لندن 29 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) چیف منسٹر جموں و کشمیر عمر عبداللہ نے کہاکہ کوئی بھی وزیراعظم دستور کی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ اِس دفعہ کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی موقف حاصل ہوا ہے کیونکہ اِسی شرط پر اُس نے کسی اعتراض کے بغیر ہندوستان سے الحاق قبول کیا تھا۔ اِس سوال پر کہ بی جے پی کے نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے امکانات پر کیا وہ فکرمند ہیں، عمرعبداللہ نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وزیراعظم یا صدرجمہوریہ یا کسی اور اعلیٰ ترین عہدہ پر کون فائز ہے۔
دستوری اعتبار سے کسی کو بھی دفعہ 370 کی تنسیخ کا اختیار نہیں ہے کیونکہ ریاست جموں و کشمیر نے اِسی شرط پر ہندوستان سے الحاق قبول کیا تھا۔ اب جبکہ وزیراعظم ہند ہندوستان کے ساتھ جموں و کشمیر کے الحاق کی تاریخ دوبارہ تحریر کرنا چاہتے ہیں تو اِس کا خیرمقدم کیا جائے گا لیکن اُن کے خیال میں کوئی بھی وزیراعظم اتنا بیوقوف نہیں ہوسکتا کہ تاریخ کو تبدیل کرکے رکھ دے۔ وہ بی بی سی کے پروگرام ’’ہارڈ ٹاک‘‘ (بے باک گفتگو) کے دوران سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔ اُنھوں نے سخت سوالات کے جواب میں بھی اپنے موقف پر اٹل رہنے کا مظاہرہ کیا۔ پروگرام کے مشہور میزبان اسٹیفن سکر نے اپنے سوالات شورش پسندی، مسلح افواج کے کردار اور ریاست کے ہندوستان میں الحاق مرکوز رکھے تھے۔ چیف منسٹر سے سوال کیا گیا تھا کہ مودی نے دفعہ 370 پر مباحثے کی تجویز پیش کی ہے جس کے جواب میں اُنھوں نے مباحثے میں شرکت پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ اُنھوں نے کہاکہ خود مودی نے میری پیشکش پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ جبکہ اُن کا بنیادی مقصد اِس مسئلہ پر اُنھیں بیان دینے پر مجبور کرسکتا ہے۔
کیا وہ اتنے مصروف ہیں کہ دفعہ 370 پر تبادلہ خیال نہیں کرنا چاہتے یا وہ چاہتے ہیں کہ آپ جیسا کوئی شخص اُن کی نمائندگی کرتے ہوئے اِس پر تبادلہ خیال کرے۔ سکر نے تبصرہ کیاکہ مودی کے آئندہ وزیراعظم بننے کے امکان پر عمرعبداللہ غیرمعمولی پریشان نظر آتے ہیں۔ اِس عمرعبداللہ نے فوری جوابی وار کرتے ہوئے کہاکہ بی جے پی قائد جموں و کشمیر کے خصوصی موقف کے بارے میں کسی بھی تبادلہ خیال سے گریز کررہے ہیں یہی اِن کی کمزوری کا واضح ثبوت ہے۔ واضح رہے کہ جموں و کشمیر کے ہندوستان سے الحاق کے وقت طے شدہ معاہدہ کے بموجب ریاست جموں و کشمیر کا گورنر صدرجمہوریہ، وزیراعلیٰ، وزیراعظم کہلاتا تھا۔ ریاست کشمیر کا یہ ایک علیحدہ دستور اور ایک مختلف پرچم تھا جو 1956 ء تک بھی برقرار رہا۔ حالانکہ اب صدر اور وزیراعظم علیحدہ دستور اور پرچم برخاست کردیا گیا ہے لیکن اِس کے باوجود نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ شمال مشرقی ہند کی اکثر سرحدی ریاستوں کو دفعہ 370 کے تحت خصوصی موقف حاصل ہے۔