جب میرا پہلا مضمون چھپا

میرا کالم مجتبیٰ حسین
پہلا گناہ ، پہلا عشق اور پہلا مضمون ہمیشہ یادگار ہوتے ہیں ۔ ماہ و سال کی گرد ان پر جمنے نہیں پاتی ۔ زندگی میں بہت سے گناہ کئے لیکن پہلے گناہ کی یاد بمع اس کی لذت کے اب بھی تازہ ہے ۔ ہم نے اپنی پچاس سالہ ادبی زندگی میں ڈھیروں مضامین لکھے ، داد بھی پائی ، نقادوں کے چونچلے سہے ۔ ان کے مشوروں پر عمل کرنے کی کوشش میں بُرے مضامین بھی لکھے ۔ لیکن اپنے پہلے مضمون کی بات کہیں نہ آئی ۔ اسے لکھتے وقت ہمارے سامنے نہ تو ناقد تھا اور نہ ہی ناظرین ۔ ہم تھے اور ہمارا مضمون ۔ آج کی طرح نہیں کہ اب مضمون لکھنے بیٹھتے ہیں تو کبھی ناقدین کو حاضر و ناظر جانتے ہیں اور کبھی ناظرین کو ۔ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ہمارا پہلا مضمون ہی ہمارا آخری خالص مضمون تھا ۔ پچاس برس پہلے کی وہ سہانی شام ہمیں آج تک یاد ہے ۔ ہمیں اس سہانی شام سے پہلے پتہ ہی نہ تھا کہ ہم میں مضمون لکھنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ ہم اس شام کو بھی حسب معمول آوارہ گردی کے لئے نکلے تھے ۔ برسات تھم چکی تھی ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں ۔ ایسا موسم آوارہ گردی کے لئے بہت موزوں ہوتا ہے ۔ لیکن ابھی ہم تھوڑی دور بھی نہیں گئے تھے کہ اچانک ہمارے اندر کچھ گڑبڑ ہونے لگی ۔ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کیا ہورہا ہے ، سوچا کسی ڈاکٹر سے مشورہ کیا جائے ۔ یہ ایک عجیب و غریب بے چینی تھی ۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ سب ’تخلیق کا کرب‘ تھا ۔ ہم اس سہانے موسم کو چھوڑ کر گھر واپس آگئے ۔ قلم اٹھایا اور جو جی میں آیا لکھنے لگے ۔ چار گھنٹوں بعد پتہ چلا کہ ماشاء اللہ ہم بھی ادیب بن گئے ہیں ۔ یہی وہ دن تھا جہاں سے ہماری زندگی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ۔ مضمون سے پہلے کی زندگی اور مضمون کے بعد کی زندگی ۔ ہم نے اپنے ادیب بن جانے کی خوش خبری کسی کو نہیں سنائی۔ مضمون کو اچھی طرح صاف کرکے اس کی دو کاپیاں بنائیں ۔ سوچا کہ جب ہم نے مضمون لکھ ہی لیا ہے تو کیوں نہ اسے کسی رسالے میں شائع کرایا جائے ۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ رسالوں میں مضامین کس طرح چھپوائے جاتے ہیں ۔

تاہم بعض رسالوں میں ان کے مدیروں کے نام چھپنے والے ادیبوں کے خطوط دیکھ کر ہمیں یہ اندازہ ہوگیا تھاکہ ادیب کے لئے صرف اچھا مضمون لکھ دینا کافی نہیں ہوتا بلکہ اس میں یہ صلاحیت بھی ہونی چاہئے کہ وہ مضمون سے زیادہ اچھا خط رسالے کے مدیر کے نام لکھ سکے ۔ اس وقت تک کسی رسالے کے مدیر سے ہماری ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی ، لہذا ایک رسالے کے مدیر کے نام ایک اچھا سا خط لکھنے میں مصروف ہوگئے ۔ اصل مضمون تو ہم نے چار گھنٹوں میں لکھا تھا لیکن مدیر کے نام خط کا مسودہ تحریر کرنے میں چار دن محنت کرنی پڑی ۔ آمد اورآورد کس کو کہتے ہیں اس کا پتہ بھی اسی وقت چلا ۔ ہم نے مدیر محترم کے نام جو خط لکھا تھا اس میں انھیں انواع و اقسام کے القاب عطا کئے تھے ۔ پھر ادب کے لئے ان کی گرانقدر خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے یہ بتایا تھا کہ اگر وہ یہ رسالہ شائع نہ کرتے تو ادب کا جغرافیہ اس طرح نہ ہوتا جیسا کہ اب ہے ۔ ہم نے ان کی درازی عمر کی دعا مانگنے کے بعد اس تمناکا اظہار بھی کیا تھا کہ اگر ہمارا مضمون ان کے رسالے میں شائع ہوگیا تو یہ ہماری عین خوش نصیبی ہوگی ۔ اگرچہ ہمیں بہت بعد میں پتہ چلا کہ مدیر موصوف تعلیم کے معاملے میں ہم سے کہیں زیادہ پسماندہ ہیں اور یہ کہ اگر وہ رسالہ نہ نکالتے تو کسی دفتر میں چپراسی کی نوکری بھی انھیں نہ ملتی ۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اپنے ملازموں سے ادب کی خدمت کروارہے تھے اور اس خدمت کا سہرا اپنے سر باندھ لیتے تھے ۔ بڑے بڑے ادیبوں کی دعوتیں کرتے تھے اور ان کی تصویریں اپنے رسالے میں نہایت اہتمام سے شائع کرتے تھے ۔

ادب کی سچی خدمت اسی کو کہتے ہیں ۔ خیر ہمیں اس سے کیا لینا دینا تھا ۔ ہمارا مقصد تو آم کھانا تھا پیڑ گننا نہیں ۔غرض ہم نے بڑے ارمانوں کے ساتھ خط سمیت اپنا مضمون مدیر موصوف کو روانہ کردیا ۔ مشہور تھا کہ مدیر موصوف نئے ادیبوں کے خطوط کے جواب نہیں دیتے ۔ مضمون پسند آجائے تو صرف اسے چھاپ دیتے تھے ، نئے ادیبوں کی ہمت افزائی کی یہ ادا ان کی اپنی تھی ۔ مضمون بھیجنے کے بعد ہمیں اس رسالے سے خواہ مخواہ اُنس پیدا ہوگیا ۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ ہمارے مضمون کو بھیجنے کے بعد اس رسالے کا جو شمارہ آیا اس میں مدیر محترم نے ایک درد انگیز اداریہ لکھا تھا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ کس طرح وہ اپنی بیگم کے زیورات بیچ کر رسالے کی اشاعت کا بندوبست کررہے ہیں اور یہ کہ اس رسالے کی اشاعت سے پہلے وہ کروڑپتی تھے ، اب صرف لکھ پتی رہ گئے ہیں ۔ انہوں نے ادب دوستوں کی غیرت وغیرہ کو للکارنے کے بعد یہ بھی دھمکی دی تھی کہ اگر ان کے رسالے کے نئے خریدار نہیں بنے اور انھیں اشتہار نہ ملے تو وہ رسالے کو بند کرکے کوئی شریفانہ پیشہ اختیار کرلیں گے ۔ اس اداریے کو پڑھ کر ہم تشویش میں مبتلا ہوگئے ۔ ہم نے سوچا کہ اگر یہ رسالہ بند ہوگیا تو ہمارے مضمون کا کیا ہوگا ۔ ایک دوست سے اس الجھن کا ذکر کیا تو اس نے کہا کہ اس اداریے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، کیونکہ مدیر محترم سال میں دو تین اداریے اس طرح کے ضرور لکھتے ہیں ۔ اگر وہ اس طرح کے اداریے نہ لکھیں تو لوگوں کو کیسے پتہ چلے کہ وہ ادب کی بے لوث خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ پھر ہمارے دوست نے ہمیں مطمئن کرنے کے لئے یہ معقول دلیل بھی پیش کی کہ جب تک تمہارا مضمون شائع نہ ہو تو یہ رسالہ بند کیسے ہوسکتا ہے ۔ رسالے کو بند کرنے کی کوئی معقول وجہ بھی تو ہونی چاہئے ۔ لیکن اس تسلی کے باوجود ہمیں چین نہ آیا ۔ ہم نے بھاگ دوڑ کرکے بشمول اپنے اس رسالے کے دس خریدار بنوادئے کہ رسالہ کم از کم ہمارے مضمون کی اشاعت تک چھپتا رہے ۔ ہم نے مدیر محترم کو اس اداریے کی روشنی میں ایک درد بھرا خط بھی لکھا ۔ انھیں باور کرایا تھا کہ اگر خدانخواستہ انھوں نے رسالے کو بند کردیا تو میرؔ ، غالبؔ ، اقبالؔ وغیرہ وغیرہ کا کوئی نام لیوا تک نہ ہوگا ۔ یہ جملہ لکھتے وقت ہمیں میرؔ اور غالبؔ کے نام سے کہیں زیادہ اپنے نام کی فکر تھی ۔ غرض ہماری اس بے لوث خدمت کے نتیجے میں رسالہ بند نہیں ہوا اور اس کے شمارے آنے لگے ۔ ہم ہر شمارے میں اپنے مضمون کو تلاش کرتے لیکن مضمون دکھائی نہ دیتا ۔ ہم ادب سے ہمیشہ کے لئے مایوس ہونے ہی والے تھے کہ ایک دن گھر پہنچے تودیکھا کہ اس رسالے کا ایک شمارہ آیا رکھا تھا ۔ ہر شمارے کی آمد پر اپنے دل کو دھڑکانا اورجذبات کو بھڑکانا مناسب نہیں ہوتا لہذا ہم نے بڑے اطمینان کے ساتھ رسالے کے لفافے کو پھاڑا ۔ شمارے کو کھولا تو ہماری نظر اپنے نام پر پڑگئی ۔ جس دل کو ہم نے دھڑکنے سے منع کیا تھا اس نے اچانک دھڑکنا شروع کردیا ۔ اپنی بینائی پر یقین نہ آتا تھا کہ کیا واقعی ہم اپنا نام پڑھ رہے ہیں ۔ تھوڑی دیر کے لئے رسالے کو اپنے سے الگ کیا ۔ اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کی ۔ پھر اچانک رسالے کو ایک ہاتھ میں لے کر گھر سے باہر نکل گئے ۔ گھر والوں نے پوچھا بھی کہ ابھی آئے ہو ، پھر کہاں چلے ۔ ہم نے کہا ’’ہمارا انتظار نہ کرنا ، اب ہم ادب میں جاچکے ہیں ۔ جو آدمی ادب میں چلا جاتا ہے اس کے لئے گھر کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی‘‘ ۔ ہم نے اور نہ جانے کیا کیا کہا یہ ہمیں یاد نہیں ۔ ہم گھر سے سیدھے بک اسٹال پر پہنچے ۔ بک اسٹال کے مالک سے کہا اس رسالے کی جتنی کاپیاں اس کے پاس آئی ہوں وہ ہمیں فروخت کردے ۔ بک اسٹال کے مالک نے ہمیں اردو کا رسالہ خریدتے دیکھا تو بولا ’’کیا بات ہے ، آج آپ اردو کا رسالہ خرید رہے ہیں ، مجھے تو اردو کا مستقبل کافی تابناک نظر آنے لگا ہے‘‘ ۔

ہم نے شرماتے ہوئے کہا ’’بات دراصل یہ نہیں ہے۔ اس رسالے کی اتنی ساری کاپیاں اس لئے خریدی جارہی ہیں کہ اس میں میرا مضمون چھپا ہے‘‘ ۔
بک اسٹاک کے مالک نے گھورتے ہوئے کہا ’’کیا کہا ! آپ کا مضمون اس رسالے میں چھپا ہے ۔ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں ۔ مجھے تو اردو کا مستقبل خاصا تاریک دکھائی دینے لگا ہے‘‘ ۔ یہ کہہ کر اس نے رسالے کی دس کاپیاں ہمارے حوالے کردیں ۔
ہم ان کاپیوں کو لے کر سیدھے کافی ہاؤس پہنچے ۔ اس مضمون کو دس بار پڑھا یعنی ہر کاپی نکال کر مضمون کا مطالعہ کیا کہ کہیں کسی کاپی میں ہمارا مضمون ادھورا نہ رہ گیا ہو ۔ جب اچھی طرح اطمینان ہوگیا کہ ہمارا مضمون رسالے کی ہر کاپی میں موجود ہے تو ہم کافی ہاؤس میں اپنے کسی ملاقاتی کی آمد کا انتظار کرنے لگے کہ وہ آئے تو اسے نہ صرف یہ خوش خبری سنائی جائے بلکہ مضمون بھی اس سے پڑھوایا جائے ۔ مگر ہماری بدقسمتی دیکھئے کہ اس دن کافی ہاؤس میں کوئی ملاقاتی نہیں آیا ۔ چار و ناچار بیرے کو بلایا ، اسے پیشگی ٹپ دی ۔ جب اس سے مضمون پڑھنے کو کہا تو پتہ چلا کہ زبان یار من ترکی ہے ۔ انجام کار اسے سامنے بٹھا کر مضمون سنایا ۔ مضمون سننے کے دوران میں وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ہمیں دیکھتا رہا ۔ جب مضمون ختم ہوا تو اس نے کہا ’’حضور ! آج آپ کی طبعیت خاصی ناساز لگتی ہے ۔کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھایئے‘‘ ۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا ۔ ہم رسالے کی کاپیوں کا بنڈل اٹھائے کافی ہاؤس سے باہر آگئے ۔ ایک دوست کے گھر پہنچے تو ہماری خوشی اور حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ اس وقت وہ اسی رسالے کے مطالعہ میں مصروف تھا اور یہ کہ اس کے سامنے بھی رسالے کے تازہ شمارے کی چار کاپیاں پڑی تھیں ۔ ہم نے دل میں سوچا دوست ہو تو ایسا ہو ۔ بڑی گرم جوشی سے ملا ۔ ہمارے ہاتھ میں رسالے کے تازہ شمارے کی کاپیاں دیکھ کر بولا ’’مجھے یقین تھا کہ تم اس شمارے کی کاپیاں ضرور خریدوگے کیونکہ میرے عزیز ترین دوست جو ٹھہرے‘‘ ۔

ہم نے کہا ’’اچھا یہ بتاؤ تمہیں میرا مضمون کیسا لگا؟‘‘
دوست نے کہا ’’کون سا مضمون ؟ کیسا مضمون ؟ کیا اس رسالے میں تمہارا کوئی مضمون شائع ہوا ہے ۔ مجھے تو اس کا پتہ ہی نہیں ۔ میں نے تو اس رسالے کی کاپیاں اس لئے خریدی ہیں کہ اس میں میری پہلی غزل شائع ہوئی ہے ۔ دیکھو صفحہ نمبر 23‘‘ ۔ ہم نے کہا ’’مجھے کیا معلوم کہ اس شمارے میں تمہاری کوئی غزل بھی شائع ہوئی ہے ۔ میں نے تو اس رسالے کی کاپیاں اس لئے خریدی ہیں کہ اس میں میرا مضمون شائع ہوا ہے ۔ دیکھو صفحہ نمبر 62‘‘ ۔
ہمیں اچانک احساس ہوا کہ ہم ایک صحیح دوست کے پاس غلط وقت میں پہنچے ہیں ۔ لہذا رسالے کی کاپیاں اٹھا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ خیر بعد میں ہمیں کئی ناظرین ملے ، دوستوں کو پکڑ پکڑ کر اپنا مضمون پڑھوایا ۔ دوستوں کو اس مضمون کے مطالعے کا معاوضہ ، خاطر تواضع کی صورت میں ادا کیا ۔ ہمیں یاد ہے کہ دو مہینوں تک یہ رسالہ ہماری ذات کا حصہ بنارہا ۔ہم اسے اپنی ذات سے علحدہ نہیں ہونے دیتے تھے۔ بیت الخلاء وہ واحد جگہ تھی جہاں ہم اسے ساتھ نہیں لے جاتے تھے ۔ ورنہ یہ خلوت اور جلوت میں ہمارے ساتھ رہتا تھا ۔ جیسے ہی کوئی نیا دوست ملتا تو ہم رسالہ اس کے ہاتھ میں تھما کر کہتے ’’دیکھو صفحہ 62‘‘ ۔ ہمارے گھر والوں کا کہنا تھا کہ ہم نیند میں بھی دیکھو صفحہ 62 کا ورد کرتے رہتے ہیں ۔ دوست احباب جب اس شمارے سے گھبراکر ہم سے دور بھاگنے لگے تو ہم نے چار و ناچار دوسرا مضمون لکھا ۔

اب دوسرا مضمون کا ذکر سن کر آپ کیا کریں گے ۔ اب ہم ایک ایسے ادیب ہیں جس کے سینکڑوں مضامین نہ جانے کہاں کہاں چھپ چکے ہیں ۔ ہمیں ان رسالوں کے نام بھی یاد نہیں ہیں ۔ اب ہم اردو کے رسالے نہیں خریدتے کیونکہ رسالوں کے مدیر ہمارے پاس اعزازی کاپیاں روانہ کرتے ہیں ۔ ہمیں لمبے چوڑے خط لکھتے ہیں ۔ ہم اردو کی جو بے لوث خدمت انجام دے رہے ہیں اس کی تعریف اپنے خطوط میں کرتے ہیں ۔ ہماری تصویریں بڑے اہتمام سے اپنے رسالوں میں چھاپتے ہیں ۔ لیکن انھیں کیا معلوم کہ جب ہمارا پہلا مضمون چھپا تھا تو ہم پر کیا بیتی تھی اس کی یاد آتی ہے تو اپنے آپ پر ہنسی آتی ہے ۔ پورے پچاس برس بیت گئے لیکن پہلے مضمون کی سوندھی سوندھی یاد اب بھی ذہن میں محفوظ ہے ۔ کبھی کبھی ہمیں یوں لگتا ہے جیسے ہم نے پہلے مضمون کے سوائے کچھ لکھا ہی نہیں ۔ انگریزی کے ایک ادیب نے کہیں لکھا تھا ’’پچاس برس تک لگاتار لکھنے کے بعد ایک دن میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھے لکھنا بالکل نہیں آتا لیکن مشکل یہ تھی کہ اس وقت تک ادیب کی حیثیت سے میں نے عالمگیر شہرت حاصل کرلی تھی ‘‘ ۔ ہمارا بھی یہی حال ہے ۔ اب لوگ ہم سے زبردستی لکھواتے ہیں ۔ سچ پوچھئے تو ہم نے ایک ہی مضمون لکھا تھا اور وہ تھا ہمارا پہلا مضمون ۔ (ایک پرانی تحریر)