غضنفرعلی خان
سیاسی مبصرین بڑی تیزی سے اس بات کے قائل ہوتے جارہے ہیں کہ ہندوستان ایک جماعتی نظام کی طرف گامزن ہورہا ہے ۔ ایسا سوچنے کی فی الوقت معقول وجوہات بھی ہیں ، جس تیزی سے اقتدار پر بی جے پی اور اس کی ہم خیال جماعتوں کا قبضہ ہورہا ہے اور جیسے جیسے یکے بعد دیگرے ریاستوں میں بی جے پی حکومتیں قائم ہورہی ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے یہ اندیشہ کچھ حد تک بلکہ بڑی حد تک صحیح دکھائی دے رہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیوں فرقہ پرست پارٹیاں خاص طور پر بی جے پی اور اسکی اتحادی جماعتیں انتخابات میں کامیابی حاصل کر رہی ہیں، یہ اندازہ ہر کسی کو ہورہا ہے کہ سارے ملک میں بی جے پی اقتدار حاصل کرلے گی ۔ یہ صورتحال دیکھ کر سیاسی پارٹیاں بھی رنگ بدل رہی ہیں۔ ان کے لیڈر بھی دھڑے سے اپنی سیکولر پارٹیاں چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہورہے ہیں۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ تازہ ترین مثال بہار کے چیف منسٹر اور جنتا دل (یو) کے لیڈر نتیش کمار کی ہے۔ چند ہفتوں تک یہ بات سوچی بھی نہیں جا سکتی تھی کہ وہ این ڈی اے میں شامل ہوجائیں گے اور بی جے پی کی کی مدد سے بہار اسمبلی میں اکثریت کی تائید حاصل کرلیں گے ۔ حالانکہ یہ بات طئے شدہ تھی کہ نتیش کمار سیاسی قلا بازی کرنے والے ہیں، دوسری طرف تاملناڈو میں کانگریس کے 6 ارکان نے اپنی پا رٹی سے انحراف کر کے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ۔ ابھی دیکھئے کہ آگے آگے ہوتا ہے کیا ۔ بہرحال بی جے پی ایک طاقتور جماعت بن گئی ہے ۔ وزیراعظم مودی اور ان کی پارٹی برسوں سے نعرہ لگا رہے ہیں کہ وہ بھارت کو کانگریس مکت بنائیںگے ، صرف کانگریس سے ملک کو آزاد کرنے کی بات بی جے پی اس لئے کہہ رہی ہے کہ اس کے خیال میں کانگریس ہی وہ جماعت ہے جو قومی پار ٹی ہے اور اس کی جڑیں دور دور تک گڑی ہوئی ہیں۔ دوسری جماعتوں کو بی جے پی گویا اپنے لئے خطرہ نہیں سمجھتی، اس کا یہ خیال بہت زیادہ غلط بھی نہیں ہے۔ ابھی تک ملک میں کئی سیاسی پارٹیوں میں اقتدار تقسیم ہوتا رہا ہے لیکن اب حا لات بدل رہے ہیں۔ بی جے پی کے اقتدار کے آثار نمایاں ہوتے جارہے ہیں تو دوسری طرف جمہوریت پسند اور سیکولرازم پر یقین رکھنے والی پارٹیاں شکست و ریخت کی شکار ہیں اور ہوتی جارہی ہیں ۔ آزادی کے بعد سے آج تک سیکولر اور جمہوریت پسند سیاسی پارٹیوں کو اتنا بڑا خطرہ لاحق نہیں ہوا تھا۔ ہماری 70 سالہ جمہوریت اور سیکولرازم ان دنوں اپنی وجود کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ اگر نہیں لڑ رہے ہیں تو انہیںایک طویل جنگ کیلئے تیار رہنا پڑے گا ، ورنہ اس بات سے انکارنہیں کیا جاسکتا ہے کہ ملک میں ایک جماعتی نظام قائم ہوجائے گا اور رفتہ رفتہ نہیں بلکہ بڑی تیزی سے فرقہ پرست طاقتیں اقتدار پر قابض ہوجائیں گی ۔ یہ محض خدشہ نہیں ہے بلکہ ایسا خطرہ ہے جو بہت جلد حقیقت بن سکتا ہے ۔ بہار میں مہا گٹھ بندھن کا ٹوٹنا اس بات کا واضح اشارہ دے رہا ہے کہ فرقہ پرستی کے خلاف سیکولر پارٹیوں کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے ۔ آخر کیوں سیاست داں عجلت سے بی جے پی میں شرکت کرتے جارہے ہیں۔ اقتدار اور حکومت ہی ان کا نصب العین کیوں بن گیا ہے ؟ وہ اعلیٰ اقدار جو کبھی سیاست دانوں کو عزیز تھیں ، ان کو کیوں خیرباد کردیا گیا ہے۔ یہ ہمارے سماج کی اور خاص طور پر سیاست دانوں کی کمزوری ہے ۔ آزادی کی تحریک سے قبل اوراس کے دوران بھی سیاستدانوں کے پیش نظر ملک کی آزادی مقصد رہی۔ نئی آزادی ملنے کے بعد بھی 50 برس تک برسر اقتدار کانگریس نے ان قدروں کو سنبھال کر رکھا لیکن اصولوں کی پاسداری ان کی پابندی کانگریس کے اقتدار ہی کے زمانے میں زوال پذیر ہورہی تھی ۔ جیسے جیسے یہ صورتحال پیدا ہوئی اسی رفتار سے کانگریس کی زوال پذیری بھی بڑھتی گئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ یہ پارٹی سمٹ کر رہ گئی ۔ کانگریس پا رٹی کو تحریک آزادی کے بعد کی تاریخ میں ایک خاص مقام حاصل ہے جو کوئی دوسری پارٹی یا بی جے پی حاصل نہیں کرسکتی کیونکہ جن کمزوریوں کی کانگریس شکار ہوتی ہے وہ تمام خامیاں بی جے پی میں جس رفتار سے پیدا ہورہی ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں بھی ویسی ہی پسپائی کا شکار ہوجائے گی جس طرح کی پسپائی کانگریس کی ہوئی ہے۔ ایک پارٹی نظام ملک کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آزاد ہندوستان میں چند برسوں کو چھوڑ کر ہمیشہ کانگریس ہی کا دبدبہ رہا ہے ۔ کانگریس کے علاوہ کسی سیاسی پارٹی کو کبھی اقتدار حاصل نہیں ہوا ۔ بی جے پی تو سیاسی بساط پر تھی ہی نہیں ۔ آج بی جے پی کو عروج حاصل ہورہا ہے تو حیرت کی بات نہیں ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ کانگریس پارٹی کے لیڈروں نے ملک کے مزاج اس کی تاریخ اور اسکی اصلیت کو سمجھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہندوستانی پر کسی ایک مذہب کی حکمرانی نہیں ہوسکتی۔ سارے ہندوستانی ہر لحاظ سے مسایانہ حقوق رکھتے ہیں اور ہر فرقہ کے ماننے والوں کو ملک کی ترقی کے ثمرات ملیں گے ۔ سیکولرازم کی صحیح اسپرٹ بھی یہی ہے ۔ اس سوچ نے کانگریس کو برسوں اقتدار پر رکھا لیکن بی جے پی کی بات اور ہے ، وہ ملک میں تمام باشندوں کو مساوی اور برابر نہیں سمجھتی ہے۔ یہ پارٹی ملک پر ایک مخصوص مذہب کی چھاپ لگانا چاہتی ہے ۔ کانگریس اور بی جے پی میں یہی بڑا فرق ہے کہ کانگریس نے ہندوستان کے مزاج اس کی تکثریت اور اس کے تنوع کو بخوبی سمجھا جبکہ ابھی مکمل اقتدار بھی نہیں ملا ہے اور بی جے پی ہندوتوا کی چھاپ لگانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے ۔ ایک جنگ ہے کہ جو لڑی جانی چاہئے ۔ تمام سیاسی پارٹیوں اور ملک کے عوام کو یہ جنگ لڑنی ہے۔ یہ صرف کانگریس ہی کی لڑائی نہیں ہے بلکہ ہندوستان کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کی جنگ ہے جو ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرتے ہیں ۔