محبوب خان اصغر
مشاعرے ہماری تہذیبی اور ثقافتی زندگی کا حصہ ہیں۔ شعرائے کرام اپنے عہد کے مسائل ، مشاہدوں اور تجربوں کے علاوہ اپنے جذبات و احساسات کو اپنے ڈھنگ اور اپنے انداز سے شعری پیرائے میں ڈھال کر سامعین کے روبرو پیش کرکے داد و تحسین بٹورتے ہیں ۔ چنانچہ 12 ڈسمبر کی شب اردو رائٹرز فورم کے زیر اہتمام منعقدہ جشن تلنگانہ میںتشنگانِ شعر و ادب کا ایک جم غفیر للت کلاتھورانم حیدرآباد کے وسیع و عریض میدان میں اتر آیا تھا جہاں ایوارڈ فنکشن کے ساتھ عظیم الشان ہند مشاعرہ منعقد ہوا تھا ۔ محترم محمود علی نائب وزیراعلی ریاست تلنگانہ نے اپنے دست مبارک سے تقریب کا افتتاح کیا، جبکہ ان تقاریب کی صدارت جناب محمد مرتضی علی فاروقی ڈپٹی کمشنر آبکاری ریاست تلنگانہ نے فرمائی ۔شری کے کیشوراؤ رکن پارلیمنٹ ، جناب سید احمد پاشا قادری رکن اسمبلی ، جناب سید شاہ نور الحق قادری سابق صدر نشین اردو اکیڈیمی آندھرا پردیش ، جناب رحیم اللہ خاں نیازی ٹی آر ایس قائد و سابق صدر نشین اردواکیڈیمی آندھرا پردیش ، جناب سید قمر الدین موظف انجینئر ٹرائیبل ویلفیر ، جناب ایم اے حمید صدر نشین پستہ ہاوز ، ڈاکٹر محمد نیاز احمد خان منیجنگ ڈائرکٹر ساپ میڈیکلس پرائیوٹ لمیٹڈ اس دلکش و دلنشین تقریب کے مہمانان خصوصی تھے ۔ پروفیسر ایس اے شکور ناظم و معتمد اردو اکیڈیمی تلنگانہ بھی شہ نشین پر جلوہ افروز تھے ۔
جشن تلنگانہ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معزز مہمان محمد محمود علی نے کہا کہ اردو قومی زبان ہے اور اس کو مستحقہ مقام دلانے کے لئے ریاستی حکومت پابندعہد ہے ۔ ریاستی وزیراعلی جناب چندر شیکھر راؤ کی اردو زبان سے رغبت اور محبت کے حوالے سے نائب ریاستی وزیر نے کہاکہ انہیں نصف صدی سے بھی زائد عرصہ سے اردو کے ساتھ روا امتیازی سلوک کا شدید احساس ہے اور اب تلنگانہ حکومت کی ذمہ داری ہوگئی ہے کہ اردو کو دوسری سرکاری زبان کادرجہ دلائے ۔ انہوںنے جشن تلنگانہ میں سہ لسانی ادباء و شعراء کو ایوارڈز دئے جانے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے گنگا جمنی تہذیب کی ایک عمدہ مثال قرار دیا ۔ اس خوشگوار موقع پر پروفیسر ایس اے شکور نے حیدرآباد دکن کے عصری لب و لہجہ کے منفرد شاعر ڈاکٹر محسن جلگانوی کی شعری تصنیف’’ جنس دورون جاں‘‘ کی رسم رونمائی انجام دی اور اردو اکیڈیمی کی جانب سے 100 کتابیں خریدنے کی نوید جانفزا بھی سنائی ۔ اس موقع پر حیدرآباد کے علاوہ اضلاع کے اردو ، ہندی اور تلگو زبانوں کے شعراء ادیب فنکار اور علمی شعبوں سے وابستہ شخصیتوں کو بدست محمد محمود علی ایوارڈ پیش کئے گئے ۔
جناب اسلم فرشوری کنوینر اور جنرل سکریٹری جشن تلنگانہ کمیٹی نے ابتداء میں شرکاء اور تمام معززین کا خیرمقدم کیا ۔ جشن تلنگانہ کے حصہ اول یعنی ادبی اجلاس کی کارروائی محبوب خان اصغر آرگنائزر سکریٹری اردو رائٹرز فورم نے چلائی ۔ جبکہ کل ہند مشاعرے کے ناظم اسلم فرشوری تھے ۔ انہوں نے دلچسپ پیرائے میں شہ نشین پر موجود معزز مہمانوں اور شعراء کرام کا تعارف پیش کیا اور سب سے پہلے ڈاکٹر زاہد الحق (بہار) کو کلام پیش کرنے کی دعوت دی ۔ انہوں نے اپنے تحت میں سخن کے موتی لٹائے :
مقدس پیاس کی ایسی رکھی ہے لاج قدرت نے
کہ اس دھرتی سے دیکھو آج تک زم زم نکلتا ہے
آغاز ہی میں مشاعرے کے اصل شاعر نے جادو جگادیا ۔ شکیل حیدر کی فکر کا جمیل کا چہرہ بھی دیکھئے :
نہ جانے کس نظر سے اس نے دیکھا کہ ٹکڑے ٹکڑے یہ دل ہوگیا ہے
وہ بچہ بھی نہیں کرتا کفالت ، کفالت کے جو قابل ہوگیا ہے
شکیل حیدر نے آج کے سنگین مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور داد پائی ۔ ناظم مشاعرہ نے صفیان قاضی کھنڈوہ کو دعوت سخن دی ۔
دکھاتے ہیں غریبوں پر بڑا احسان کرتے ہیں
خبر اخبار میں چھپتی ہے جب وہ دان کرتے ہیں
دوسری غزل کا شعر بھی ملاحظہ کیجئے :
ہم نے خدا کے ڈر سے نہ چھوڑی حرام چیز
کہنے سے ڈاکٹر کے کیا ہے حلال بند
اس مہمان شاعر کو داد و تحسین سے نوازا گیا ۔ ورنگل کے وحید گلشن نے ترنم میں غزل چھیڑی:
میرے تغزل میرے تفکر میرے تخیل میں روشنی ہے
ابھی ابھی میں نے تم کو دیکھا ابھی ابھی ایک غزل ہوئی ہے
ان کے بعد حامد بھساولی کا پرتپاک خیر مقدم کیا گیا ۔ تحت اور ترنم کے وسیلے سے اس شاعر نے سامعین کے اشتیاق کو بڑھاوا دیااور کامیاب شاعر ٹھہرے:
دقتیں کچھ نہیں ہیں ملنے میں
بس انا درمیان ہے پیارے
عقل کہتی تھی مرگیا ٹیپو
خوف کہتا تھا جان ہے پیارے
اور اب خوش الحان شاعر صابر کاغذنگری کی سخنوری کا کمال دیکھئے:
کوئی جاہ دے نہ جلال دے ، مجھے صرف اتنا کمال دے
میں ہر ایک دل کی صدا بنوں ، کہ زمانہ میری مثال دے
میں بلندیوں پہ رہوں مگر ، رہے پستیوں کی مجھے خبر
وہ عروج کر مجھے تو عطا ، جو کبھی نہ مجھکو زوال دے
اسٹیج پر موجود اہل نظر اور سامعین نے صابر کاغذنگری کی خوب پذیرائی کی ۔ مشاعرہ عروج پر تھا ۔ اس ماحول میں ناظم مشاعرہ نے مہمان شاعر عزم شاکری کو مدعو کرلیا :
اندھیروں میں سفر کرتی ہے دنیا
اجالے درگزر کرتی ہے دنیا
جو دنیا کو زیادہ چاہتا ہے
اسی کو دربدر کرتی ہے دنیا
شاعری کے وسیلے سے سیاسی مسائل کا اظہار کرنے پر عزم شاکری کو خوب داد ملی
مشاعرے کی خاتون شاعرہ شیاما سنگھ صبا نے کلاسیکی غزل کو سوزو گداز کے ساتھ پیش کیا :
بہت یاد آتے ہیں ماضی کے جھونکے
وہی میری آنکھوں کو نم کررہے ہیں
ضرور اس میں ہے مصلحت کوئی ورنہ
وہ کیوں مجھ پہ اتنا کرم کررہے ہیں
ان کے بعد اشفاق اصفی نظام آباد کی کامیاب نمائندگی کررہے ہیں :
فیصلوں میں نہ دکھاؤ کبھی جانبداری
فیصلے صدیوں کا عنوان بنے رہتے ہیں
برکتیں جس کو اترنے کا یقیں ہوجائے
روز رو رو کے وہ مہمان طلب کرتا ہے
اشفاق اصفی نے اپنی تخلیقی توانائی کا ثبوت دیا اور پسند کئے گئے ۔ اب صابر مصطفی آبادی ایک مخضوص آواز و لہجہ میں جشن تلنگانہ کے پلیٹ فارم سے یوں گویا ہوئے :
فقیر ہاتھ اٹھاتے ہی آسماں کی طرف
زمیں سے اپنا مقدر نکال لیتا ہے
وہ تشنہ لب ابھی زندہ ہے اپنے ذہنوں میں
جو ایڑیوں سے سمندر نکال لیتا ہے
صابر مصطفی آبادی نے قطعات و غزلیں سنا کر سرزمین دکن پر اپنی ایک معتبر شناخت بنائی اور بیحد پسند کئے گئے۔ ناظم مشاعرہ نے گووندا اکشے کو ایسے وقت مدعو کیا جبکہ مشاعرہ اٹھان پر تھا :
نیتا ہمارے لوٹ مچانے میں رہ گئے
پھر بھی ہم ان کو سر پہ بٹھانے میں رہ گئے
ناظم مشاعرہ نے نعیم اختر (برہان پور) کو آواز دی :
اچھا یہ تم نے کھیل کیا کھیل کھیل میں
ماچس کی تیلی پھینک دی مٹی کے تیل میں
پابندیاں وہی ہیں رہائی کے بعد بھی
ہم جیل سے نکل کے بھی جیسے ہوں جیل میں
سامعین کی خواہش کے احترام میں نعیم اخترنے خوبصورت ترنم میں غزل پیش کی اور ہر شعر پر سامعین سے داد حاصل کی :
اندھیارا یہ دیکھ کے جل بھن جاتا ہے
ہم جگنو ہیں ہم کو چمکنا آتا ہے
تم بھی کس کی راہ میں پتھر رکھتے ہو
جس کو ہر ٹھوکر پہ سنبھلنا آتا ہے
اس موقع پر عصری زندگی سے باخبر جدید لب و لہجہ کے شاعر سردار سلیم مائک پر آئے:
کب کہا میں نے کہ بس پیار ہی کرتے جاؤ
تم اگر چاہو تو جھگڑا بھی میرے ساتھ کرو
سارے موسم ہیں تمہارے تمہیں کس بات کا غم
بھیگی آنکھوں سے ہنسو دھوپ میں برسات کرو
ایک اور میزبان شاعر ڈاکٹر فاروق شکیل دکن کی کامیاب نمائندگی کررہے ہیں ۔ قطعات کے بعد ترنم میں غزل کہی :
جسم سے اپنے نکل آؤں میں کس کی خاطر
کوئی ملتا ہی نہیں جسم کے باہر اپنا
میرے ہونٹوں کے تبسم پہ یقیں مت کیجئے
درد بیٹھا ہے کوئی بھیس بدل کر اپنا
مہمان شاعرہ شبینہ ادیب کو دعوت کلام دی گئی ۔ انہوں نے ’’ہاں میں نے گجرات کا منظر دیکھا ہے‘‘ سنایا قطعات کہے اور غزل بھی:
سرکار ہے تمہاری سرکار بھی تم ہو
آسان بھی تم ہو دشوار بھی تم ہو
اعلان کررہے ہو آتنک ختم ہوگا
آتنک وادیوں کے سردار بھی تم ہو
اور اب ناظم مشاعرہ اسلم فرشوری اپنی شخصیت کی جولانیوں کا اظہار کررہے ہیں:
تمہارے جور و ستم کا حساب لکھنا ہے
سوال جو بھی اٹھیں گے جواب لکھنا ہے
یہ دور اچھا ہے حالات بھی ، قیادت بھی
یہ جھوٹ لکھنا ہے اور بے حساب لکھنا ہے
محبوب نگر سے تشریف لائے شاعر قطب سرشار سامعین کے تحمل کاامتحان لے رہے ہیں : ان کا یہ مصرع پسند کیا گیا۔
چلو بھر سانسوں کے مالک دریاؤں کے پیاسے لوگ
دکن کے ممتاز شاعر ڈاکٹر محسن جلگانوی سامعین کے روبرو ہیں:
ضمیر بیچ کے سانسیں خریدنے کا ہنر
تمام عمر نگاہیں جھکائے رکھتا ہے
کسی کا کوئی نہیں شہرِ بے تعلق میں
مگر ہر ایک تعلق بنائے رکھتا ہے
محسن جلگانوی کے بعدمہمان شاعر جوہر کانپوری تشریف لائے متعدد قطعات اور غزلیں کہیں:
دل دھڑکنے کی صدا آتی ہے
آپ نے دل سے پکارا ہے کیا
خامشی چھائی ہے دونوں جانب
کسی طوفاں کا اشارہ ہے کیا
ناظم مشاعرہ اسلم فرشوری نے نہایت خوش اسلوبی سے مشاعرہ کی کارروائی چلائی اور رات دو بجے شکریے پر مشاعرے کے اختتام کا اعلان کیا گیا