غضنفر علی خان
جموں و کشمیر میں پی ڈی پی اور بی جے پی ملی جلی سرکار مذاق کا موضوع بن گئی ہے ۔ یہ حکومت کس کی ہے ، اس کی کیا شناخت ہے اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ ایک بات البتہ غور طلب ہے کہ مفتی سعید کی پی ڈی پی پارٹی اور بی جے پی میں کوئی مماثلت نہیں ہے ۔ یہ حکومت ’’مجموعہ اضداد‘‘ ہے ۔ دونوں کے نظریات اور سیاسی فکر میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ اس افتراق کے باوجود دونوں میں سمجھوتہ کیوں ہوا ۔ وہ کیا چیز ہے جس نے اتنی مختلف الخیال پارٹیوں کو مخلوط حکومت بنانے پر مجبور کردیا ۔ بات دراصل یہ ہے کہ دونوں نے موقع پرستی اور اقتدار پرستی کا بدترین مظاہرہ کیا ۔ پہلے ہی ان پارٹیوں کو یہ اندازہ کرلینا چاہئے تھا کہ ان کی دوستی پائیدار نہیں ہوسکتی ۔ لیکن چونکہ دونوں کے پیش نظر اقتدار کا حصول تھا اس لئے ان میں مصالحت ہوئی ۔ یہ کوئی اصولی ملاپ نہیں تھا ۔ اقتدار کی حصہ دار کے باوجود پی ڈی پی اور بی جے پی اس سرحدی ریاست میں اختیارات کی تقسیم اور نظریات کے اختلاف کو چند دنوں تک بھی چھپا نہ سکے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت میں سرپھٹول شروع ہوگئی ۔ پی ڈی پی نے وادی کشمیر میں اور بی جے پی نے جموں کے علاقہ میں کامیابی حاصل کی اس علحدہ حصوں میں کامیابی میں بھی پی ڈی پی کا عددی موقف بی جے پی سے بہتر رہا ۔ پی ڈی پی ہر لحاظ سے علاقائی پارٹی ہے جبکہ بی جے پی قومی سطح کی جماعت ہے لیکن انتخابی نتائج کے پس منظر میں بی جے پی کو آخرکار ہتھیار ڈالنے پڑے ، بی جے پی کی طرح مفتی سعید کی پارٹی کی بھی سیاسی مجبوریاں تھیں ۔
حالانکہ جموں کے علاقہ میں بی جے پی کی کامیابی اس بات کا ثبوت تھی کہ اس کا ہندوتوا ایجنڈا کم از کم جموں میں کامیاب رہا ۔ پی ڈی پی کیلئے کوئی متبادل نہیں تھا اور اسکی یہ مجبوری رہی کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے تعاون کے بغیر حکومت نہیں بناسکتی تھی ۔ بی جے پی نے کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد تقریباً دو ماہ تک حکومت سازی کے سارے ہتھکنڈے استعمال کرتی رہی ۔ پی ڈی پی کو اس بات کا انتظار تھا کہ بی جے پی آخرکار اسی کا رخ کرے گی ۔ ان ہی مجبوریوں کی سیاست نے ایسی دو پارٹیوں کو یکجا کردیا جن میں گہرا بعد المشرقین پایا جاتا ہے ۔ اب حکومت تو بن گئی لیکن اس کو چلانے کے لئے جو سوجھ بوجھ درکار ہے وہ نہیں پائی جاتی ہے ۔ چیف منسٹر مفتی سعید علاقائی مفادات کے تحت فیصلے کررہے ہیں جبکہ بی جے پی قومی مفادات کے تحفظ کا ڈھول پیٹ رہی ہے ۔ علاقائی مفادات کا بہانہ بنا کر مفتی سعید نے مسرت عالم جیسے علحدگی پسند لیڈر کو آزاد کردیا ۔ جو قید و بند کی زندگی گذار رہا تھا ۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ مسرت عالم کی رہائی سے جموں و کشمیر کی سیاسی فضا میں تبدیلی آئے گی اور حکومت کو علحدگی پسندوں سے بات چیت کرنے میں سہولت ہوگی ۔ مفتی حکومت کا یہ بھی استدلال ہے کہ مسرت عالم کو عدالت کے فیصلے کے تحت چھوڑا گیا ہے یعنی ان کی رہائی خالص تکنیکی بنیادوں پر ہوئی ہے ۔ اس دلیل کو وسعت دیتے ہوئے مفتی حکومت یہ بھی کہہ رہی ہے کہ کسی ریاست کی داخلی صورتحال ریاستی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہوتاہے یعنی ریاستی حکومت ریاست کے فیصلہ کو قطعی حق بجانب قرار دے رہی ہے ۔ بی جے پی شریک اقتدار ہوتے ہوئے بھی کچھ اس لئے نہیں کرسکتی کہ اسمبلی میں اس کا عددی موقف کمزور ہے ۔ بی جے پی کا یہ کہنا ہے کہ مخلوط حکومت کی شریفانہ روایات یہ ہے کہ تعاون کرنے والی پارٹی یا پارٹیوں سے صلاح مشورہ کیا جانا چاہئے ۔ مسرت عالم کے مسئلہ پر سارے ملک میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا ۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں میں مرکزی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس مسئلہ پر مرکزی وزیر داخلہ اور خود وزیراعظم مودی کی وضاحت کو قبول نہیں کیا ۔ اگرچہ کہ وزارت داخلہ نے ایک ایڈوائزری نوٹ ریاستی حکومت کو روانہ کرکے اس مسئلہ پر وضاحت طلب کی ہے
سب سے زیادہ حیرت انگیز بلکہ نہایت درجہ افسوسناک بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے ایوان میں وزیراعظم نے کہا کہ ’’انھیں اس بات کا کوئی علم نہیں ہے کہ جموں و کشمیر کی ریاستی مخلوط حکومت نے مسرت عالم جیسے علحدگی پسند لیڈر کو رہا کردیا ۔ جس ملک کے وزیراعظم کو اپنے ملک کی سب سے حساس ریاست میں ہونے والے اتنے بڑے واقعہ کا علم نہیں ہوتا اس ملک کا خدا ہی حافظ ہے ۔ کیسے بی جے پی لیڈروں نے جن کا تعلق ریاستی حکومت سے ہے جو اس حکومت میں وزارتوں کے عہدوں پر فائز ہیں جہاں کے ڈپٹی چیف منسٹر بھی اسی حکومت میں ہیں جس نے مسرت عالم کو رہا کیا ۔ وزیراعظم کو مطلع نہیں کیا کیوں مسٹر مودی نے اپنی پارٹی کے لیڈروں سے معلوم نہیں کیا کہ اتنا اہم فیصلہ کیسے پی ڈی پی نے اکیلے اپنے بل بوتے پر کیا ہے ۔ کیا مفتی سعید کو خصوصی اختیارات دیئے ہیں کہ وہ مخلوط حکومت کے کلچر کو ترک کرکے ایک طرفہ فیصلے کریں ۔ کیا مودی کی بی جے پی کے کشمیر یونٹ پر کوئی گرفت نہیں ہے ۔ سب سے بڑا سوال تو یہ ہیکہ مسرت عالم علحدگی پسند لیڈر ہیں یا دہشت گرد ہیں یہ فیصلہ نہ تو کشمیر کی ریاستی حکومت نے کیا ہے اور نہ مرکزی حکومت نے اس پر کبھی سنجیدگی سے غور کیا ہے ۔ اگر قومی مفادات مسرت عالم کی رہائی سے خطرات کا شکار ہوتے ہیں جیسا کہ مرکز کا دعوی ہے تو پھر مفتی حکومت سے بی جے پی کو اپنا تعاون واپس لینا چاہئے ۔ کیونکہ بی جے پی کا ہمیشہ سے یہ دعوی رہا ہے کہ وہ قومی مفادات کا کسی بھی قیمت پر سودا نہیں کرے گی ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قومی مفادات کے مسئلہ پر کم از کم کشمیر میں نرم رویہ اختیار کیا گیا ہے ۔ اگر بی جے پی کو قومی مفاد عزیز ہوتے تو وہ فوراً مفتی حکومت کی تائید سے دستبردار ہوجاتی ۔ بی جے پی نے ایسا نہیں کیا بلکہ افسوسناک انداز میں وزیراعظم نے اعتراف کیا کہ ’’انھیں اس کارروائی کا کوئی علم نہیں‘‘ ۔ تنگ آگئے احباب تری بے خبری سے ۔
یہ مخلوط حکومت محض اقتدار حاصل کرنے کے لئے بنی ہے ۔ قومی مفادات کا راگ الاپنے سے اس سچائی کونہیں چھپایا جاسکتا کہ کشمیر میں بی جے پی نے اقتدار میں رہنے کے لئے اپنے خود ساختہ اصولوں کو اپنے قدموں تلے روند دیا ہے ۔