جمالیاتی احساس کا شاعر … ساجد رضوی (پچیسویں سالانہ برسی کے موقع پر خراج)

پروفیسر مجید بیدار
میر رضا علی جیسے خاندانی نام کے بجائے ساجد رضوی کے قلمی نام سے حیدرآباد کی ادبی فضا میں نمائندہ غزل گو شاعر کی حیثیت سے شہرت رکھنے والے فنکار کو شاعری ورثے میں ملی تھی ۔ ان کا شمار علامہ نجم آفندی کے قابل فخر تلامذہ میں ہوتا ہے ۔ وہ حیدرآباد کے پُروقار شاعر تھے ، جنھوں نے جدیدیت کے دور میں حیدرآباد کی سرزمین میں غزل کی عظیم جمالیاتی روایت کو بڑی دیانتداری کے ساتھ برتا اور اس کی روایت کی حفاظت کی ، جو دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ سے ترقی کرتی ہوئی حیدرآباد کے حدود میں داخل ہوئی تھی ۔ غزل کے روایتی حسن اور اس کی فنکاری سے کسی کو انکار نہیں ہے ۔ ساجد رضوی اپنے عہد کے ایسے شاعر گذرے ہیں ،جن کے کلام میں موجود وسعتوں کو فن کی گہرائیوں سے محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ استاد فن حضرت نجم آفندی نے خود ساجد رضوی کے کلام کو حددرجہ پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے ، جو شاگرد کے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں ۔ غزل کے علاوہ سلام ، نوحہ ، قصیدہ اور منقبت جیسی اصناف میں طبع آزمائی فرمائی اور فن کے جوہر آبدار کی صورت میں سات مجموعے جیسے (۱)تجلیات (۲)سجدے (۳)شمع حرم (۴)جلوے (۵)سجدۂ اخلاص (۶)جانِ غزل اور (۷)شمع فروزاں (انتقال کے بعد) 1992 میں منظر عام پر آئے ۔ آج بھی دنیائے ادب میں عمدہ خصائل اور خصوصیات کی وجہ سے انھیں ’’شاعر مودت‘‘ کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ مختلف محفلوں اور موقعوں پر اکابر اور دانشوروں نے ساجد رضوی کی شاعری ، اور سلیقہ اظہار کو مختلف جہات سے نمائندگی دی ہے ۔ انھیں حیدرآباد کے کہنہ مشق ہی نہیں بلکہ قادر الکلام شاعر کی حیثیت سے نمایاں اور انفرادی حیثیت کا حامل قرار دیا گیا ۔

جامعہ عثمانیہ کے ریسرچ اسکالر سید جعفر حسین نے ساجد رضوی کے فن اور شخصیت پر ایم فل کا مقالہ لکھ کر ان کی خدمات کی ستائش کی ۔ ساجد رضوی سادہ اور پُراثر زبان کے ذریعہ گہرے مفاہیم کو جادوگری کے انداز میں پیش کرنے کے حسن سے مالا مال ہیں ۔ شاعری میں حسن و عشق کے موضوعات کو جمالیاتی احساس کے ساتھ شامل کرکے شاعرانہ فن کے ایوان سجانے میں انہیں دسترس حاصل رہی ہے ۔ برجستہ انداز سے لطف زبان میں اضافہ کرنا اور نازک احساسات و کیفیات کے اظہار سے رنج و الم ، حسن و عشق اور تدبر و تفکر کے میلان کو شاعری میں جگہ دینے اور غزل کے بانکپن میں دلفریب اضافہ ہی ان کے مہذب فن کی دلیل ہے ۔ روایتی غزل کی شوخیوں اور تنگ دامانی کو فنکارانہ وسعت کے احساس سے وابستہ کرکے انجانی منزلوں کی سیر کروانا ساجد رضوی کی شاعری کا خاصہ ہے ۔ ان کی شاعری کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پُرگو اور خوش کلام شاعر ہیں اور اپنے کلام میں اقدار کی نمائندگی کرتے ہوئے غزل کے دوران جمالیاتی احساسات کو سہل ممتنع میں پیش کرنے کا وصف رکھتے ہیں ۔تغزل کے تاثر سے تاثیر کے تاروں کو چھیڑنے سے انہیں خصوصی دلچسپی ہے ، جس کی وجہ سے انبساط انگیز موسیقی ان کی شاعری میں زیریں رو کی حیثیت سے نمایاں ہوتی ہے ۔ فکر اور فلسفہ کی گتھیوں کو سلجھاتے ہوئے تغزل کے توسط سے آفاقیت کے دامن کو تھام کرتہذیب و تمدن کی نمائندگی کے ذریعہ ساجد رضوی اپنے ہر شعر کو جاوداں بنادیتے ہیں ۔ اس خصوص میں ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو ۔
خرد دیوانگی کی منزلوں تک آنہیں سکتی
اگر آبھی گئی تو راز ہستی پا نہیں سکتی
غزل میں رومانیت کے ساتھ خردمندی اور دیوانگی کی منزلوں کا تعین درحقیقت دشوار گذار مرحلہ ہے لیکن ساجد رضوی اس دشواری پر قابو پانے اور شاعری کی وسعتوں کو چھولینے میں پوری طرح کامیاب نظر آتے ہیں ۔ وہ نہ صرف غزل مسلسل میں اظہار کی طمانیت کے قائل ہیں بلکہ غزل کے معاملات اور کیفیات کے حسین بیان میں عروضی پابندیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے زبان پر دسترس کا سلیقہ بھی پیش کرتے ہیں ۔ مختصر بحر میں انھوں نے بے شمار غزلیں لکھ کر فن پر عبور ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔ ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں    ؎

وہ روداد غم پر بہت مسکرائے
مگر پھر بھی آنکھوں میں آنسو بھر آئے
نظر میری بہکی قدم لڑکھڑائے
محبت میں کیا کیا مقامات آئے
محبت کا بندہ ، وفا کا پجاری
ترے در سے ہم نے بہت نام پائے
کلی دل گرفتہ ، اداسی گلوں پر
چمن میں مجھے تم بہت یاد آئے
شب غم انھیں کے تصور میں گذری
کبھی آہ کھینچی کبھی مسکرائے
نگاہوں سے ان کی نگاہیں ملا کر
ہم اپنا فسانہ سنانے نہ پائے
اک ایسی مسرت کا لمحہ بھی آیا
نہ تم مسکرائے، نہ ہم مسکرائے
نہیں آستاں کوئی سجدے کے قابل
کہاں تیرا ساجدؔ سر کو جھکائے
حسن کی جلوہ سامانی ، عشق کی سرگرمی اور حالات کی ستم ظریفی کو مسائل زندگی کی سرد و گرم فضا کے ساتھ رواں بحروں میں پیش کرنا اور پاکیزہ احساس کے ساتھ ترسیل کا حق ادا کرنا ساجد رضوی کی شاعری کا شیوہ ہے ۔ اسی لئے ان کی غزل مرقع کاری کے حسین وجود کا نمونہ بن جاتی ہے ۔ ان کی شاعری کے دوران تسلسل اور روانی کے علاوہ جمالیات کی زیریں رو تیزی کے ساتھ ان کے احساسات کے دروازے پر دستک دیتی ہے ۔ اشعار میں برجستہ انداز کے ساتھ شاعری کو افکار کا مزاج داں بنانے میں ساجد رضوی کو کمال حاصل ہے ۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ظاہر و باطن کی موثر نمائندگی کا حق ادا کیا ہے ۔ ان کی شاعری کا قیمتی اثاثہ زندگی کا غم حیات اور شدت احساس کے تیز رو دھارے ہیں ۔ رواں بحروں کے ذریعہ پیچیدہ قوافی میں خیال کی نگینہ کاری کو فنی چابکدستی سے نمایاں کرنا ساجد رضوی کی شاعری کا وصف ہے ۔ان کا شعری انداز ملاحظہ کرنے کے لئے ایک غزل کے چند اشعار پیش ہیں :

شادمانی کا تلاطم ہے دل ناشاد میں
کھیلتی ہے زندگی مجموعۂ اضداد میں
خونِ دل سے جس چمن کی آبیاری میں نے کی
آج وہ سارا چمن ہے قبضۂ صیاد میں
جانے والے ہیں سبھی اتنی تو نسبت ہو مجھے
جان جاتی ہے اگر جائے تمہاری یاد میں
داغ دل کی تابشوں سے ،درد دل کے فیض سے
روشنی ہی روشنی ہے عالم ایجاد میں
یوں دعاؤں میں اثر پیدا نہیں ہوتا کبھی
درد پیدا ہو نہ جب تک نالہ و فریاد میں
سب ہی ساجدؔ رفتہ رفتہ آستانے بن گئے
میرے سجدے منتشر تھے عالمِ ایجاد میں
دہلی اور لکھنؤ کے اہل فن کی نمائندہ خصوصیات کے علاوہ قلی قطب شاہ اور ولی و سراج اورنگ آبادی کے بعد اہل دہلی کی ٹکسالی زبان اور اہل لکھنؤ کی رعنائیوں اور دلفریبیوں کو غزل میں شامل کرنے کا انداز ساجد رضوی کے لہجے کی شناخت بنتا ہے ۔ ان کی شاعری میں وسعت خیال کے علاوہ وسعت فکر کی بوقلمونی بھی جلوہ گر ہے ۔ فکری احساس کو عوامی احساس کا درجہ دینا انہیں خوب آتا ہے ، اس کیفیت کی نمائندگی کے لئے ساجد رضوی کے اس شعر سے لطف اٹھایئے :
تیری جستجو میں ہم ، گھر سے جب نکلتے ہیں
منزلیں بھی چلتی ہیں ، راستے بھی چلتے ہیں
جمالیاتی احساس کی نمائندگی کرنے والال یہ شاعر روحانیات اور تصوف کے مسائل کو بھی غزل میں پیش کرنے پر قدرت رکھتا ہے جس کی مثال ملاحظہ ہو ۔
مجھ کو نشاط عیش دو عالم نہیں قبول
دو دن کی زندگی ہے غم معتبر ملے
ان کی شاعری میں حسن و عشق کے نمائندہ اور فکر کی جولانی کو نمایاں کرنے والے اشعار بھی جلوہ گر ہیں ۔ اردو کے بے شمار شاعروں نے سجدہ اور اس کی اہمیت کو شاعری میں پیش کیا ہے ، لیکن ساجد رضوی نے تخلص کی معنویت سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے غزل کے مقطعوں میں مفہوم بندگی کے مختلف انداز کو پیش کیا ہے ، اس سلسلے میں انھوں نے ایسا بھی کہا ہے    ؎

یہ سوچتا ہوں میں ساجدؔ کہ انکی چوکھٹ پر
بجائے سر کے جو دل رکھ دیا تو کیا ہوگا
زمانے کی ستم ظریفی کے کرب و اضطراب کے دوران مضبوط قوت ارادی کے اظہار کا سلیقہ ملاحظہ فرمایئے
کچھ دل ہی ہمارا واقف ہے جو ہم پہ مصیبت پڑتی ہے
ماحولِ مخالف میں رہ کر حق اپنا جتانا کھیل نہیں
موجودہ حالات میں ہندوستان جیسی جمہوریت میں ساجد رضوی کا یہ شعر پڑھا جائے گا تو سیاسی پیچ و خم کے سمجھنے میں شاید آسانی ہوگی ۔
کچھ بھید کھل سکا نہ گلستاں کا آج تک
نظریں بدل گئیں کہ نظارے بدل گئے
غرض ساجد رضوی نے غزل کی زبان کے ذریعہ احساس کی گرمی اور خیال کی نازکی کے ساتھ ، اظہار کی شگفتگی کے علاوہ حسن و عشق کی فریفتگی کو اظہار کا وسیلہ بنایا اور واردات قلبی کے ذریعہ مسائل اور وسائل کی نمائندگی کے علاوہ زمانے کی بے رحمی کو کئی خوبصورت پہلوؤں میں اجاگر کرکے اردو ادب کی عصری شاعری میں قابل قدر اضافہ کیا ہے ۔اس منفرد غزل اور بارگاہ رسالت کے علاوہ حیدر کرارؓ اور حسنین کریمینؓ کی مودت کا حق ادا کرنے والے اس شاعر نے 11 مارچ 1991 کو اپنی یادیں چھوڑ کر اس جہاں سے ہمیشہ کے لئے کنارہ کشی اختیار کرلی ۔