اتم سین گپتا
جموں و کشمیر میں جو کچھ ہوا اس نے ایک واضح پیغام دیا ہے کہ بی جے پی اپنے حریف کو حکومت سازی سے روکنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ جموں و کشمیر کی تین بڑی سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ ریاست میں حکومت سازی کے لئے اتحاد کی خبر نے بی جے پی کی نیند اڑا دی اور اس نے اناً فاناً میں اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ بی جے پی اور گورنر کی اس گھبراہٹ سے کانگریس اور بی جے پی مخالف سیاسی جماعتوں کے حوصلے بڑھ گئے ہیں۔ بی جے پی مخالف جماعتیں اب مودی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے متحد ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ یہ اتحاد عام انتخابات میں بی جے پی کے لئے ایک بڑے چیلنج کی شکل میں سامنے آ سکتا ہے۔ کرناٹک میں کانگریس جنتا دل سیکولر کے ساتھ اتحاد کر کے بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے میںکامیاب رہی۔ آندھرا پردیش میں چندرا بابو نائیڈو کے ساتھ کانگریس کھڑی ہوگئی ہے۔ جموں وکشمیر میں حکومت سازی کے لئے پی ڈی پی کی حمایت کا صرف اعلان کر کے ہی بی جے پی کی پچھلے دروازہ سے حکومت سازی کی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ اس سے یہ واضح پیغام گیا ہے کہ مودی کی قیادت والی بی جے پی کے خلاف ملک میں ایک عظیم اتحاد بننے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ اتر پردیش کے ضمنی انتخابات میں اپوزیشن کے متحد ہونے سے بی جے پی کو گورکھپور، پھولپور اورکیرانہ جیسی پارلیمانی نشتوں پر زبردست شکست ہوئی۔ کرناٹک میں جے ڈی ایس اورکانگریس کے اتحاد نے ضمنی انتخابات میں پانچ میں سے چار نشتوں پر کامیابی حاصل کی۔ ان کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے ملک کی کئی ریاستوں میں اپوزیشن کے اتحاد کی باتیں ہو رہی ہیں۔ تمل ناڈو میں ڈی ایم کے اورکانگریس کے مابین اتحاد لگ بھگ طے ہے۔ آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں کانگریس اور ٹی ڈی پی ہاتھ ملا چکے ہیں۔ مہاراشٹر میں بھی یہ طے نظر آ رہا ہے کہ شرد پوار اور کانگریس مل کر انتخابات لڑیں گے۔ کرناٹک میں جے ڈی ایس، بہار میں آر جے ڈی ، جھارکنڈ میں جے ایم ایم کے ساتھ کانگریس کا اتحاد ہے۔ اس بات کے بھی امکان ہیں کہ کیرلا میں بایاں محاذ اورکانگریس ایک ساتھ انتخابات لڑ یں گے۔ اس کا سبھی کو علم ہے کہ بنگال اور اترپردیش میں بھی اتحاد کی باتیں کافی آگے پہنچ چکی ہیں۔
ان ریاستوں کے علاوہ صرف دہلی اور اڈیشہ ایسی ریاستیں ہیں جہاں کی تصویر واضح نہیں ہے کیونکہ باقی ریاستوں میں کانگریس اور بی جے پی کی راست لڑائی ہے۔ اب یہ تصویر صاف ہو تی جا رہی ہے کہ مودی کی قیادت والی بی جے پی کے خلاف اپوزیشن متحد ہو رہے ہیں اور جموں وکشمیر کے واقعہ نے اس پر مہر لگا دی ہے اور ساتھ ہی اس سوچ میں تیزی بھی لا دی ہے۔ جموں و کشمیر میں الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات کروانے کے اشارے جس تیزی کے ساتھ مل رہے ہیں اس سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ اس لئے ہو رہا ہے تاکہ اسمبلی کو تحلیل کروانے کے فیصلہ کو عدالت میں چیلنج نہ کیا جائے۔ دوسری سیاسی جماعتوں کو توڑکر حکومت سازی کی کوششیں کرنا بی جے پی کے پارلیمانی طریقہ کار کا اہم حصہ رہا ہے لیکن بی جے پی مخالف سیاسی جماعتوں کی طرف سے اتحاد قائم کئے جانے کو خرید فروخت کا نام دینا نئی بات ہے۔ کم از کم جموں و کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے اسمبلی تحلیل کر کے یہی پیغام دیا ہے۔ اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم نامہ بھی گورنر نے عید میلاد النبیؐ کی تعطیل کے دن تقریباً ساڑھے نو بجے جاری کیا۔ دوسرا اشارہ جو جموں و کشمیر سے آ رہا ہے وہ بی جے پی کے اتحادیوں کے لئے ہے۔ پیغام یہ ہے کہ بی جے پی سے ہاتھ ملانا موت کو گلے لگانے جیسا ہے۔ ظاہری طور پر سیاسی تجزیہ نگار اس قدم سے حیران رہ گئے ہیں اور اسے قومی سانحہ قرار دے رہے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کل سے پہلے تک اسمبلی تحلیل کرنے کی تمام درخواستوں کو مرکزی حکومت نظر اندازکرتی آ رہی تھی۔ این این ووہرا کے بعد گورنر کے عہدے پر فائز ہوئے ستیہ پال ملک نے اس بات پر دھیان نہیں دیا کہ اسمبلی تحلیل نہ کرنے سے خرید و فروخت کا خدشہ بنا رہے گا۔ ایسی صورت حال میں اچانک اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ لینا تمام طرح کے شبہات کو جنم دیتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ فیصلہ سیاسی وجوہات کی بنا پر لیا نہ کی آئینی وجوہات کی بنا پر۔حالانکہ یہ بات صحیح ہے کہ نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اورکانگریس نے اسمبلی تحلیل کرنے پر مجبور جموں وکشمیر میں اپنے اقدام سے اسمبلی تحلیل کرواکر بی جے پی کی مدد سے ہونے والی ممکنہ حکومت سازی پر ضرور روک لگا دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پی ڈی پی میں پھوٹ کا خدشہ بھی نہیں رہا جو گزشتہ دنوں زور پکڑ رہا تھا۔ رواں سال جون میں بی جے پی۔ پی ڈی پی اتحاد ٹوٹنے کے بعد جموں وکشمیر اسمبلی کو صرف معطل رکھنے کا گورنر کا فیصلہ اب مضحکہ خیز ثابت ہو چکا ہے۔ گورنر کی دلیل تھی کہ اسمبلی کو معطل رکھنے سے رکان اسمبلی اپنے علاقوں میں جان کر اپنے ایم ایل اے فنڈ سے ترقیاتی کا کام کر سکتے ہیں۔ اس دلیل کی بنیاد پر توگورنر کو حکومت سازی کے کسی امکان پر غورکرنا چاہئے تھا، جلد بازی میں چھٹی کے دن آدھی رات کو اسمبلی تحلیل نہیں کرنی چاہئے تھی۔ موجودہ اسمبلی میں نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور کانگریس کی مشترکہ طاقت 56 ارکان کی تھی۔ وہیں بی جے پی (26) اور سجاد لون (2) دھڑے کو ملا بھی لیا جائے تو صرف 28 ارکان ہوتے ہیں جو اکثریت کے ہدف 44 سے کافی دور تھے لیکن گورنر نے فیصلے سے پہلے کسی بھی آئین کے ماہر سے رائے مشورہ نہیں لیا کہ کون سا اتحاد مستحکم حکومت دے سکتا ہے اور کون سا اتحاد خرید و فروخت کی کوشش کرے گا۔ اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز تو ریاست میں بی جے پی کے پہرے دار رام مادھو کی دلیل ہے۔ انہوں نے بظاہر تو اسے مذاق کا جامہ پہنانے کی کوشش کی لیکن جو کچھ انہوں نے کہا اس پر صرف ہنسا ہی جا سکتا ہے۔ انہوں نے ٹوئٹ میں لکھا کہ پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس نے حال ہی میں ہوئے شہری بلدیہ انتخابات کا سرحد پار سے ملے اشارے پر بائیکاٹ کیا تھا۔ انہوں نے یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ مزید کہا، ہو سکتا ہے کہ سرحد پار سے ہی انہیں ساتھ آنے کی ہدایت ملی ہو، تبھی حکومت سازی کا دعوی پیش کیا گیا ہے۔ اب یہ پانی کی طرح صاف ہوگیا ہے کہ گورنر نے مرکزکے اشارے پر وہی کیا جو ان سے کہا گیا۔ چونکہ سجاد لون نے بھی حکومت سازی کا دعوی پیش کیا تھا، تو صحیح طریقہ تو یہی تھا کہ گورنر انہیں اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے کا موقع دیتے۔ لون اگر 16 ارکان کو توڑنے میں کامیاب ہو جاتے تو بی جے پی کے کاندھے پر سوار ہوکر اقتدار تک پہنچ جاتے لیکن جب گورنر اور لون دنوں کو یہ معلوم ہواکہ اکثریت ثابت کرنا اب ٹیڑھی کھیر ہے تو انہوں نے اسمبلی تحلیل کر دی۔ ایک مزیدار بات یہ بھی ہوئی، کہا جا رہا تھا کہ چھٹی کا دن تھا اور راج بھون میں لگی فیکس مشین کام نہیں کر رہی تھی، اس لئے انہیں سابق چیف منسٹر محبوبہ مفتی کا خط نہیں ملا اور اس لئے اس کا جواب بھی نہیں دیا گیا۔ لیکن اسمبلی تحلیل ہونے سے کم از کم 6 گھنٹہ پہلے سے تمام میڈیا دکھا رہا تھا کہ انہوں نے حکومت سازی کا دعوی پیش کیا ہے۔ امید ہے کہ راج بھون میں اتنا اسٹاف تو ہوگا ہی جو گورنر کو تازہ سیاسی سرگرمیوں سے آگاہ کر دیتا ہوگا۔ چلو مان لیا کہ گورنر کو تازہ سیاسی سرگرمیوں کی ہوا تک نہیں لگی، تو پھر اچانک اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ کیوں لیا گیا، وہ بھی چھٹی کے دن آدھی رات سے چند لمحات قبل؟اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلہ کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا یہ تو طے ہے۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے ان تمام گورنروں اور مرکزی حکومت پرتنقید کی ہے جنہوں نے بیجا دلائل دے کر اتحاد کا مستقبل تک طے کرنے میں خود کو خدا مانا ہے۔ سپریم کورٹ نے کئی معاملات میں کہا ہے کہ اگر کسی ایک جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہوتی تو جماعتوں کا گروپ متحد ہو کر اکثریت ثابت کر سکتا ہے۔ جموں وکشمیر کے معاملہ میں بھی سپریم کورٹ کا نظریہ یہی رہ سکتا ہے اور ہاں ایک اہم بات جو اس پورے منظر نامہ سے ابھر کر سامنے آئی ہے وہ یہ کہ جب تمام فیصلے مرکزی حکومت ہی کر رہی ہے تو ہمیں نام کے گورنر چاہئیں ہی کیوں؟