جموں و کشمیر میں پی ڈی پی ۔بی جے پی مخلوط حکومت پر اپوزیشن کی تنقید

نئی دہلی/جموں۔ یکم مارچ ( سیاست ڈاٹ کام ) جموں و کشمیر کی نئی پی ڈی پی ۔بی جے پی مخلوط حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کانگریس نے آج کہا کہ چیف منسٹر مفتی محمد سعید کو بی جے پی کے تبدیلی مذہب ایجنڈہ کے بارے میں ’’محتاط‘‘ رہنا چاہیئے ۔جب کہ نیشنل کانفرنس نے اظہار حیرت کیا کہ ‘ کیا بھگوا پارٹی کے وزراء ‘ نظریہ ساز جنہوں نے ریاست کے دستوری موقف کی مخالفت کی تھی ‘ کیا اب اس سے متفق ہوگئے ہیں ۔ راجیہ سبھا میں قائد اپوزیشن غلام نبی آزاد نے کہا کہ یہ حلف برداری تقریب سے زیادہ ایک قومی عاملہ کا اجلاس معلوم ہوتا تھا جو جموں میں بی جے پی نے منعقد کیا تھا ‘ وہ قبل ازیں کہہ چکے ہیں کہ پی ڈی پی ۔ بی جے پی مخلوط حکومت کے تمام فیصلے اب ’’ ناگپور میں کئے جائیں گے ‘‘ جو آر ایس ایس کا ہیڈ کوارٹر ہے چونکہ بی جے پی کیلئے یہ تبدیلی مذہب کا دور ہے ۔ پی ڈی پی قیادت کو سیاسی تبدیلی کے بارے میں محتاط رہنا چاہیئے ‘ کہیں پی ڈی پی بی جے پی میں ضم نہ ہوجائے ۔ بی جے پی کے وزراء نے جموں و کشمیر میں اُسی دستور سے اپنی وفاداری کا حلف اٹھایا ہے جس سے چھٹکارا پانے کیلئے شیاما پرساد مکھرجی نے اپنی جان دی تھی ۔ وہ جن سنگھ کے بانی تھے ‘وہ ریاست جموں و کشمیر کے ہندوستان میں مکمل انضمام کا مطالبہ کرتے ہوئے 23جون 1953ء کو حراست میں فوت ہوگئے تھے ۔

پی ڈی پی ۔ بی جے پی اتحاد کو ’’ تضادات کا اتحاد‘‘ قرار دیتے ہوئے سی پی آئی ایم کے ریاستی قائد محمدیوسف تریگانی نے کہا کہ دونوں پارٹیوں کو ’’ کچھ نہ کچھ چھپانا ہے ‘‘ ۔کیونکہ دونوں نے تقریب حلف برداری سے پہلے اُن کے مشترکہ اقل ترین پروگرام کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا ہے ۔ جیسا کہ انہوں نے وعدہ کیا تھا ۔ تریگانی نے کہا کہ پی ڈی پی کا کہنا ہے کہ وہ اقل ترین مشترکہ پروگرام کے بارے میں عوامی رائے حاصل کرے گی لیکن انہوں نے تقریب حلف برداری سے پہلے اس کا برسرعام اعلان نہیں کیا ‘ تاکہ عوام مختلف مسائل پر اپنے موقف کا فیصلہ کرسکتے ‘ چنانچہ پی ڈی پی اور بی جے پی دونوں کو کچھ نہ کچھ عوام سے پوشیدہ رکھنا ہے ۔یہ واضح ہے کہ دونوں پارٹیوں کا اولین مقصد اقتدار میں شراکت داری کیلئے اتحاد ہے ۔ تریگانی جموں و کشمیر میں سی پی آئی ایم کے واحد رکن ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ دونوں پارٹیوں نے کیسے تضادات کے باوجود باہمی اتحاد کرلیا ہے ۔

اسی سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ دونوں پارٹیوں کے درمیان مخلوط حکومت تشکیل دینے کیلئے دو ماہ تک بات چیت جاری رہی ‘ یعنی مسئلہ موجود ہے۔ مخلوط حکومت کو قطب شمالی اور قطب جنوبی کو یکجا کرنے کی مشق قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نظریات کے اعتبار سے یہ حکومت 49دن کے گورنر راج کے بعد قائم ہوئی ہے ۔ اور نظریاتی تضادات کے پیش نظر اس کا اپنی میعاد مکمل کرنا ناممکن نظرآتاہے ۔ جموں و کشمیر کے پاکستان میں انصمام کا 1947ء میں اُس وقت کے مہاراجہ ہری سنگھ نے معاہدہ کرلیا تھا لیکن شیخ عبداللہ کی زیرقیادت نیشنل کانفرنس نے عوامی تحریک چلائی تھی جو پاکستان میں کشمیر میں انصمام کی مخالف تھی ۔ چنانچہ پاکستان نے قبائلیوں کے بھیس میں اپنی فوج کو جموں و کشمیر پر حملہ کرنے کے لئے روانہ کیا تھا جس نے تقریباً نصف وادی کشمیر پر قبضہ کرلیا تھا جسے اب پاکستانی مقبوضہ کشمیر کہا جاتا ہے ۔ اقوام متحدہ کی مداخلت پر جنگ بندی اور جوں کا توں حالت برقرار رکھنے سے اتفاق کیا گیا تھا ۔ پاکستان نے اقوام متحدہ سے استصواب عامہ کروانے کا مطالبہ کیا تھا جو ہنوز برقرار ہے ۔