جمال خشوگی کا بہیمانہ قتل اور اس سے سو سال پیچھے۔بقلم احمد جاوید

واشنگٹن پوسٹ کے ایڈیٹر ہند نژاد امریکی صحافی فرد ذکر کیا کی ایک رپورٹ جو انہوں نے 27جون 2004کو عالمی جریدہ ’نیوز ویک‘ میں لکھا تھا اس کے ابتدائی میں یہ تھا کہ’’ پال جانسن کی سربریدہ لاش کی تصوئیر بڑی بھیانک تھیں ‘ لیکن سعودی عرب میں اس طرح کی تصویروں کا یہ ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہے ۔

یہ سلسلہ 12مئی 2003کو شروع ہوا تھا جب بمو ں سے بھری تین کاریں ریاض کے ایک رہائشی احاطہ میں پھٹیں 35افراد ہلاک اور 200مجروح ہوگئے تھے۔ تب سے اب تک یہاں کم از کم بیس دہشت گردانہ حملے اور سعودی پولیس اور اسلامی جنگجوؤں کے درمیان مدبھیڑ ہوچکے ہیں۔

گذشتہ ماہ خوبر ائیل انڈسٹری کے کارکنان کے ایک رہائشی احاطے میں چا بندوق بردارروں نے حملہ کیا اور 22افراد کی جانیں لے لیں۔ کیایہ شورش سعودی عرب میں خانہ جنگی کا آغاز ہے؟ کیاجہادی تیل کی دولت سے مالا مال اس طاقتور ملک پر قبضہ کرلیں گے؟ او رکیاتیل کی دولت سے اس جدید دنیا کے لئے ہتھیار بن جائے گی؟‘‘۔

ا س رپورٹ میں فرید تفصیل کے ساتھ سعودی عرب کے ماضی ‘ حال اور مستقبل کا جائزہ لیتے ہوئے مملکت سعودی عرب کے اندرونی تضادات کی تفصیلات پیش کی ہیں۔ نیوز ویک کے اس وقت کے ایڈیٹر نے بتایا ہے کہ ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لئے انہوں نے سعودی عرب کا سفر کیا۔ بہت سے سعودی شہریوں ‘دانشواروں‘ سرکاری حکام اور صحافیوں سے ملاقاتیں کی ‘ شاہی خاندان کے کئی افراد سے بھی ملے۔

وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے سعودی عرب میں جس کسی سے بھی سوال کیا آخر سعودی حکومت دہشت گردوں کے خلاف مصر جیسی فیصلہ کن کاروائی کیوں نہیں کرتی ؟ تو ہر شخصص اس خیال بلاتامل نفتی کردیتا تھا۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ ہم مصر جیسی بے رحم پولیس ریاست نہیں ہیں۔ ایک سروے میں یہا ں کے 49فیصد لوگ اسامہ بن لادن کے حامی ہیں۔

اس سلسلے میں سعودی عرب کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے 1929کے واقعات کا ذکر کیاتھا جب شاہ عبدالعزیز نے اخوان کے ساتھ سختی سے بنٹا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے مجدد وحجاز آل سعود آل شیخ کے شانہ بہ شانہ جنگیں لڑیں تھیں ‘ یہ عام لوگ تھے اور انہوں نے رضاکارانہ طور پر آل سعود کا ساتھ دیاتھا۔ فرید زکریا کے اس سفر اور نیوز ویک میں اس کی اشاعت کو اب پندرہ سال ہونے کو ہیں۔ اس سفر میں فرید نے ایک سعودی صحافی کی مدد لی تھی۔

وہ کوئی اور نہیں جمال خشوگی تھے۔ اس مدت میں سعودی عرب میں دہشت گردی اور اس کے خلاف سعودی فورسز کی کاروائیوں میں کتنی جانیں گئیں اور وہ کون لوگ ہیں اس کاتوکوئی شمار نہیں کیونکہ حکومت کے خلاف بے چینیوں اور ابال کو کچلنے کی کھلی سے زیادہ خفیہ کاروائیاں کی جاتی رہیں جس کا کلائمکس استنبول کے سعودی قونصل خانہ میں ایک سعدی نژاد امریکہ باشندے اور واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگا جماں کا قتل ہے۔

اگر اس پراسرار بیہمانہ قتل نے لوگوں کے ذہنوں کو ایک ہزار سال پیچھے کھینچ لیا اور اگر کسی نے اس تحریک کو اس کے لئے ذمہ سمجھا جس کے نتیجے میں سعودی مملکت وجو میں ائی تو اس کے ٹھوس اسباب و عوامل ہیں۔

جب کسی صحافی کو ایک دوسرے ملک کی سرزمین پر قونصل خانہ کے اندر اس طرح کا قتل کیاگیا کہ اس کی لاش کی باقیات کا اتا پتا نہیں ہے توتصور کی آنکھیں دیکھ سکتی ہیں یہ لوگ ریاض اور سعودی عرب کی سرزمین پرعقوبت خانوں میں اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کیاسلوک کرتے ہوں گے او ران پر انگلی اٹھانے والوں یا لب کشائی کرنے والوں کو کیاکیااذیتیں دی جاتی ہوں گی؟

کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ سعودی عرب کی سرزمین پر آج جو کچھ ہورہا ہے وہ اس کے لئے آل شیخ او رآل سعود کے سوا کسی اور کو ذمہ دار نہیں ٹہرایا جاسکتا۔

جمال خشوگی کا قتل جنتا سعودی عرب اور آل شیخ وآل سعود کے تعلق سے کہہ رہا ہے ‘ اس سے زیادہ امریکہ سے تعلق سے تلخ حقائق بیان کررہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس واقعہ کے چند ہی دنوں قبل کہاتھا کہ امریکہ سعودی عب کی حفاظت کرتا ہے تو اس اس کی قیمت تو ادا کرنی ہوگی۔

جمال کے قتل کے بعد ٹرمپ کے متضاد بیانات آتے رہے اور ان ہی میں سے ایک بیان کا خلاصہ یہ تھا کہ امریکی مفادات سعودی عرب سے وابستہ ہیں اور سعودی شاہی حکومت سے تعلقات بگاڑ کر مفادات کی قربانی نہیں دے سکتا۔

اس اندوہناک قتل کے کوئی دوہفتے بعد وزیر خارجہ پومپیو نے اس وقت ریاض کا سفر کیا جب قتل کی اس انتہائی گھناؤنی کاروائی میں ولی عہد محمد بن سلمان کا ملوث ہوناطشت از بام ہورہاتھا اور پھر دونوں ملکوں کے ذرائع نے اس تصوئیر کو نہایت اہتمام کے ساتھ میڈیا میں مشتہر کیاجس میں محمد بن سلمان اور پومپیومسکراتے ہوئے ساتھ بیٹھے پوز دے رہے ہیں۔

اس تصوئیر کا پیغام کیاہے؟ ایک امریکی صحافی میکس بوٹ نے یہاں تک کہہ دیا کہ امریکہ نے کرہ ارض پر ہر ایک ڈسپوٹ کا قتل کالائسنس دے دیاہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ یہ قتل اسی طرح کسی اور ملک کے قونصل خانہ میں ہوا ہوتا تو امریکہ اس کے ساتھ کیاسلو کرتا او رپومپیو اس کے ساتھ اسی طرح تصوئیر دے رہاہوتا؟ ۔

سچ ہے کہ فرید ذکر یا نے قتل سعودی عرب کے متعلق جتنا کچھ کہہ رہے ہیں ‘ اس سے کسی بھی طرح کی کم اہم باتیں امریکہ کے بارے میں نہیں کہہ رہے ہیں؟۔میں نے ان کے کالموں میں پچھلے دنوں لکھاتھا کہ دنیا تو کسی نہ کسی طرے دوعالمی جنگوں کے اثرات سے نکل ائی ‘ مغربی ممالک کی سرحدیں تک نرم ہوگئیں‘ دیوار برلن گرادی گئی لیکن مشرقی وسطی پہلی جنگ کے زمانے سے نہیں نکل سکا ہے۔

یہ پہلی عالمی جنگ تھی جب سرزمین عرب پر برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے ملکوں کے نقشے اور سرحدیں طئے کی تھیں۔ ہوناتو یہ چاہئے تھا کہ قومیں اپنی تقدیدیں خود لکھتیں ‘لیکن آج بھی ان کے مقدر کے فیصلے مغربی طاقتیں کررہی ہیں۔

آپ ہی بتائیں کہ یہ اس تحریک کی کامیابی ہے جس نے امارت آل سعود کو جنم دیاتھا یا اس کردار کی کیوں پڑوسی ملکوں کے ساتھ اس کے تعلقات میں اور بھی کردار ہیں لیکن اندرون ملک خلفشار میں دونوں طرف سے اسی تحریک کے لوگ ہیں