ڈاکٹر مجید خان
ممکن ہو 20 سال پہلے میں نے ایک مضمون لکھا تھا کہ دماغی و نفسیاتی بیماریوں میں جو سب سے عام بیماری ہم ساری دنیا میں دیکھتے ہیں اُس کو SCHIZOPHRENIA کہا جاتا ہے ۔ سو لوگوں میں ایک شخص میں یہ بیماری ہوا کرتی ہے ۔ چاہے وہ حیدرآباد ہو روس ہو یا امریکہ ۔ نہ صرف یہ بیماری نوجوانی میں شروع ہوتی ہے اور دوشیزاوں میں برابر کی ہوتی ہے بلکہ اس کی علامتیں بھی ساری دنیا میں یکساں ہوتی ہیں۔
اس بیماری کے دو پہلو ہوا کرتے ہیں ایک جارحانہ اور دوسرا خاموشی کا ۔ جارحانہ پہلو جس میں مریض تشدد پر اُتر آتا ہے نسبتاً جلدی قابو میں آجاتا ہے اور اس کے علاج کیلئے کافی موثر دوائیں آج کل دستیاب ہیں جو پہلے نہیں تھیں۔
مگر خاموشی کا جو دور شروع ہوتا ہے اُس کا خاطر خواہ علاج آج تک بھی دریافت نہیں ہوا ۔ یہ طبی سائنس کی بڑی افسوسناک شکست مانی جاتی ہے ۔ نئی نئی دوائیں اس دعوے کے ساتھ ایجاد ہوتی رہیں کہ وہ کامیاب ہورہی ہیں سب غلط ثابت ہوئیں ۔ Schizophrenia مرض کے اس خاموش پہلو کو میںنے گُم سُم کے نام سے موسوم کیا تھا ۔
میں نے وعدہ کیا تھا کہ یقینا مستقبل میں یہ مرض جو لاعلاج سمجھا جاتا تھا اس کا حل دریافت کرلیا جائے گا ۔ میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کے قارئین کو آج کی صورتحال سے واقف کرواؤں گوکہ کوئی موثر دوا ایجاد تو نہیں ہوئی مگر اس موضوع پر کافی دلچسپ معلومات اس وقت سائنسی تحقیقات سے دستیاب ہیں جو اس ویران ذہنی کیفیت پر روشنی ڈالتی ہیں۔
بے حساب نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس مرض کا شکار ہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں اس لئے اس کیفیت کو سمجھنا والدین اور دوسرے ددیکھ بھال کرنے والوں کے لئے ناگزیر ہے ۔
اوپر میں نے اس مرض کو دماغی اور نفسیاتی لکھا ہے یعنی آدھی بیماری دماغ کی اندرونی خرابی کی وجہ سے ہے اور آدھی نفسیات کی وجہ سے ہے ۔ لوگ مریض کو یہ کہکر لے ْآتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب لڑکا یا لڑکی کئی مہینوں سے گم سُم ہوگئے ہیں۔ جب یہ لوگ کئی مہینوں سے کہتے ہیں تو اکثر وہ کئی سالوں کی بات ہوتی ہے ۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے جیسا بیشتر تعلیم یافتہ رشتے داروں کو بھی یہ شک ہونے لگتا ہے کہ یہ کوئی دماغی مرض نہیں بلکہ کوئی اور غیرطبی وجہ ہوسکتی ہے اور یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ لوگ کوئی کرتوت ، آسیب یا جادو منتر کا شکار ہوگئے ہیں اور ڈاکٹری علاج کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ مجھے اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی تردد نہیں ہوتا کہ عصری نفسیاتی سائنس میں بھی اس کا خاطر خواہ علاج دستیاب نہیں ہے ۔ مگر یہ ضرور کیا جاسکتا ہے کہ اگر ابتدائی مراحل میں اس مرض پر توجہ دی جائے تو اس کی شدت میں کمی ہوسکتی ہے اور مریض کو بالکلیہ طورپر ناکارہ اور ایدی ہونے سے بچایا ضرور جاسکتا ہے۔
سائنسی ترقی اور تحقیقات کی بنا پر جو مزید اہم معلومات آج ہم کو دستیاب ہیں اُن کا تذکرہ میں یہاں پر کرنا چاہوں گا تاکہ گم سُم کے تعلق سے میرا وعدہ کچھ حد تک تو پورا ہوجائے، پہلے ایک پڑھے لکھے خاندان کی مثال پیش کرنا چاہوں گا ۔
نوجوان لڑکی میڈیکل کالج کے تیسرے سال تک تو بڑی آسانی سے پہنچ گئی اور قابل طالب علموں میں شمار کی جاتی تھی ۔ شروع ہی سے کم سخن اور احباب پسند نہ تھی ۔ رشتے داروں میں بھی سب سے بے تکلفی سے ملنا اور بے تکلف ہونا اس کے بس کی بات نہیں تھی ۔ والدین یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ڈاکٹری تعلیم کے بوجھ کی وجہ سے یہ اس کی خاص شخصیت کی بناٹ بن چکی ہے لہذا کبھی بھی ماہر نفسیات سے مشورہ کرنے کے تعلق سے نہیں سوچے ۔ ایک امتحان میں فیل ہوگئی اور کالج جانا بند کردی اور گھر میں بھی ضرورت سے زیادہ ہی خاموش اور علحدگی پسند ہوتی گئی جب وہ لوگ کسی ماہر نفسیات سے مشورہ کئے تو دوائیں تجویز کی گئیں ۔ استعمال سے کچھ فائدہ ضرور ہوا مگر لڑکی اور اُس کی والدہ دوائیں جاری رکھنا نہیں چاہتی تھیں اس لئے مجھ سے ملنے آئے ۔ اُن کا پہلا جملہ یہ تھا کہ سوائے دواؤں کے آپ جس قسم کا علاج کرنا چاہتے ہیں کیجئے مگر ہم دوائیوں کے استعمال کو پسند نہیں کرتے ۔ میں نے کہا کہ آپ گم سمی کے تعلق سے مکمل معلومات حاصل کیجئے اور پھر طے کیجئے کہ کیا کرنا چاہئے ۔ معلومات حاصل کرنا بے حد ضروری ہے۔ گم سمی کو ناپا اور تولا جاسکتا ہے ۔ گزشتہ 30 سالوں میں دماغی سائنس میں بے پناہ ترقی ہوئی ہے اور جذبات کی خود ایک علحدہ سائنس بن گئی ہے ۔ گم سمی میں نہ صرف دماغی کارکردگی متاثر ہوتی ہے بلکہ غوروفکر بھی اُسی خرابی کے مطابق بدل جاتی ہے مثلاً انکار مرض اور علاج کو غیرضروری سمجھنا ، ساری دنیا کو اُن میں جو علانیہ بگاڑ نظر آتا ہے وہ اُن کو نظر نہیں آتا۔
یہ کیفیت ساکن نہیں رہتی اور بڑھتی جاتی ہے ۔ لوگوں سے تعلقات سے بڑھتا ہوا گریز ۔ وہ لڑکی جو ڈاکٹری کے پیچیدہ امتحانات کامیاب کرچکی ہے اب اُس کے خیالات میں قحط پڑتا جاتا ہے ۔ غوروفکر کی جو آلہ کاری ہوتی ہے وہ آہستہ آہستہ کمزور پڑتے ہوئے ویران ہوتی جاتی ہے اُس کے ساتھ ساتھ جذبات بھی ٹھنڈے پڑنا شروع ہوجاتے ہیں مثلاً یہ کہ نہ خوشی میں خوشی محسوس ہوتی ہے نہ غم میں کسی قسم کا غم ۔ بیماری کے سنگین ہونے پر غیرارادی بغیر خوشی کے ہنسی یا رونا اتنا غیرمتوقع ہوجاتا ہے کہ والدین مجبور ہوکر علاج کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور گھنٹوں میں شفا چاہتے ہیں ۔ مگر حال حال میں سے دلچسپ جو دریافت ہوئی ہے اُس کا تعلق ’’خوشیوں کی خواہش کا فقدان ‘‘ کے عمل سے ہو اس کو انگریزی ہیں ANHEONIA کہا جاتا ہے۔
والدین یا بھائی بہن ان کمزوریوں کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ان کو تفصیلی طورپر بیان کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ جب میں ان سے لکھنے کے لئے کہتا ہوں تو Ph.Ds بھی گھٹنے ٹیک دیتے ہیں ۔ ایسے لوگ عاملوں کے پاس نہیں دوڑیں گے تو اور کیا کریں گے ۔ اُن کی خود کی عقل جواب دے دیتی ہے ۔
اب ذرا اس ایک مسئلے پر سنجیدگی سے غور و خوض کیجئے ۔ ہر شخص میں انبساط یعنی خوش ہونا ، مسرت سے محظوظ ہونا اور اُن سے جڑے ہوئے تمام کام کرنا مثلاً عش عش کرنا ہنسنا ، کھل کھلاکر ہنسنا ۔ مذاق سے لطف اندوز ہونا ۔ ناچنا اور رقص کرنا وغیرہ وغیرہ کی قدرتی صلاحیتیں موجود ہوا کرتی ہیں۔ ان کی پرورش ضروری ہے ورنہ یہ قدرتی نعمت ناپید ہوجائیگی اور پھر کبھی واپس نہیں آئے گی ۔ زندگی بدمزہ ہوجائیگی مگر مریض اسی کیفیت کو پسند کرنے لگتا ہے اور اس کے سوا اور کسی طرز زندگی کو وہ اپنا نہیں سکتا ۔ پسندیدہ مشغلوں کا مزہ لوٹنا ۔ اس کی عادت ہونی چاہئے ۔ عصری تحقیقات سے اب یہ پتہ چلا ہے کہ لطف اندوز ہونے کی کیفیت کے دو پہلو ہیں۔ یعنی اس کے دو مرحلے ہیں۔ قارئین اس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ بڑی اہم باتیں لکھ رہا ہوں کسی اردو تحریر میں یہ مل نہیں سکتی ۔ انگریزی میں بھی یہ تفصیلات مشکل سے دستیاب ہوں گے ۔ اس لئے اس کو پڑھئے ، سمجھنے کی کوشش کیجئے ، محفوظ کیجئے اور مشورہ پر عمل کیجئے ۔
گم سمی اور زندگی میں روزمرہ کی جو عام مزہ لینے والی چیزیں ہوتی ہیں چاہے وہ کوئی کھانے کی چیزیں ہوں یا پھر کھیل کود کی بات ہو یا پھر دوستوں سے گپ شپ کا معاملہ ہو یا تعلیمی دلچسپی ہو وہ بتدریج کم ہونے لگتی ہیں ۔
اب یہ پتہ چلا ہے کہ یہ دو مرحلوں میں ہوا کرتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں ان چیزوں یا کاموں کی خواہش پیدا ہونا ۔ دوسرا مرحلہ اُن کا لطف اٹھانا ۔
یہ تفریق اس لئے اہم ہے کہ یہ دونوں عوامل کے مراکز اور دماغی راستے جداگانہ ہیں۔ کسی بھی دلنواز عمل کیلئے خواہش پیدا ہونے کے لئے ایک دماغ کے حصے کا خاص نٹ ورک عمل پیرا ہونا ہے ۔ اور مزہ لوٹنے کیلئے دماغ کے کسی دوسرے حصے کو مشغول ہونا پڑتا ہے ۔ اس عمل کے سمجھنے کے بعد اس کے تدارک کے نئے علاج ڈھونڈے جارہے ہیں۔
یہ بڑی معنی خیز دریافت ہے ۔ جیسے ہی والدین یا اساتذہ اس منفی ذہن کی کیفیت کو بھانپنے لگتے ہیں تو اگر خفیہ مداخلت کی جائے تو اس کو بغیر دوائیوں کے روکا جاسکتا ہے ۔ یہاں پر ایک اور عام عملی مثال پیش کرنا چاہوں گا ۔ صاحبزادے انجینئرنگ گریجویٹ ہیں یا پھر MBA کرچکے ہیں مگر نوکری کرنے سے کترا رہے ہیں نوکری کرنے کی خواہش شروع میں ہوا کرتی ہے اور شوق سے تھوڑے دن جاتے ہیں یعنی دماغ کا پہلا حصہ تو ٹھیک سے کام کررہا ہے مگر تھوڑے ہی وقفے میں بیزار ہوجاتے ہیں اور اس بہترین مصروفیت کو کسی نہ کسی بہانے خیرباد کہہ دیتے ہیں۔ ظاہر ہے ان باریکیوں کو سمجھے بغیر کسی عامل سے رجوں ہوں تو مریض بھی یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ یہ کوئی کرتوت کی وجہ سے ہے اس لئے اس کو اپنی عقل اور ذمے داری سے باہر کردیتا ہے اور اس کا الزام دوسروں پر لگادیتا ہے اور عامل لوگ اس شک و شبہ کو اور مضبوط کردیتے ہیں اور مرض ناقابل علاج ہوکر رہ جاتا ہے ۔
سب سے اہم مشاہدہ گفتگو اور چہرے پر مختلف جذبات کے آثار ہیں علانیہ قلت نظر آتی ہے ۔ چہرہ جذبات کا آئینہ ہوا کرتا ہے ۔ مگر اس روگ میں چہرے پر جذبات کی مفلسی عیاں نظر آتی ہے ۔ آواز میں جو اتار چڑھاؤ اور موسیقی جو ہونی چاہئے یعنی عروض زبان وہ نظر نہیں آتے ہیں اور ہمیشہ ایک خاص ماتم زدہ کیفیت دکھائی دیتی ۔ ان کیفیات کو ابتدائی مرحلوں ہی میں اگر پہچان لیں تو اس کا علاج ممکن ہے ورنہ اس کے ساتھ جب ہٹ دھرمی اور ضد اس پر سوار ہوجاتی ہے تو یہ گم سمی کیفیت لاعلاج ہوجاتی ہے ۔ نادان لوگ ایسے مریضوں کی زبردستی شادیاں بھی رچا بیٹھتے ہیں اور پھر غیرضروری پریشانیوں میں گھر جاتے ہیں۔