جب روٹی چار ہو اور کھانے والے پانچ تب صرف ماں ہی کہتی ہے مجھے بھوک نہیں …!! ماں تیری عظمت کو سلام

سید جلیل ازہر
یقیناً زمانہ ترقی کی سمت گامزن ہے تو دوسری طرف تہذیب اور رشتوں کا احساس زوال کی طرف گامزن ہے۔ ماں جیسی ہستی کا استحصال بڑی تیزی سے نوجوانوں میں سرعت کررہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس دور میں بیت المعمرین کی تعمیر کی ضرورت پیش آنے لگی۔ بیوی کی خوشی کے لئے ماں باپ کو چھوڑ دینا عام ہوتا جارہا ہے۔ جب ماں ہمارے پاس ہوتی ہے تو شاید ہمارے پاس اس کے ہونے کا احساس نہیں ہوتا۔ جوں جوں ہم اور ہمارے والدین بڑے ہوتے جاتے ہیں تو والدین کی طرف ہمارے رویے دلچسپ ہوتے جاتے ہیں۔ جب ہم بچے تھے تو والدین کے دلوں میں ہمارے لئے محبت تھی۔ یہی تھے جنہوں نے ہمیں بولنا سکھایا، کھانا سکھایا، ماں باپ کا یہ تصور کہ ہماری اصل طاقت ہماری نیک اولاد ہے کیونکہ ماں ہی وہ عظیم ہستی ہے جب روٹی چار ہو اور کھانے والے پانچ تب صرف ماں ہی کہتی ہے مجھے بھوک نہیں۔
غم کی چوٹیں زخموں پہ فولاد سے زیادہ کیا ہوگی
اور ماں کی دولت دنیا میں اولاد سے زیادہ کیا ہوگی

جبکہ اولاد کا اندازفکر بڑی تیزی سے بدل رہا ہے۔ کیسے لوگ ہیں جو اپنی خوشیوں کی خاطر بلکہ اپنے عیش و آرام کیلئے بوڑھے ماں باپ کو بیت المعمرین میں چھوڑ کر بیوی بچوں میں خوش رہنے لگے جبکہ ماں باپ کی اصل طاقت ان کی نیک اولاد ہے۔ ماں باپ کمزور، بیمار اور بوڑھے تب ہوتے ہیں جب ان کی اپنی اولاد ہی ان کو پریشان رکھتی ہے۔ ماں باپ کی عزت کرو، ان کی ضروریات کا خیال رکھو تاکہ آپ کی اولاد آپ کی عزت کرے کیونکہ جو آپ کروگے وہی آپ کے ساتھ ہوگا کیونکہ تاریخ گواہ ہے ماں باپ پر ظلم کرنے والے اور ان کو گالیاں دینے والوں کو دنیا میں طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلاء ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ اگر والدین کا انتقال ہوگیا ہو تو ان کیلئے استغفار کریں۔ اگر زندہ ہیں تو معافی مانگیں ورنہ زندگی جہنم سے بھی بدتر ہوجائے گی۔ کئی ایک واقعات سامنے آرہے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنے بوڑھے والدین کو گھر سے نکال دیا۔ اس لئے کہ ضعیف ماں باپ کھانس رہے ہیں، ان کی نیند خراب ہورہی ہے جبکہ ہر جگہ مذہبی جلسوں میں کم از کم یہ بیان تو ان کے کانوں تک پہنچ ہی جاتا ہے کہ ماں کی دعا خالی نہیں جاتی اس کی بدعا ٹالی نہیں جاتی۔

برتن مانجھ کر بھی ماں تین چار بچے پال ہی لیتی ہے مگر تین چار بچوں سے ایک ماں پالی نہیں جاتی جبکہ ماں کی بدعا عرش کو ہلادیتی ہے۔ ماں دنیا کی عزیز ترین ہستی ہے۔ ماں کے بغیر کائنات نامکمل ہے۔ ماں جنت کا دوسرا نام ہے بلکہ عام گھرانوں میں حالات پر ایک نظر ڈالیں تو اندازہ ہوگا کہ گھر کا ایک شخص صبح سے شام تک سخت محنت کے بعد جب گھر آتا ہے تو بھائی پوچھے گا کیا کمایا؟ بیوی پوچھے گی کیا بچایا؟ بچے کہیں گے کیا لائے۔ صرف عظیم ہستی جس کے آگے شہنشاہوں کو جھکنا پڑتا ہے صرف ماں پوچھے گی بیٹا کچھ کھایا؟ ماں تیری عظمت کو سلام۔ اسی لئے دنیا میں کامیابی چاہتے ہو تو ماں باپ کی خدمت کرو کیونکہ اسلام کہتا ہے کہ جس نے ماں باپ کو دکھ دیا اس پر اللہ کی لعنت، اس پر فرشتوں کی لعنت، نہ اس کی دعا قبول نہ اس کا روزہ قبول، نہ اس کا صدقہ قبول۔ اسلام نے جہاں بہت ساری چیزوں کو اہمیت دی ہے اور اس کو اسلام کی اساس قرار دیا ہے وہیں اس نے والدین کی عظمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک پر بھی بہت زور دیا ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ ارشاد فرمایا کہ تم اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی عبادت مت کرو اور اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اور اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا کہ والدین کی خوشی میں اللہ کی رضامندی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہیکہ وہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرے اور جنت میں جانے کا خواہاں ہو تو اسے چاہئے کہ وہ والدین کی عزت کرے ان کی ضروریات کا خیال رکھے۔ اس کے باوجود سماج میں ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں جن ماں باپ نے گیارہ گیارہ بچوں کو پالا تھا ان سے دو ماں باپ پالے نہیں جاتے۔

یہ جانتے ہوئے بھی کہ ماں باپ کی ناراضگی میں رب کی ناراضگی ہے۔ تاریخ کے اوراق اس بات کی شہادت دیتے ہیں جبکہ ماں کی عظمت اور اس کے مقام کا اندازہ عہد نبوی ؐ کے اس واقعہ سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ واقعہ یوں بتایا جاتا ہیکہ ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں چند صحابہ کرام آئے اور عرض کیا کہ فلاں محلے کے ایک نوجوان کی روح نہیں نکل رہی ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا ایسا کیوں ہورہا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ اس کی ماں لڑکے سے ناراض ہے اور وہ اس کو معاف نہیں کررہی ہے۔ اس لئے اس کی یہ حالت ہے۔ آپ ؐ نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ ایک جگہ بہت ساری لکڑیاں جمع کی جائیں۔ چنانچہ صحابہ کرام نے لکڑی جمع کی۔ آپ ؐ اس جگہ تشریف لے گئے اور حکم دیا کہ اس آگ میں ڈال دیا جائے جیسے ہی یہ بات اس کی ماں کو معلوم ہوئی اس نے اپنے بیٹے کی غلطی معاف کردی اور ماں کے معاف کرتے ہی نوجوان کی روح جسم سے الگ ہوگئی اور وہ سکون کی نیند سوگیا۔ پھر آپ ؐ نے فرمایا اگر تو اسکو نہیں معاف کرتی تو اللہ بھی اس کو نہیں معاف کرتا۔ قربان جائیے اللہ کے رسول ؐ نے کس خوبی سے یہ اس نوجوان کو جہنم ہونے سے بچا لیا۔ ساتھ ہی ساتھ اس واقعہ کے ذریعہ امت کو یہ تعلیم بھی دی کہ ماں کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے۔ اپنی زبان کی تیزی ہرگز اس ماں پر مت چلاؤ جس نے بولنا سکھایا۔ ماں کی ممتا کی مثال اس بے زبان چڑیا سے لو جو اپنا گھونسلہ اس درخت کے نیچے تعمیر نہیں کرتی جس درخت کے نیچے سانپ کاھیٹا ہوتا ہے۔ ہماری اخلاقی گراوٹ نے ہمیں تباہ کیا ہے کسی اور نے نہیں کیونکہ رشتوں کے مقام تو دین بتاتا ہے، دین پڑھنے سے نہیں سیکھنے سے آتا ہے۔ ہرکسی کو مرنا ہے ہر جوانی کو ڈھلنا ہے۔ نسل نو انسانیت کی چادر اتار رہی ہے اسی لئے زمین کی برداشت بھی روٹھ جارہی ہیں۔ ہر بیٹے کو اس بات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ سماج میں کیوں بیت المعمرین کی تعمیر ہو۔

ماں باپ کو بوجھ سمجھنے والو! اب بھی وقت ہے سدھر جاؤ کیونکہ رشتے خون کے نہیں احساس کے ہوتے ہیں۔ اگر احساس ہو تو اجنبی بھی اپنے ہوجاتے ہیں۔ اگر احساس نہ ہو تو اپنے بھی اجنبی ہوجاتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے اس لئے کہ کائنات میں کوئی اتنی شدت سے کسی کا انتظار نہیں کرتا جتنا اللہ اپنے بندے کی توبہ کا کرتا ہے۔ ماں کے لئے سب کو چھوڑ دینا لیکن سب کیلئے ماں کو مت چھوڑنا کیونکہ جب ماں روتی ہے تو فرشتوں کو بھی رونا آجاتا ہے۔ راقم الحروف کے مطالعہ میں ہندی شاعر کا وہ واقعہ دل کو دہلا دیا کہ جنگل میں ایک شخص بھجن گاتے ہوئے ڈھول بجا رہا ہوتا اور تین دن مسلسل ڈھول کی تھاپ کے ساتھ ہی وہاں ایک بکری کا بچہ آ کر ٹھہر جاتا۔ اس ڈھول بجانے والے بابا نے تیسرے دن بکری کے بچے سے سوال کیا کہ نہ تو سر سمجھ سکتا ہے نہ ہی تجھے ڈھول کی تھاپ معلوم، آخر اتنی دلچسپی سے تو فوری کیوں آجاتا ہے؟ بکری کا بچہ یہ کہتا ہے کہ نہ میں سر سے واقف ہوں نہ ڈھول سے لیکن ڈھول پر جو چمڑہ لگا ہے وہ میری ماں کے بدن کا ہے اوراس پر جب تھاپ پڑتی ہے تو میں بے چین ہوکر چلا آتا ہوں۔ یہ ہے ماں کے جذبات کی قدر جبکہ کچھ گھرانوں میں تو حالات یہاں تک آ پہنچے ہیں کہ بوڑھے ماں باپ کھانستے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ رات بھر بوڑھا بوڑھی کھانستے ہیں ساری رات نیند خراب ہوگئی۔ اسی لئے انہیں گھروں سے نکالا جارہا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ ماں جب دل سے دعا دیتی ہے تو بڑے بڑے طوفان ٹل جاتے ہیں۔ منور رانا نے کیا خوب کہا

منور ماں کے آگے یوں کبھی کھل کر نہیں رونا
جہاں بنیاد ہو اتنی نمی اچھی نہیں ہوتی
میں نے یہ چند سطور قلمبند کئے ہیں جس کا مقصد یہ نہیں کہ میرا نام اخبار کی زینت بنے یا واہ واہ ہو بلکہ ماں باپ پر ہورہے واقعات نے میرے جذبات کو جھنجھوڑا ہے اور بیت المعمرین کے لفظ سے بے انتہاء تکلیف ہے۔ آج ملت کے ہمدرد بے بس ہیں کہ ایسے والدین کے سہارہ کی خاطر تعمیرات کے لئے اراضی خریدنے پر مجبور ہوگئے۔ اس تناظر میں ان لوگوں کو احساس دلانے کی خاطر میں نے ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے پھر ایک بار کہنا چاہوں گا کہ میں اپنی تعریف نہیں اپنی خامیاں جاننا چاہتا ہوں تاکہ اپنے آپ کو سنوار سکوں اس لئے کہ میں اب بھی میدان صحافت کا ادنیٰ طالب علم ہوں۔ مدیراعلیٰ کی مہربانی ہیکہ آپ حضرات تک مضمون کے ذریعہ پہنچنے اور اپنی اصلاح کا موقع نصیب ہوا۔