جس عہد میں لُٹ جائے غریبوں کی کمائی

نوٹ بندی …عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز
مودی خاموش… دولتمند خوشحال … عوام کنگال

رشیدالدین
نریندر مودی حکومت کی مالیاتی ایمرجنسی کو تین ہفتے مکمل ہوگئے اور عوام ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ملک کی تاریخ میں ایسا حکمراں آج تک نہیں دیکھا ہوگا جو عوام کی تکالیف اور مصیبت پر خوش ہو۔ 500 اور 1000 کے کرنسی نوٹ کی تنسیخ کا فیصلہ عوام پر بجلی کی طرح گرا۔ بظاہر کالا دھن کو بے نقاب کرنے کے نام پر یہ فیصلہ کیا گیا لیکن کالا دھن والے تو محفوظ ہیں جبکہ غریب اور متوسط طبقات خون پسینہ کی کمائی کو محسوس تو کرسکتے ہیں لیکن حاصل نہیں کرسکتے۔ کالے دھن کے نام پر کیا گیا یہ فیصلہ جمہوری اقدار کے چہرہ کو کالا کرنے کا سبب بنا۔ نریندر مودی انتخابی مہم اور پھر آج بھی اپنے سابق میں چائے والا ہونے کا اظہار فخریہ طور پر کرتے ہیں۔ ایک چائے بیچنے والے کو دور کی سوجھی اور کالا دھن رکھنے والوں کا انہیں بآسانی علم ہوگیا۔ شاید چائے فروخت کرتے وقت ان کا سامنا زیادہ تر کالا دھن رکھنے والوں سے ہوا ہوگا۔ ملک کے ماہرین معاشیات کو نریندر مودی میں چھپے ہوئے اکانمسٹ کی تلاش ہے لیکن انہیں اس وقت مایوسی ہوئی جب مودی کی نظر میں ملک کے 90 فیصد عام آدمی کالا دھن رکھنے والے پائے گئے۔ ہزاروں کروڑ روپئے لوٹ کر بیرون ملک عیش کرنے والے وجئے مالیا اور للت مودی کو وطن واپس لانے کی ہمت نہیں۔ امبانی ، اڈانی اور رام دیو حکومت کی سرپرستی میں کالا دھن کو سفید کرنے میں مصروف ہیں لیکن حکومت کو اس کی پرواہ نہیں، وہ تو غریب اور متوسط طبقات کو کنگال کرنے پر کمربستہ دکھائی دے رہی ہے۔

دستور اور قانون میں یہ کہاں لکھا ہے کہ لوگ بینک کھاتے میں رقم جمع تو کرسکتے ہیں لیکن نکالنے کا اختیار نہیں۔ سوچھ بھارت کے نام پر صفائی کی مہم کا یہ نتیجہ نکلے گا، اس کا اندازہ کسی کو نہیں تھا۔ عوام یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ مہم دراصل گندگی صاف کرنے سے متعلق ہے لیکن مودی حکومت نے عوام کی جیب کی صفائی کردی۔ صورتحال اس قدر سنگین ہوچکی ہے کہ غریب ، محنت کش طبقات نان شبینہ کو ترس رہے ہیں۔ کیا یہی اچھے دن کا وعدہ تھا کہ عوام کو  گھروں اور دفاتر سے نکال کر سڑکوں پر قطاروں میں کھڑا کردیا جائے ۔ الغرض عوام کے مسائل اور مشکلات میں روز افزوں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ مودی نے عوام سے 50 دن کا وقت مانگا تھا لیکن آدھی مدت گزر گئی ، عوام کو راحت تو دور کی بات ہے ، روزانہ مسائل میں اضافہ ہورہا ہے ۔ صورتحال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ اب تو حکومت کے عہدیدار بھی کہنے لگے ہیں کہ صورتحال بہتر بنانے میں چند ماہ درکار ہوں گے۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور پتہ نہیں کس دن چھلک جائے۔ عوام کو امید تھی کہ جلد راحت ملے گی ، لہذا انہوں نے ابتدائی ایام کی مشکلات پر صبر کیا لیکن حکومت کے روزانہ نئے اعلانات ، نئی نئی پابندیاں اور تحدیدات نے راحت کے بجائے مصیبت میں اضافہ کا سامان کیا ہے۔ نومبر کی تنخواہ کی ادائیگی کا مرحلہ آتے ہی حکومت کے وعدوں کا پول کھل گیا اور سرکاری ملازمین تنخواہ کے حصول سے محروم رہے۔ معاشی بحران اور بد انتظامی کا یہ عالم ہے کہ تنخواہ بھی اقساط میں ادا کی جارہی ہے۔ عوام میں بڑھتی بے چینی نہ جانے کب احتجاج کی شکل اختیار کرلے۔ اس وقت کوئی بھی پیڈ میڈیا نریندر مودی حکومت کو عوامی ناراضگی سے بچ نہیں پائے گا۔ امن و ضبط کے نقطہ نظر سے معاملہ نازک ہوسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے نوٹ بندی کے مسئلہ پر پہلے ہی حکومت کو باخبر کیا تھا کہ صورتحال دنگے فساد کا رخ اختیار کرسکتی ہے۔ نریندر مودی اب کیاش لیس اکانمی یعنی رقم کے بغیر معیشت کے نظام کو متعارف کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔

اسے پلاسٹک کرنسی بھی کہا جارہا ہے۔ یہ خواب بھلے ہی پورا ہو یا نہ ہو مودی سماج کو کیاش لیس کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ کوئی بھی گھر ایسا نہیں جس پر کرنسی بحران کا اثر نہ ہوا ہو۔ اس طرح مودی کے کسی بھی اعلان کے خطرناک نتائج کا عوام کو پہلے ہی اندازہ کرلینا چاہئے ۔ رقم کے بغیر معیشت کا نعرہ لگاکر عوام کو رقم سے محروم کردیا گیا۔ نریندر مودی اور ان کے حواریوں کا یہ دعویٰ ہے کہ کرنسی تنسیخ کا فیصلہ ملک کے مفاد میں ہے اور عوام اس فیصلہ کے ساتھ ہیں ۔ اگر یہ بات سچ ہے تو پھر پارلیمنٹ میں ووٹنگ پر مبنی مباحث سے انکار کیوں ؟ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی کارروائی پہلے ہی دن سے ٹھپ ہے لیکن حکومت ووٹنگ کے ساتھ مباحث کیلئے تیار نہیں ۔ یہ خود حکومت کے خوف کو ظاہر کرتا ہے۔ لوک سبھا میں 300 سے زائد ارکان کے ساتھ این ڈی اے کو اکثریت حاصل ہے، پھر ووٹنگ سے خوف کیوں ؟ دراصل نوٹ بندی کے فیصلہ سے پارٹی میں ناراضگی ہے اور کئی سینئر قائدین اس فیصلہ کی مخالفت کر رہے ہیں ، لہذا ووٹنگ کی صورت میں داخلی اختلاف اور ناراضگی کے بے نقاب ہونے کا اندیشہ ہے اور اگر اس فیصلہ کو ووٹنگ میں شکست ہوتی ہے تو وزیراعظم کو استعفیٰ دینا پڑے گا۔ بی جے پی ارکان پارلیمنٹ اگرچہ فیصلہ سے خوش نہیں ہیں لیکن ایک طرف مودی کا خوف تو دوسری طرف عوامی ناراضگی کے اندیشہ سے وہ سہمے ہوئے ہیں۔ پارٹی نے ارکان پارلیمنٹ کو مشورہ دیا کہ وہ عوام کے درمیان جاکر اس فیصلہ کے فائدوں سے آگاہ کریں اور کالا دھن کے خلاف شعور بیدار کریں لیکن ارکان پارلیمنٹ جانتے ہیں کہ عوام کے درمیان جانے پر کیا حشر ہوگا۔ آج تک ارکان پارلیمنٹ کے کسی گروپ نے میڈیا کے روبرو آکر نوٹ بندی کے فیصلہ کی تائید نہیں کی۔ بی جے پی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں نوٹ بندی اور مودی کے حق میں ابھی تک قرارداد منظور نہیں کی گئی ۔ اگر مودی اپنے فیصلہ کو ملک و قوم کے مفاد میں سمجھتے ہیں تو پھر پارلیمنٹ سے فرار کیوں ؟ پارلیمنٹ کے باہر تو مختلف فورمس میں جذباتی ہوکر فیصلہ کا حوالہ دے رہے ہیں لیکن پارلیمنٹ میں کچھ بھی کہنے تیار نہیں۔ حالانکہ حکومت اپنے کسی بھی فیصلہ کیلئے پارلیمنٹ کو جواب دہ ہے۔

2014 ء عام انتخابات کی مہم میں مودی اور بی جے پی نے اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی خاموشی پر کافی طنز کیا تھا۔ ان کی خاموشی پر کئی لطیفے بھی بنائے گئے لیکن وزارت عظمیٰ پر فائز ہوتے ہی شاید کرسی کا اثر نریندر مودی میں آچکا ہے ۔

کسی بھی حساس مسئلہ پر مودی نے زبان نہیں کھولی۔ سنگھ پریوار کے نفرت کے سوداگروں کی سرگرمیوں پر بھی مودی لب کشا نہیں ہوئے ۔ وہ ریڈیو پر من کی بات تو کرتے ہیں لیکن حساس مسائل پر ان کا من کبھی بے چین نہیں ہوا۔ نوٹ بندی کے مسئلہ پر مودی کچھ اس طرح خاموش ہیں جیسے ان کا مون ورت چل رہا ہو۔ پارلیمنٹ میں کبھی نمودار ہورہے ہیں لیکن اظہار خیال کیلئے تیار نہیں۔ مبصرین کے مطابق ہوسکتا ہے کہ انہوں نے خاموشی کے سلسلہ میں اپنے پیشرو منموہن سنگھ کا ریکارڈ توڑنے کی ٹھان لی ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ جن پر 10 برس تک خاموش رہنے کا الزام تھا وہ بھی کرنسی بحران پر پارلیمنٹ میں خاموش نہ رہ سکے اور منموہن سنگھ کے خاموشی توڑنے پر مودی ان کا منہ تکتے رہ گئے۔ منموہن سنگھ جو ماہر معاشیات ہیں، کرنسی بحران پر عوامی تکالیف دیکھ کر وہ بھی خاموشی توڑنے پر مجبور ہوگئے

لیکن مودی ہیں کہ زبان کھولنے تیار نہیں۔ شاید ان کے پاس اپنے فیصلہ کے حق میں کہنے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔ مودی نے 8 نومبر کو جو فیصلہ کیا ، آج وہ خود چکرویو میں پھنس چکے ہیں۔ کابینہ اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر نوٹ بندی کی حماقت نے انہیں الجھن میں مبتلا کردیا ہے۔ اگر وہ فیصلہ کو درست ثابت کرنے کے موقف میں ہوتے تو یقینی طور پر پارلیمنٹ کا سامنا کرتے ۔ نوٹ بندی کے فیصلہ کے سلسلہ میں نریندر مودی کی ٹی وی چیانلس پر کی گئی تقریر کے لائیو ہونے پر شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ تقریر کئی دن پہلے ہی ریکارڈ کی گئی اور اس میں ایڈیٹنگ بھی کی گئی تھی ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ نریندر مودی نے سوائے اپنے قریبی حلقہ کے کسی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا۔ نوٹ بندی سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے کیاش لیس اکانمی کا نیا شوشہ چھوڑا گیا جبکہ یہ ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ممکن نہیں ہے۔ اس طرح کی تبدیلی اس وقت آسکتی ہے جب ملک کی صد فیصد آبادی خواندہ ہوجائے۔ اب تو صورتحال یوں ہے کہ دیہی علاقوں میں انفارمیشن ٹکنالوجی کی کوئی رسائی نہیں ہے، حکومت شہروں میں مفت وائی فائی کے دعوے کر رہی ہے لیکن آج تک اس پر عمل نہیں ہوسکا۔ وزیراعظم نریندر مودی جن کی تعلیمی قابلیت سے کوئی واقف نہیں، وہ کیاش لیس اکانمی کے نفاذ کے ذریعہ ان غریبوں کا مذاق اڑا رہے ہیں، جن کی اکثریت دیہی علاقوں میں بستی ہے۔ وزیراعظم نے گزشتہ ڈھائی برسوں میں ملک کی تمام ریاستوں کے صدر مقامات کا دورہ تک نہیں کیا۔ وہ کس طرح دیہی علاقوں کے صورتحال سے واقف ہوں گے۔ انہیں تو صرف شہروں اور بیرونی ممالک کے دوروں کا تجربہ ہے۔ ہندوستان کے بعض دور دراز علاقے ایسے بھی ہیں جہاں کے عوام وزیراعظم کی تبدیلی اور کرنسی کی تبدیلی سے واقف نہیں ہوںگے۔ ووٹ حاصل کرنے کیلئے کہا جاتا ہے کہ حقیقی ہندوستان تو دیہاتوں میں بستا ہے لیکن جب کیاش لیس اکانمی نافذ کرنا ہو تو دیہاتوں کو سنگاپور تصور کرتے ہیں۔ اس طرح کے ڈائیلاگ فلموں اور اسٹیج پر تو پسند کئے جائیں گے لیکن حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ ہندوستان میں مکمل خواندگی کے بغیر اس طرح کے خواب پورے نہیں ہوسکتے۔ وزیراعظم کو اس بات کی وضاحت کرنی چاہئے کہ آخر وہ کونسی طاقتیں ہیں جن کے ہاتھوں میں وہ کٹھ پتلی بن چکے ہیں۔ وہ کون لوگ ہیں جو ملک میں افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں۔ ان کے نام عوام کو بتائے جائیں تاکہ ملک کو ایسی طاقتوں سے بچایا جاسکے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے  ؎
جس عہد میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی
اس دور کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے