جموں و کشمیر، تباہی کی راہ پر

پی چدمبرم
جموں و کشمیر میں حکومت نے ایک نیا گورنر مقرر کیا ۔ ایک نئے چیف سکریٹری کا تقرر عمل میں آیا۔ ایک نئے ڈائرکٹر جنرل پولیس کو امن و ضبط کی برقراری کی ذمہ داری تفویض کی گئی۔ اسی طرح ریاست میں سیکورٹی مسائل پر مشاورت کیلئے ایک نئے مشیر سلامتی کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔ چنانچہ جموں و کشمیر کے عوام ( بالخصوص وادی کشمیر میں ) تک پہنچنے کا بہترین طریقہ ان کے پاس مقامی اداروں ( پنچایت اور بلدیات ) کے انتخابات منعقد کروانا تھا تاکہ اس کے ذریعہ وادی کی عوام تک پہنچنے کی راہ نکالی جائے۔ نئے گورنر ،نئے چیف سکریٹری و نئے ڈائرکٹر جنرل پولیس اور نئے مشیر سلامتی ( برائے کشمیر ) نے عوام تک رسائی کیلئے راہ نکالنے کی کوشش ضرور کی لیکن ان کی کوششوں کو انتہائی توہین کے ساتھ مسترد کردیا گیا۔ ان انتخابات کے پہلے اور دوسرے مرحلہ کے انتخابات میں رائے دہی کا اوسط وادی کشمیر میں بالترتیب 8.2 اور 2.3 فیصد رہا۔ کئی ایسے وارڈس تھے جہاں کسی نے امیدوار بننے کی جرأت نہیں کی کئی ایسے وارڈس بھی تھے جہاں ووٹ نہیں ڈالے گئے۔ متعدد وارڈس میں ایک ہی امیدوار ہونے کے نتیجہ میں اسے بلا مقابلہ منتخب کرلیا گیا۔
ہمارے ملک کو اس تعلق سے پہلے ہی خبردار کردیا گیا تھا۔ حریت نے عوام پر انتخابات کے بائیکاٹ پر زور دیا تھا۔ سابق ڈائرکٹر جنرل پولیس نے بھی انتباہ دیا تھا ( اپنے اچانک ہٹائے جانے سے قبل ) کہ یہ وقت انتخابات کیلئے مناسب و موزوں نہیں ہے کیونکہ ریاست کی چار بڑی جماعتوں میں سے دو نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی نے انتخابات سے دور رہنے کا فیصلہ کیا جبکہ تیسری بڑی پارٹی کانگریس نے اگرچہ ابتداء میں ہچکچاہٹ محسوس کی فکر و تشویش کا اظہار کیا لیکن عملاً پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کی خواہش کا احترام کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم کانگریس نے یہ واضح کردیا تھا کہ اگر وادی میں سلامتی کی صورتحال میں بہتری نہیں آئی تو وہ اپنے فیصلہ پر نظرثانی کرے گی۔ اس کے باوجود حکومت نے انتخابات منعقد کرنے سے متعلق اپنے منصوبہ کو آگے بڑھایا۔
کشمیر میں پنچایت اور بلدیاتی انتخابات جن حالات میں ہوئے شائد ایسے انتخابات پہلے کبھی دیکھے نہیں گئے اور اس طرح کے انتخابات پہلے کبھی نہیں سنے گئے۔ وادی کشمیر میں امیدواروں کی کوئی فہرست جاری نہیں کی گئی، امیدواروں کو تحفظ و سلامتی کے نام پر ہوٹلوں میں ٹھونس ٹھونس کر رکھا گیا۔ کوئی انتخابی مہم اور تشہیر یا پبلسٹی دکھائی نہیں دی۔ وہاں ایسا کچھ بھی نہیں تھا جسے الیکشن کہا جائے اس کے باوجود اسے ایک الیکشن کہا گیا حالانکہ وہ ایک ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ جموں و کشمیر اس سے قبل کبھی ایسے نقطیب Polarisation کا شکار نہیں ہوا تھا۔ جموں ، وادی کشمیر سے مختلف رہا لیہہ جموں کی طرف اور کارگل وادی کشمیر کی طرف جھکا رہا لیکن لیہہ اور کارگل نے اپنی شناختوں پر زور برقرار رکھا، صورتحال ہمیشہ پیچیدہ رہی۔ بی جے پی کی جانب سے اختیار کردہ خود غرضی و مفادات پر مبنی ایجنڈہ نے حالات کو مزید ابتر بنادیا اور شرمندگی و شرمساری کی صورتحال پیدا کردی ۔ پی ڈی پی بھی 19 جون 2016 میں اُس وقت تک بھی بی جے پی کی شراکت دار رہی جب غیر فطری مخلوط حکومت اپنے بدترین انجام کو پہنچی۔
جموں و کشمیر کئی دہوں سے ایک سیاسی حل کیلئے رو رہی ہے بلک رہی ہے۔ اٹل بہاری واجپائی نے اس کے ایک سیاسی حل کی ضرورت کو اور اس بات کو اچھی طرح سمجھا تھا کہ تمام فریقوں بشمول حریت اور پاکستان سے بات کرنا کیسے ضروری ہوگا۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنے الفاظ کے خزینہ سے لفظ ’’ انسانیت ‘‘ کو نکالا اور پھر ایک امن بس لئے لاہور روانہ ہوئے۔ واجپائی نے اس مسئلہ کے حل کیلئے صرف لاہور کا دورہ ہی نہیں بلکہ اُس وقت کے صدر پاکستان مشرف کو یادگار محبت تاج محل کے شہر آگرہ میں مذاکرات کیلئے مدعو بھی کیا۔ بالآخر واجپائی جی کو ان کی کوششوں میں کوئی کامیابی نہیں ملی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی پارٹی اور آر ایس ایس میں موجود مخالفین، ناقدین اور حکمت عملی طئے کرنے والوں پر اثر انداز نہ ہوسکے اور نہ ہی ریاست میں کارروائیاں انجام دینے والی سیکورٹی فورس کو قابو کرسکے۔ آخر لوگ کیوں مررہے ہیں؟ ہمارے ملک نے بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کی ناقص پالیسی کے نتیجہ میں بھاری قیمت ادا کی ہے اور اس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ذیل میں دیا گیاجدول خود آپ کو بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے کی ناقص پالیسیوں کے بارے میں سمجھائے گا :۔
اس جدول کو دیکھنے سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ این ڈی اے حکومت نے پاکستان کو مسخرنہیں کیا یا کوئی سبق سکھایا نہ ہی طاقت کے استعمال کے ذریعہ دراندازوں کو روکنے میں کامیابی حاصل کی۔
سرحد پار عسکریت پسندوںکی جانب سے ہندوستان میں دراندازی کی کوششوں میں ہر سال اضافہ ہوا 2015میں در اندازی کی 121 کوششیں کی گئیں۔2016 میں ان کوششوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوکر وہ 371 ہوگئی ۔ 2017 میں دراندازی کی 406 مرتبہ کوششیں ہوئی ہیں۔ ریاست میں سیکورٹی فورسیس کی بڑے پیمانے پر تعیناتی کے باوجود ناگروٹا (2016) ، کلگام ، اننت ناگ اور پلوامہ میں (2017) اور شوپیان میں (2018) کے دہشت گرد حملوں کو نہیں روکا جاسکا۔ بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کی پالیسی کے بدترین نتائج یہ رہے کہ ریاست میں عسکریت پسندوں یا انتہا پسندوں کے ساتھ شامل ہوجانے والے نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ انگریزی کے موقر روزنامہ ’ دی ہندو‘ میں 27 اگسٹ 2018 کو ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہونے والے نوجوانوں کی تعداد جو 2017 میں 126 تھی 2018 میں بڑھ کر 131 ہوگئی۔
ادھورے فوائد
ریاست کی ترقی کے جو وعدے کئے گئے تھے انہیں وفا نہیں کیا گیا، حد تو یہ ہے کہ ریاست ترقی کی راہ پر گامزن ہونے اور پیشرفت کرنے کی بجائے پیچھے چلی گئی۔ پرائمری سطح پر ترک تعلیم کی شرح 6.93 سے بڑھ کر 10.3 فیصد ہوگئی جبکہ اپر پرائمری اسکول میں ترک تعلیم کی شرح 5.36 سے بڑھ کر 10.7 فیصد ہوگئی۔ حد تو یہ ہے کہ صحت عامہ اور نگہداشت صحت کے شعبہ میں بھی ریاست کا برا حال ہے۔ ریاست میں ڈاکٹروں اور مریضوں کا جو تناسب ہے وہ 1:1880 ہوگیا ہے جبکہ ماضی میں یہ 1:1552 تھا یعنی پہلے 1552 افراد کیلئے ایک ڈاکٹر ہوا کرتا تھا اب 1880 افراد کیلئے ایک ڈاکٹر ہے۔ CMIE کے مطابق پچھلے تین برسوں کے دورن وادی میں صرف 65 کروڑ روپئے مالیتی نجی پراجکٹس کا اعلان کیا گیا Credit off take کی جو ھدف مقررکی گئی تھی 27650 کروڑ کے مقابل2016-17 میں وہ 16802 کروڑ تھی اور 2017-18 میں یہ 28841 کروڑ کے مقابل 10951 کروڑ روپئے ہے۔
حکومت کی ناکامیاں محدود نہیں ہیں حکومت وادی میں امن قائم کرنے میں بھی ناکام رہی ۔ اکٹوبر 2017 میں حکومت نے ثالثی کیلئے مصالحت کار مقرر کئے تھے۔ لیکن ان مصالحت کاروں کو یکسر فراموش کردیا گیا ہے۔ جموں میں اپنی تخریبی پالیسیوں کے ذریعہ اپنا موقف مضبوط کرتے ہوئے بشمول کٹھوعہ میں کمسن لڑکی کی عصمت ریـزی اور قتل کے مشتبہ ملزمین کی تائید و حمایت کرتے ہوئے بی جے پی نے وادی کشمیر میں عوام کو مزید الگ تھلگ کردیا ہے۔
2001 اور 2014 کے درمیان جو ترقی ہوئی اس کا فائدہ نہیں اُٹھایا گیا۔ اگر کشمیر کی صورتحال آج خراب دکھائی دیتی ہے تو کل وہ بدترین ہوسکتی ہے۔