نئی دہلی ۔ 31 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) کانگریس نے آج مزید اعتراضات جج بی ایچ لویا کی صحت اور موت کے بارے میں پیش کئے اور مطالبہ کیا کہ ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم سپریم کورٹ کی زیرنگرانی اس انتقال کی تحقیقات کرے۔ کانگریس نے کہا کہ ایس آئی ٹی نے سی بی آئی اور این آئی اے کے عہدیدار نہیں ہونے چاہئیں اور تحقیقات درست انداز میں کی جانی چاہئیں۔ پارٹی ملک کے ہر دیہات کو جاکر حکومت کی کارروائی کے بارے میں شعور بیدار کرے گی۔ ایک پریس کانفرنس میں کانگریس کے سینئر قائد کپل سبل نے الزام عائد کیا کہ ’’جمہوریت خطرہ میں ہے‘‘ اور ججس، وکلاء بلکہ ذرائع ابلاغ کے ارکان عملہ آج کل محفوظ نہیں ہیں۔ انہوں نے بامبے ہائیکورٹ پر بھی اعتراض کیا جس نے لویا کے انتقال پر ایف آئی آر درج نہیں کیا تھا۔ کانگریس نے اپنے الزامات کی تفصیلات کا پریس کانفرنس میں انکشاف کیا۔ تاہم اس نے کوئی دستاویزی ثبوت یا ٹھوس ثبوت اپنے دعویٰ کی تائید میں پیش نہیں کئے۔ خصوصی سی بی آئی جج لویا سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر مقدمہ کی سماعت کررہے تھے۔ نومبر 2014ء میں قلب پر حملہ کی وجہ سے ناگپور میں ان کا انتقال ہوا تھا۔ بعدازاں سیاسی پارٹیوں بشمول کانگریس نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کی موت پراسرار حالات میں ہوئی ہے اور ان کے انتقال کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ کپل سبل نے ناگپور کے ایک وکیل کو بھی متعارف کروایا جس نے دعویٰ کیا کہ لویا اعلیٰ سطحی مقدمہ کی وجہ سے ذہنی دباؤ محسوس کررہے تھے اور دیگر متعلقہ تبدیلیوں کی وجہ سے ان کے ذہن پر بوجھ تھا ۔ لویا کے پوسٹ مارٹم سے متعلق دستاویزات کے استحصال کا کپل سبل نے الزام عائد کیا۔
سپریم کورٹ کے ججس کا اجلاس
نئی دہلی ۔ 31 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) 12 جنوری کو پیدا ہونے والے تنازعہ کی یکسوئی کی کوشش کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چار سینئرموسٹ ججوں کی پریس کانفرنس سے پیدا ہونے والا بحران ہنوز جاری ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا نے دیگر ججوں سے ظہرانہ پر ملاقات کی تھی تاہم جسٹس اے چلمیشور جو 4 ججس کی قیادت کررہے تھے اور ایک عدیم المثال پریس کانفرنس منعقد کی تھی، موجود نہیں تھے۔ ذرائع کے بموجب سپریم کورٹ کے ججس نے جسٹس اے کے گوئل کی جانب سے ظہرانہ پر ملاقات کی تھی اور ان کے درمیان بحران کے بارے میں تبادلہ خیال ہوا تھا۔ جسٹس چلمیشور ، جسٹس گوگوئی، جسٹس لوکر اور جسٹس جوزف نے 12 جنوری کو پریس کانفرنس میں کئی مسائل اٹھائے تھے جن سے بحران پیدا ہوگیا تھا۔