جذباتی قیادت کی ناعاقبت اندیشی

ظفر آغا
حال ہی میں مسلم پرسنل لاء بورڈ (مہاراشٹرا) کی جانب سے ایک بیان شائع ہوا، جس میں مودی حکومت سے یہ کہا گیا ہے کہ ’’اگر آئین میں چھیڑ چھاڑ کی گئی تو اس کے نتائج خطرناک ہوں گے‘‘۔ پرسنل لاء بورڈ کو اس بات کی فکر ہے کہ بی جے پی قائدین نے انتخابات کے بعد ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے۔ یقیناً یہ بات ہندوستانی مسلمانوں کے لئے تشویشناک ہے، تاہم حکومت وقت سے بات چیت کرنے کے لئے مذکورہ لب و لہجہ بھی مناسب نہیں ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے شاید اس بات پر غور نہیں کیا کہ اس کے بس میں کیا ہے؟۔ اگر حکومت کچھ کرنے پر آجائے تو پرسنل لاء بورڈ اور مسلم قیادت حکومت کا کیا بگاڑ سکتی ہے؟۔ اس سے بھی بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی قائد کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ قوم کے مفاد میں دُور اندیشی سے کام لے اور ایسا لائحہ عمل تیار کرے،

جو قوم کے مفاد میں ثابت ہو، نہ کہ اس کا منفی اثر ہو!۔ہندوستانی مسلمان خود سے یہ سوال کریں کہ ’’کیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور وہ تمام مسلم تنظیمیں جو مسلم مفاد کا دَم بھرتی ہیں، کیا وہ اس بات کی اہل ہیں کہ مسلم مفاد میں دور اندیشی سے کوئی حکمت عملی یا لائحہ عمل تیار کرسکیں؟‘‘۔ راقم الحروف کی رائے سے اکثر افراد کو اتفاق نہیں ہوگا، لیکن راقم کی رائے میں ہندوستانی مسلمانوں کی کوئی تنظیم ایسی نہیں ہے، جو حالاتِ زمانہ کو سمجھ کر مسلم مفاد میں کوئی کام انجام دے سکے۔ مسلم قیادت کا کام محض جذباتی بیانات دے کر مسلمانوں میں ہیجان پیدا کرنا ہوتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جذباتی اور ہیجانی اقدامات سے قوم کو نقصان پہنچتا ہے۔ پھر جب قوم ان خود ساختہ قائدین ملت کے جذباتی اعمال کا نتیجہ بھگت رہی ہوتی ہے تو یہ قائدین ایسے سخت وقتوں میں کہیں نظر نہیں آتے۔

ہندوستانی مسلمان فروری 1986ء کی وہ سرد رات نہیں بھول سکتے، جب بابری مسجد کا تالا کھولا گیا تھا۔ ایودھیا میں مسجد کا تالا کیا کھلا کہ ہندوستانی مسلمانوں پر قہر ٹوٹ پڑا۔ سارے ہندوستان بالخصوص اتر پردیش میں فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایک طرف مسلمان فسادات اور کرفیو کا شکار تھے اور دوسری طرف قائدین ملت کو بابری مسجد کے تحفظ کی فکر ہو گئی۔ بات تو اپنی جگہ درست تھی، مگر غور فرمائیے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی نگرانی میں مسلم قیادت نے کس قدر دُور اندیشی کا فیصلہ کیا۔

سب سے پہلے مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ مسجد اپنے قیام سے قیامت تک مسجد رہتی ہے، اس لئے بابری مسجد کا تحفظ مسلمانوں کا شرعی فریضہ ہے۔ چنانچہ بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد مسجد کا دفاع ضروری ہو گیا، پھر پرسنل لاء بورڈ کی نگرانی میں بابری مسجد ایکشن کمیٹی قائم ہوئی۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے سارے ہندوستان میں بڑے بڑے جلسوں کا انعقاد کرکے مسلمانوں میں جذبات کا طوفان برپا کیا اور نعرۂ تکبیر کی گونج میں اس کے قائدین نے بابری مسجد کے تحفظ کے لئے اپنا خون بہانے کی قسمیں کھائیں۔ اب ہر طرف مسلم جلسوں کا زور تھا اور نعرۂ تکبیر کی صدا تھی، یعنی بابری مسجد کو بچانے کے لئے مسلم جذبات کا سیلاب تھا، جب کہ یہ سب کچھ مسلم پرسنل بورڈ کی نگرانی میں بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے پرچم تلے ہو رہا تھا۔اب ذرا دوسری طرف بھی دیکھ لیجئے!۔ بابری مسجد کا تالا کھلنے اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے سرگرم ہونے کے بعد ابتدائی دَور میں وشوا ہندو پریشد یا بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے کوئی بڑا جواب نہیں دیا گیا۔ صرف وشوا ہندو پریشد کی جانب سے یہ بیانات جاری کئے جاتے تھے کہ ’’مسلمان ایودھیا سے بابری مسجد ہٹالیں، تاکہ ہندو اس مقام پر رام مندر تعمر کرسکیں‘‘۔ یہ ایک طرح کی اپیل تھی، کوئی جذباتی بیان نہیں تھا،

جب کہ یہ سارا کام بڑی دُور اندیشی سے ہو رہا تھا۔ دراصل وشوا ہندو پریشد اور سنگھ نے بہت سوچ سمجھ کر بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے لئے میدان چھوڑ رکھا تھا، تاکہ مسلمانوں کے جذبات اور ہیجانی بیانات و تقاریر سے ہندو ردعمل پیدا ہو اور ہندو اس بات کا سخت نوٹ لیں کہ ’’مسلمان ایودھیا میں رام کی جائے پیدائش پر رام مندر نہیں بننے دے رہے ہیں‘‘۔ چنانچہ سنگھ اپنے مقصد میں کامیاب رہا اور آہستہ آہستہ 1989ء تک ہندو ردعمل پیدا ہونے لگا۔ اسی دوران وشوا ہندو پریشد نے رام مندر کی سنگ بنیاد رکھ دی اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی جانب سے مسجد کے تحفظ کی قسمیں کھائی جانے لگیں۔ اس کے بعد ہی وشوا ہندو پریشد کی ریلیاں شروع ہوئیں اور ہندوستان کی گلیوں میں ’’مندر وہیں بنائیں گے‘‘ کے نعرے گونجنے لگے۔ پھر راتوں رات عام ہندوؤں کے ذہن میں مسلمان، بھگوان رام کا دشمن ہو گیا۔ اسی دوران اڈوانی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی بھی رام مندر تعمیر کرنے کے لئے کود پڑی اور یہ نعرہ لگنے لگا کہ ’’بچہ بچہ رام کا، مندر کے کام کا‘‘۔ پھر ’’جے سری رام‘‘ کے نعروں کے مقابل مسلمانوں کے نعرے کمزور ثابت ہونے لگے اور بالآخر 6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد شہید کردی گئی۔ سارے ہندوستان میں ہزاروں مسلمان مارے گئے اور مہینوں ہندوستانی مسلمان خوف کے سائے میں جیتے رہے، جب کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی سے تعلق رکھنے والے کسی ایک رُکن کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ یہ تھی مسلم پرسنل لاء بورڈ اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی دُور اندیشی!۔

اب ایک بار پھر جذباتی بیانات کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے۔ دراصل مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر مسلم تنظیمیں صرف جذبات سے کام لیتی ہیں، جس کے نتیجے میں تقریباً 30 برسوں سے ہندوؤں کے ذہنوں میں ہندوتوا چھا گیا ہے۔ بی جے پی اور سنگھ کا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو چھیڑکر اُن میں جذبات پیدا کیا جائے اور پھر اس کے نتیجے میں ہندو ردعمل پیدا کیا جائے۔ اس طرح منزل بہ منزل سنگھ اپنے مقصد میں کامیاب ہو رہا ہے، جب کہ مسلم قیادت ہوش کے ناخن لینے کی بجائے جوش سے کام لے کر مسلمانوں کو نفع کم اور نقصان زیادہ پہنچا رہی ہے۔

ہندوستانی مسلمانوں کو اب یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ہندوستان کو بدل دیا ہے، لہذا ان بدلے حالات میں جذبات سے کام لینے والی قیادت خود مسلمانوں کے لئے دشمن ثابت ہوگی۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہماری جو بھی تنظیمیں ہیں، ان میں اعلیٰ فکر کا فقدان ہے اور جذباتی ردعمل کے سوا وہ کچھ سوچنے کی اہل نہیں ہیں۔ فی الوقت ہر قدم پھونک پھونک کر اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر مسلم قیادت بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی طرح مسلم مسائل پر جذباتی ردعمل کا اظہار کرے گی تو سنگھ بہت خوبصورتی کے ساتھ ہندو ردعمل پید کرنے میں کامیاب ہو جائے گا، جس کے نتیجے میں پھر ایک بار ماضی کی تاریخ دُہرائی جائے گی۔

اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان اپنے لائحہ عمل میں بنیادی تبدیلی لائیں اور انتہائی دُور اندیشی کا مظاہرہ کریں۔ یہ جذبات کا نہیں بلکہ فکر کا دَور ہے۔ موجودہ صورت حال میں فوری حکمت عملی یہی ہوسکتی ہے کہ مسلمان کسی بھی مسئلہ پر جذباتی ردعمل سے گریز کریں۔ دُور اندیشی اسی میں ہے کہ مسلمان جدید فکر کی حامل ایک نئی قیادت پیدا کرنے کی کوشش کریں، جو نریندر مودی کے ہندوستان میں قوم کو صحیح راستہ دِکھاسکے۔ اگر ہم اسی لب و لہجہ اور جذباتی انداز میں کام کرتے رہے تو قوم کا بڑا بہت نقصان ہوگا، جب کہ ہماری جذباتی قیادت کا دُور دُور تک کہیں پتہ بھی نہ ہوگا۔