ضیا فاروقی
جدید شاعری میں اسلامی تہذیب و ثقافت کے نقوش تلاش کرنے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ برصغیر میں اسلامی تہذیب و ثقافت کی صورت حال کیا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام ایک ہمہ گیر اور آفاقی مذہب ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دیار حرم سے نکل کر یہ جن راستوں سے گزرا اور جن بستیوں میں ٹھہرا وہاں کی تہذیبی روایات ، وہاں کی معاشرت اور وہاں کی صالح اقدار کواپنے آپ میں اس طرح ضم کرتا رہا کہ دیار غیر کے مناظر بھی سرسبز و شاداب ہوگئے ۔ ظاہر ہے اس کا اطلاق سرزمین ہند پر بھی ہوتا ہے کہ یہاں کے میلوں ٹھیلوں ، تیج تیوہاروں اور رسوم و رواج کے علاوہ ویدک فلسفے کی صحتمند اقدار کے اثرات بھی اسلام کی شفاف چادر پر دیکھے جاسکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کی مسلم ثقافت کے طاق پر یونانی علم و حکمت کے چراغ بھی روشن ہیں اور آریائی فکر و فلسفے کی تصاویر بھی نمایاں ہیں ۔ جہاں تک اردو شعر و ادب کا تعلق ہے تو اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اردو شعریات پر تلمیحات اور استعارات کا جو قرینہ نظر آتا ہے وہ یقیناً فارسی شاعری ہی سے مستعار ہے ، لیکن اس پورے منظرنامے میں مذہب یا دین جس سے انسان کا ازلی رشتہ ہے ، اس کا پرتو بھی نمایاں نظر آتا ہے ۔ شعر و ادب کا ایک مقصد دین و مذہب کی عطا کردہ اقدار کی بنیادوں پر انسان سازی کرنا بھی ہے اور مشرقی شاعری نے اس فریضے کو اپنی پوری ذمہ داری کے ساتھ نبھایا ہے ۔ ثبوت میں مولانا روم اور شیخ سعدی سے لے کر علامہ اقبال تک کتنے ہی شاعروں کا کلام رکھا جاسکتا ہے ۔
اس تمہیدی گفتگو کامقصد یہ عرض کرنا تھا کہ اسلامی تہذیب و ثقافت کے حوالے سے اردو کی اعلی شاعری کے جو نمونے ہمارے سامنے آتے ہیں ، ان میں ہندوستانی بھکتی کے رنگ بھی ہیں اور آب زمزم کی نمی بھی ، یہ اور بات ہے کہ یونانی فکر فلسفہ کے وہ رنگ جس میں بیشتر فارسی شاعری رنگی ہوئی ہے ، اس کا عکس بھی اردو شاعری پر شروع سے ہی نمایاں ہے ۔ ثبوت میں میر تقی میر ، خواجہ میر درد ، مظہر جانِ جاناں اور مرزا غالب تک کے اشعار پیش کئے جاسکتے ہیں ۔ میر کہتے ہیں ؎
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
خدا ساز تھا آزرِ بت تراش
ہم اپنے تئیں آدمی تو بنائیں
ارض و سما کہاں تری وسعت کوپاسکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سماں سکے
مرزا غالب
نہ تھا کچھ تو خدا تھا ، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
دل ہر قطرہ ہے ساز انا البحر
ہم اُس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
ان اشعار میں کائنات اور خالق کائنات کے تئیں جو والہانہ پن ، جو اوالعزمی اور جو طرح داری نظر آتی ہے وہ نہ صرف یہ کہ عین اسلامی فکر سے عبارت ہے بلکہ اپنے طرزِ اظہار میں جدیدیت کی راہ میں سنگ میل بھی ہیں ۔ اسی جدید آہنگ سے وہ جدید تحریکیں بھی ابھریں جن کا خشت اول انجمن پنجاب کے بانیوں کے ذریعے رکھا گیا اور جس کے تحت محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی جیسے دانشوروں نے اردو کی قدیم مروجہ اصناف کے مقابلے میں نہ صرف نئی اصناف کو متعارف کرایا بلکہ اردو شعراء کی اس خواہش کا بھی احترام کیا کہ ’’کچھ اور چاہئے وسعت مرے بیاں کے لئے‘‘ حالی نے جہاں بامقصد نظمیہ شاعری کو فروغ دیا وہیں مدو جزر اسلام لکھ کربھی اردو ادب میں گراں بہا اضافہ کیا ۔ ہم یہاں محسن کاکوروی کے نعتیہ قصیدے کا بھی ذکر کرسکتے ہیں ، جن کا پہلا شعر ہی ہند اسلامی روایات کا مظہر ہے :
سمتِ کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل
اردو شاعری یہی نہیں کہ ہماری ذہنی دلبستگی سے عبارت ہے بلکہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ دعوت و تبلیغ اور رشد و ہدایت کی تحریکوں میں ہماری اردو شاعری نے اپنے کردار کو پوری ذمہ داری کے ساتھ نبھایا ہے ۔ علامہ شبلی نعمانی ، علامہ اقبال اور حفیظ جالندھری جیسے بزرگوں نے اصلاح معاشرہ کے سلسلہ میں اس حربے کو جس فنی چابکدستی سے استعمال کیا ہے اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں ، انھیں بزرگوں کی کاوشوں اور کوششوں کا نتیجہ تھا کہ بعد کی نسلوں نے نہ صرف یہ کہ اپنا محاسبہ کیا ، بلکہ عملی میدان میں بھی سرگرم ہوئے اور اس کے نتائج مختلف صورتوں میں آج بھی ہماری سماجی اور ملی زندگی کو متحرک رکھتے ہیں ۔
جہاں تک اس تحریک کا سوال ہے جو’’شب خون‘‘ کے اوراق پر ابھری اور پھر اسی میں گم ہوگئی ، میں زیادہ کچھ نہ کہہ سکوں گا ۔ لیکن اس تحریک نے بھی انسان کو خود اپنی حصار بند فکر سے ضرور آزاد کیا ، اسی کے نتیجے میں وہ شاعری ہمارے ادب کا سرمایہ بنی ، جس کے بلیغ استعاراتی نظام میں فکر و فلسفہ بھی ہے اور انتشار و احتجاج بھی ۔ ساتھ ہی وہ اسلامی شعار جو مارکسی نظریات کی برکتوں کی بدولت اردو شعراء کے ایک طبقے کے درمیان سے محو ہوتے جارہے تھے ، ان کی بازیافت بھی ممکن ہوسکی ۔ اس سلسلے میں پروفیسر ابوالحسنات حقی کے مضمون کا درج ذیل اقتباس یقیناً میری بات کو واضح کرنے میں معاون ہوگا :
’’ترقی پسندی کے عہد میں ہم نے اپنی فکر کو ذاتی کسب و کمالات تک محدود کرلیا تھا اور یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ہم بھی کوئی قائم بالذات وجود ہیں جو اپنی فکر کے گل بوٹے اپنی ذات کے حوالے سے کھلاسکتے ہیں ، اس گمراہ کن تصور نے ہمیں فکر کی پستی میں ڈھکیل دیا تھا ، اب کہ جب ہم نے سوچا کہ فکر اور اظہار کے سارے وسیلے خدا اور بندے کو ہم کلام کرنے کے لئے وجود میں آئے ہیں تو ہماری فکر نے ایسے شہپر نکالنے شروع کردئے کہ جن کا تصور بھی ہمارے لئے محال تھا ۔ اب ہم محسوس کرسکتے ہیں کہ میرؔ ، غالبؔ اور اقبالؔ کی عاجزانہ بصارت اور بصیرت اللہ کے اعتراف میں پوشیدہ ہے ۔ حمد و نعت کی رفعتیں ہمارے قلم کو مہمیز کرتی ہیں اور ہر شاہکار کو انتہائی سبک روی کے ساتھ کاغذ پر بکھیر دیتی ہیں ۔ ہماری تمام تہہ داریاں جس قلزم بے کراں سے پرورش پاتی ہیں ، اسی کو تو کن فیکون کا جملہ مطلق سہاتا اور سجتا ہے ۔ خالق مخلوق کے اس رشتے کا عاجزانہ عرفان ہمیں مسلسل بیکراں اور تہہ دار بنادیتا ہے‘‘۔
اس حوالے سے دیکھا جائے تو جدید شعراء نے کلاسیکی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے اُن علامتوں ، استعاروں اور تلمیحات کو جواسلامی روایات سے عبارت ہیں ، نئے مفاہیم اور عصری مسائل کے پس منظر میں برتا ہے ۔ ہمیں آج کی شاعری میں جہاںقرآن مجید میں مذکور واقعات ، حادثات اور شخصیات کا ذکر بطور تلمیح یا استعارہ نظر آتاہے وہیں اسلامی تاریخ کے دوسرے واقعات یا شخصیات کے حوالے بھی نظر آتے ہیں ، خصوصاً کربلا اور اس کے متعلقات کو برتنے اور اپنے داخلی کرب اور ظاہری انتشار کا اظہار کرنے میں شعراء نے جدید آہنگ کو جس بلاغت اور متانت کے ساتھ برتا ہے وہی تو آج کی شاعری میں اسلامی تہذیب و ثقافت بوطیقا ہے ۔ عرفان صدیقی ، عاشور کاظمی ، شمیم حنفی ، ناصر کاظمی ، مظفر حنفی ، عمیق حنفی ، غلام مرتضی راہی ، مظہر امام ، ابوالحسنات حقی ، ناظر صدیقی ، ظفر اقبال ، شہریار ، بشیر بدر ، سلطان اختر ، شعیب نظام ، اسعد بدایونی ، فرحت احساس ، شہپر رسول ، احمد محفوظ وغیرہ کے علاوہ بھوپال کے شعری منظرنامے میں بھی ایسے بہت سے نام ہیں ، جن کا ذکر یہاں کیا جاسکتا ہے کہ ان حضرات نے بھی ان متعلقات کی پاسداری کی ہے ، جو ہمیشہ سے تہذیب و تمدن کا آئینہ رہے ہیں جیسے شاہد میر ، نجیب رامش ، مختار شمیم ، نور محمد یاس ، ظفر صہبائی ، نسیم انصاری ، کوثر صدیقی ، اختر وامق ، انجم بارہ بنکوی ، اقبال مسعود ، آفتاب عارف وغیرہ ۔ یہی نہیں کہ اسلامی تہذیب کی علامتوں اور کرداروں کو مسلم شعراء نے ہی اپنے شعری اظہار کا وسیلہ بنایا بلکہ ان غیر مسلم شعراء کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے جنھوں نے اردو معاشرے کی کلاسیکی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے ان ساری تلمیحات اور علامات کو برتا ہے جن کا تعلق اسلامی تہذیب و تمدن سے ہے ۔ ثبوت میں منچندا بانی ، اویناش امن ، کرشن کمار طور ، چندر بھان خیال ، ستیہ پال آنند اور پرتپال سنگھ بیتاب ، اوم پربھاکر وغیرہ کا کلام پیش کیا جاسکتا ہے ۔ تفصیل میں نہ جا کر یہاں کرشن کمار طور کا نعتیہ مجموعہ ’’چشمۂ چشم‘‘ اور چندر بھان خیال کا ’’لالوک‘‘ جو جدید آہنگ سے عبارت ہے ، کا حوالہ دیا جاسکتا ہے ۔ بہرحال میں یہاں چند ایسے اشعار پیش کررہا ہوں ، جن میں کسی نہ کسی سطح پر اسلام کی روح جلوہ افروز ہے :
ازل سے ہوں تلاش میں خود اپنے ہی وجود کی
میں نغمۂ الست کی صدائے بازگشت ہوں
جمیل نقوی
دلیلِ کن ہے مگر دردِ لادوا نکلی
یہ کائنات عجب حیرت آزما نکلی
امین اشرف
یوسفِ شہر تجھے تیرے قبیلے والے
دام لگ جائیں تو بازار بھی کرسکتے ہیں
عرفان صدیقی
اب بھی توہینِ اطاعت نہیں ہوگی ہم سے
دل نہیں ہوگا تو بیعت نہیں ہوگی ہم سے
افتخار عارف
زیب تھکے ہارے اس دل کو اسمِ محمد ایسا
ٹھنڈے میٹھے پانی کا چشمہ جیسے صحراؤں میں
زیب غوری
مدینہ لکھ کے نیچے جال کے رکھا شکاری نے
کسی طائر کے سینے میں جو ہجرت کا سوال اٹھا
شہپر رسول
دونوں کو پیاسا مار رہا ہے کوئی یزید
یہ زندگی فرات ہے اور میں حسین ہوں
عاشور کاظمی
مرے خدا کی نوازش فقط مجھی پہ نہیں
جو رقعے اُترے ہیں غارِ حرا سے عین ہوئے
کرشن کمار طور
آتی کسی کو راس شہادت حسین کی
دنیا میں ہم کسی کو تو سیراب دیکھتے
شہریار
اپنے کعبہ کی حفاظت ہمیں خود کرنی ہے
اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا
معراج فیض آبادی
ایک دن تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی
پھر کسی نمرود کو مچھر اڑ لے جائے گا
عطا عابدی
وہ جانتا ہے مجھے کہ کیا ہوں میں تشنہ ہونٹوں کی اک دعا ہوں
تڑپ کے نکلوں تو آب زمزم ، نکل کے تڑپوں تو کربلا ہوں
ضیا فاروقی
یہ چند اشعار جو میں نے بغیرکسی ترتیب کے پیش کردئے ہیں ان کے استعاراتی نظام میں ہماری تہذیب و ثقافت کی روح بھی ہے اور فکر و فلسفہ کے رنگ بھی ۔ اردو شاعری کی دو ڈھائی سو سالہ تاریخ کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیاجائے تو اس کا بیشتر اثاثہ جہاں عصری مسائل اور سماجی سروکار سے عبارت ہے ، وہیں مجاز کے پردے میں حقیقت کے شوخ رنگ بھی روشن ہیں ۔ خصوصاً جدید شاعری جو مادیت کے شور شرابے اور عالمی انتشار کی کثافت کی بطن سے نکلی ہے ، اس میں ہماری اسلامی تاریخ کے بہت سے پہلو اس طرح روشن ہیں کہ اس میں کائنات ہی نہیں خالق کائنات کے تئیں ہمارا عجز و انکسار بھی نمایاں ہے اور ہم والی آسی کی زبان میں کہہ اٹھتے ہیں کہ :
دھڑک رہا ہے جو دل بن کے تیرے سینے میں
مرے عزیز خدا کے سوا کچھ اور نہیں