پروفیسر میر تراب علی اللہی
اردو غزل کی قلی قطب شاہ سے رئیس اختر تک ایک تاریخ ہے، لمحوں کی خوابیدگی کی، بیداری کی، برق رفتاری کی، ساری اردو دنیا میں صرف شہر حیدرآباد کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہاں کے شعراء نے اردو شاعری کی تاریخ کے ہر دور میں اپنے خون جگر سے اس صنف کی آبیاری کی بلکہ اس کو سمت و رفتار، وزن و وقار اور رنگ و آہنگ بھی عطا کیا ہے ۔
رئیس اختر کا شمار نہ صرف اردو کے نامور شعراء میں ہوتا ہے، بلکہ اردو کے ایک مجاہد کی حیثیت سے ان کا نام عزت و ا حترام سے لیا جاتا ہے ۔ میرے چاچا میر ہاشم (پربھنی ) کے قریبی دوستوں میں ان کا شمار ہوتا تھا ۔ رئیس اختر اور دیگر ممتاز شعراء نے گزشتہ چالیس برسوں سے پربھنی اور ریاست مہاراشٹرا کے دیگر علاقوں میں مشاعروں کے وسیلے سے اردو کا جو ماحول تیار کیا تھا، یہ اسی کا ثمر ہے کہ ریاست مہاراشٹرا اردو ذریعہ تعلیم کے باب میں اردو دنیا میں کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے سرفہرست ہے۔ بقول ممتاز نقاد اور دانشور ڈاکٹر شکیل الرحمن ’’جمالیات فنونِ لطیفہ کی روح ہے ۔ جمالیاتی فکر و نظر، شخصیت کے جمالیاتی پہلو ، جمالیاتی شعور ، موضوع اور جمالیاتی طرزِ ادا کے بغیر فن کا تصور ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ بڑے تخلیقی فنکاروں کا اپنا نظام جمال ہوتا ہے جو اپنی روایات اور عہد کے جمالیاتی نظام سے تخلیقی رشتہ رکھتا ہے‘‘۔
رئیس اختر کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ شاعری کا تعلق فنون لطیفہ سے ہے، انہیں اس بات سے بھی اتفاق تھا کہ جمالیاتی حسن بیچ کر ہم زندہ رہیں بھی تو کیسے؟ اور کب تک ؟ یہ زندگی تمام کھردری سچائیوں ، گونا گوں مسائل اور کانٹا کانٹا مراحل کے باوجود بڑی حسین ہے ۔ ان کی شاعری رومانی غنائی اور غنائی رومانی شاعری ہے ۔ اظہار کی لطافت ، غنائیت سے بھرپور لفظیات ، مشاہدہ کی وسعت ، خیال کی رنگا رنگی ، معنی آفرینی کی جستجو اور خداداد صلاحیتوں ان سب کے امتزاج سے ان کی شاعری نگار خانہ چین بن گئی ہے۔
بقول ڈاکٹر علی احمد جلیلی ’’رئیس اختر نے غزل کو اس کی تمام رعنائیوں کے ساتھ برتا ہے اور اپنے لہجہ کی گھلاوٹ اور اسلوب کی لطافت سے ہم آہنگ کیا ہے ۔ رئیس اختر خوش قسمتی سے ترنم کا اضافی وصف بھی رکھتے تھے۔ داخلی اور خارجی ترنم مل کر مینائے غزل کو دو آتشہ کرتے ہیں ‘‘۔
رئیس اختر کے مزاج کی پہچان ہے وارفتگی اور وارفتگی پیدا ہوتی ہے عرفان غم سے۔ بقول استاد محترم ڈاکٹر مغنی تبسم ’’ان کے اشعار پڑھتے ہوئے جو چیز خاص طور پر ہمیں متوجہ کرتی ہے وہ جذبے کی موسیقیت ہے جو محض لفظوں کی در و بست سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس نغمگی کے پیچھے ایک دل گداختہ کی دھڑ کن بھی شامل ہے‘‘۔رئیس اختر کے یہ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے، دیکھئے کہ کتنی گھلی ہوئی آواز اور کتنا دلنواز لہجہ ہے۔
ہر خوشی جیسے کھوئی ہوئی مل گئی
آپ کیا مل گئے زندگی مل گئی
نکہت گل بھی چھپانے سے کہیں چھپتی ہے
چھن کے آتی ہے لباسوں سے بدن کی خوشبو
چلتے چلتے جہاں آپ رک سے گئے
وقت کو بھی وہیں ٹھہر جانا پڑا
اردو کے مشہور جدید لب و لہجہ کے شاعر فراق گورکھپوری نے اپنی شاعری کے حوالے سے کہا ہے کہ ’’میں موضوعات پر چھانا نہیں چاہتا، موضوعات کو ا پنے اوپر چھا جانے دیتا ہوں، موضوعات مجھ پر چھا کر خود بولنے لگتے ہیں، تب میرے نزدیک شعر ہوتا ہے‘‘، فرماتے ہیں:
مجھ سے مت پوچھ میری کیفیتِ قلب و دماغ
میں نے دیکھی ہے خیالوں کی بھی پرنم آنکھیں
فراق گورکھپوری نے جس شدید داخلیت کی بات کی ہے، وہ جدید شاعروں سے ہی وابستہ نہیں ہے، بلکہ رئیس اختر اور حیدرآباد کے کئی ممتاز شاعروں کے پاس یہ رویہ ملتا ہے۔رئیس اختر صرف محسوسات کے ہی شاعر نہیں تھے، ان کے یہاں غور و فکر کا خاصہ سامان ملتا ہے ۔ اس میں حقیقتوں کی تلاش و جستجو کا ہی درس نہیں ملتا بلکہ آرائش خم و کاکل کے ساتھ اندیشہ ہائے دور دراز بھی ہے۔
رئیس اختر الفاظ برتنے میں کافی محتاط ہیں، انہیں اس بات کا بھی ادراک ہے کہ شاعری خیالات سے نہیں الفاظ سے کی جاتی ہے۔ بعض وقت شوکتِ الفاظ کے ہجوم میں ان کی شاعری کے فکری عناصر گوشۂ عافیت میں پناہ لے لیتے ہیں، لیکن رئیس اختر نے غزل کی تہذیبی نغمگی ، شائستگی اور تہہ دار معنویت کے پہلو بہ پہلو غزل کے مواد کے ساتھ بھی انصاف کیا ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔
جو ترے نقشِ پا سے جدا رہ گیا
وہ مسافر بھٹکتا ہوا رہ گیا
کیا ہوا گھر ہمارا اگر جل گیا
کچھ مکانوں کو تو روشنی مل گئی
وہ قوم تباہی کے دہانے پہ کھڑی ہے
جس قوم کی تقدیر میں سردار بہت ہیں
غم دوراں کے شدید احساس نے رئیس اختر کے یہاں عمرانی معاملات کا شعور بھی پیدا کیا ہے ۔ ان کی شاعری میں ایک تہذیب ، ایک معاشرت اور ایک نظام کے سرود رفتہ کی آواز صاف سنائی دیتی ہے ۔ اس تہذیب اور معاشرت کے ختم ہونے کا انہیں شدید احساس اس لئے وہ اس پر خون کے آنسو بہاتے ہیں۔ اس بارے میں انہوں نے جو کچھ کہنے کی کوشش کی ہے وہ اگرچہ بہت واضح نہیں ہے لیکن دیکھنے والے دیکھ سکتے ہیں کہ یہ اشعار اس تہذیب و معا شرت کا ہی مرثیہ ہیں۔
بک رہی ہیں سیاسی وفاداریاں
میری تہذیب کا اب یہ معیار ہے
حق بات کا اظہار یہاں جرم ہے لوگو
اس شہر میں باطل کے پرستار بہت ہیں
بھٹک رہے ہیں، ابھی ظلمتوں کے دور میں ہم
دل و نظر کے اجالے نہ آگہی کے چراغ
رئیس اختر کی غزلوں میں ایک رکی تھمی سی کیفیت ملتی ہے جو ایک طویل داستانِ غم کا عنوان ہے ۔ ان کا غم خاموش اور گہرا ہے اس کی گرفت بھی ڈھیلی ڈھالی نہیں۔ اس کے پنجے رگ جان سے الجھے ہوئے ہیں جس سے چھوٹنا محال ہے پھر قدرت نے آپ کو اپنے ما فی الضمیر کے اظہار کا ایسا خوبصورت اور غنائی سلیقہ عطا کیا ہے جو روایاتِ شعر و ادب کا نچوڑ ہے۔ ان سب صلاحیتوں نے مل کر ان کے بیان غم کو ایسی تاثیر اور دلکشی بخشی ہے، جس کی مثال مشکل سے ملتی ہے ۔ ان کا اندازِ غم ملاحظہ فرمائیے۔
غم کی دولت ہر اک کا مقدر نہیں
غم کی دولت جسے مل گئی مل گئی
کس قدر ضبطِ غم سے گرانبار تھا
ایک آنسو جو پلکوں سے ٹپکا نہ تھا
غم چھپانے سے بھی کب چھپا رہ گیا
ہر تبسم میں آنسو ملا رہ گیا
رئیس اختر توسیع روایت کے شاعر ہیں، انحراف روایت کے نہیں۔ ان کی شاعری کی جڑیں اردو شاعری کی زر خیز روایت کی زمین میں دور تک چلی گئی ہیں۔ اس لئے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ رئیس اختر نے روایت سے روشنی اور تجربے سے تازگی حاصل کی ہے ۔ شاعری بھی دراصل وہی شاعری ہے جو اپنے وجود سے ہمیں ز ندگی کی نزدیک تر چیزوں کا احساس دلاتی ہے ، رئیس اختر کی شاعری احساسِ حیات کی احساس افزاء شاعری ہے ۔ ان پر ان ہی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
ہمیں دیکھو کہ ہم تہذیب ہیں کل کی جہاں والو
سنو ہم کو کہ ہم شائستگی کی بات کرتے ہیں