مخلوط ریاستی حکومت کے تین سال مایوس کن، پی ڈی پی اور بی جے پی متضاد سمتوں میں گامزن، کانگریس کا دعویٰ
جموں 6 نومبر (سیاست ڈاٹ کام) کانگریس کی جموں و کشمیر اسٹیٹ یونٹ نے مرکزی حکومت سے آج مطالبہ کیاکہ مختلف حاملین مفادات کے ساتھ بات چیت کے لئے اِس (حکومت) کے مجوزہ خاکے کو منظر عام پر لایا جائے، اور الزام عائد کیاکہ اِس نے ایک خصوصی نمائندہ کا تقرر کرتے ہوئے اپنی کشمیر پالیسی کے بارے میں برعکس موقف اختیار کرلیا ہے۔ صدر جموں اینڈ کشمیر کانگریس کمیٹی جی اے میر نے یہاں میڈیا والوں سے بات چیت میں کہاکہ گزشتہ تین سال سے وہ یہی کہتے آئے ہیں کہ اُن عناصر کے ساتھ بات چیت نہیں ہوگی جو دستور کے دائرہ کار کے تحت بات چیت کرنا نہیں چاہتے۔ آج بی جے پی کہہ رہی ہے کہ ہم ریاست میں ہر کسی کے ساتھ مذاکرات کے لئے کھلا ذہن رکھتے ہیں۔ یہ اِس کی کشمیر پالیسی پر ’’یو ٹرن‘‘ کے مترادف ہے۔ غلام احمد میر یہاں پارٹی ہیڈکوارٹرس کے باہر منظم احتجاج کی قیادت کرتے ہوئے مخاطب تھے۔ یہ احتجاج پی ڈی پی ۔ بی جے پی حکومت کی تمام محاذوں پر ’’کامل ناکامی‘‘ کے خلاف کیا جارہا ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ اگر مرکز ’’ہر کسی‘‘ کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہے تو اُسے ’روڈ میاپ‘ کو منظر عام پر لانا چاہئے۔ کانگریس کا گزشتہ 15 یوم سے یہی مطالبہ ہے کہ حاملین مفاد کی فہرست منظر عام پر لائی جائے لیکن وہ اسے پردے کے پیچھے رکھے ہوئے ہیں۔ وہ سب کچھ کررہے ہیں مگر پردے کے پیچھے اور کوئی ٹھوس موقف اختیار کرنے اور عوام کو اِس سے واقف کرانے میں شرمندگی محسوس کررہے ہیں کیوں کہ وہ خائف ہیں کہ اُنھیں وہ لوگ پکڑ سکتے ہیں جنھیں اِن لوگوں نے دغا دی ہے۔ مرکز نے سابق انٹلی جنس بیورو ڈائرکٹر دنیشور شرما کو کشمیر میں مختلف گوشوں کے ساتھ بات چیت کے لئے اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کیا ہے جو وادی میں امن کو یقینی بنانے کی ایک کوشش ہے۔ ریاستی حکومت پر شدید لفظی حملہ چھیڑتے ہوئے کانگریس لیڈر میر نے الزام عائد کیاکہ پی ڈی پی اور بی جے پی دونوں مخلوط حکومت کے شرکاء ہیں، متضاد سمتوں میں کام کررہے ہیں کیوں کہ اُن کے کام کاج میں تعاون اور اعتماد کا فقدان ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو مایوسی ہوئی ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ 3 سال گزر چکے لیکن دونوں پارٹیوں نے جموں و کشمیر کے عوام سے کیا گیا ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔ جموں میں بی جے پی اور کشمیر میں پی ڈی پی کو سیاسی غلبہ حاصل ہے لیکن وہ انتخابات سے قبل عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل میں ناکام ہوئے ہیں۔ دونوں پارٹیاں ریاست کو درپیش مسائل پر منقسم ہیں۔ اگر بی جے پی کوئی موقف اختیار کرتی ہے تو اُس کی پارٹنر کچھ دیگر سمت میں کام کررہی ہے جس کا نتیجہ عوام کی مشکلات میں اضافہ ہی اضافہ ہے۔ اُنھوں نے یہ الزام بھی عائد کیاکہ ریاستی حکومت، ریاستی عوام کی توقعات پر پوری اُترنے میں ناکام ہوئی ہے اور سرحدی علاقوں میں رہنے والوں کے مسائل سے بھی صرف نظر کیا جارہا ہے نیز کسانوں، نوجوانوں، ملازمین، غیر منظم مزدوروں اور تاجرین کے مسائل بھی بدستور حل طلب ہیں۔