای سی، سی آئی سی اور آر بی آئی کو مجروح یا مصالحت پر مجبور کیا جاچکا ہے۔ سی بی آئی داخلی طور پر دراڑ کا شکار ہے؛ حکومت کی تبدیلی مزید تحقیقاتی اداروں کی شکستگی کا سبب بنے گی۔
ٹیکس کاری : عام حالات میں ٹیکس شرحیں ضرور اعتدال پسند ہونے چاہئیں اور ٹیکس اڈمنسٹریشن کو سرویس ہونا چاہئے۔ یہ قواعد اُلٹ دیئے گئے ہیں۔ اب ٹیکس شرحیں جبری وصولی اور امتیاز پر مبنی ہیں (مثلاً GST) اور ٹیکس اڈمنسٹریشن ’ٹیکس ٹیررازم‘ بن گیا ہے۔
وزیراعظم : موجودہ وزیراعظم سربراہ حکومت نہیں بلکہ وہ خود حکومت ہے۔ کسی دستوری ترمیم کے بغیر پارلیمانی جمہوریت کو عملاً صدارتی حکومت میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔ تنقیح اور توازن کے تمام مراحل ختم کردیئے گئے ہیں۔
ناقص جمہوریت ناکام ہوجائے گی۔ ہندوستان میں جمہوریت کی بقاء تب ہی ہوگی جب ہم توازن کو بحال کریں گے۔ میں اس سال کا اختتام پُرامیدی پر کرتا ہوں: ’اگر سرما آجائے تو کیا موسم بہار بہت زیادہ دور ہوسکتا ہے؟‘