ڈاکٹر مجید خان
لندن کے ایک اسکول کی تین طالبات ثمینہ بیگم اور امیری عباس دونوں کی عمریں صرف 15 سال ہے اور تیسری لڑکی خدیجہ سلطانہ جن کی عمر 16 سال کی ہے روزانہ کے معمول کی طرح 17 فبروری کو اسکول جاتی ہیں مگر اسکول جانے کے بجائے وہ لوگ استنبول ترکستان پہنچ جاتی ہیں ۔ نوجوان سرفروشوں کیلئے یہ ایک نیا جوش اور ولولہ داعش کی تائید میں ابھر کر آرہا ہے ۔ ہندوستان سے بھی چند نوجوان براہ استنبول ، عراق پہنچ گئے ہیں اور چند واپس بھی آگئے ہیں ۔ یہ تین لڑکیاں جن کا تعلق اوسط گھرانے سے ہے اور ان کی تصاویر پورے حجاب کے ساتھ دکھائی جارہی ہیں اب لاپتہ ہوگئی ہیں ۔ غالباً انگلستان کی پولیس سے کچھ غفلت ہوگئی ورنہ تین نوجوان لڑکیوں کا استنبول کا سفر ان کے ذہن میں شکوک پیدا کرنا ضروری تھا ۔ ترکی کی پولیس کو دن دن بعد مطلع کیا گیا اور جب تک وہ غالباً عراق کی سرحد پار کرچکی تھی (BBC News – Video) ۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی نفسیات جو بدل رہی ہیں وہ حیرت انگیز ہوتی جارہی ہیں ۔
کئی نوجوان باغی لڑکوں کو نفسیاتی رہنمائی کیلئے لایا جاتا ہے ۔ ان کی ضد ہٹ دھرمی اور تشدد والدین کے قابو سے باہر ہوجاتا ہے ۔ اکثر یہ سیل فون کے معاشقے کا نتیجہ ہوا کرتا ہے ۔ سیل فون کی نئی نئی خوبیوں کے استعمال سے جس میں What’s App اور کیمرہ ہے ان لوگوں کے بے شمار حمایتی پیدا ہوجاتے ہیں جیسے جیسے ٹکنالوجی ترقی کررہی ہے دنیا چھوٹی ہوتی جارہی ہے اور سوشیل نٹ ورک کا استعمال بے تحاشہ بڑھ رہا ہے ۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق ایک سال پہلے اسکاٹ لینڈ سے ایک لڑکی محمودہ 20 سالہ عراق پہنچ کر داعش میں شامل ہوگئی اور اس کی شادی بھی کردی گئی ۔ سنا کہ یہ لڑکی داعش کی بڑی سرگرم نئے ارکان کو راغب کرنے والی دہشت گرد خاتون ہے ۔ سوشیل میڈیا کے ذریعے آپ کے سیل فون سے آپ پر اثر انداز ہوسکتی ہے اور نوجوان لڑکیوں کو اپنی تنظیم میں بھرتی کرتی جاتی ہے ۔ اس پس منظر میں ہم اور آپ کو چاہئے کہ اپنے اپنے دامن میں جھانکیں اور ان نئے مسائل کو سمجھ کر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی کوشش کریں یعنی نفسیاتی اصلاح مزاج پر غور کریں ۔
مغربی ممالک جو دہشت گردی کا مقابلہ کررہے ہیں اور ہر قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار کررہے ہیں مگر سوشیل میڈیا سے ان کو بھی خطرہ لگا ہواہے ۔ اب زمانہ تباہ کن ہتھیار سے لڑنے کا نہیں رہا ۔ مشرق وسطی کی حالیہ جنگیں اسکا ثبوت ہے ۔ ورنہ کس طرح سے راتوں رات دہشت ناک داعش منظر عام پر آکر ساری دنیا کا مقابلہ کررہی ہے ۔
دہشت گردی کی نفسیات سمجھنے پر پتہ چلا رہا ہے کہ یہ لوگ نوجوانوں کو ہموار کررہے ہیں اور ان نوخیز اور زرخیز ذہنوں پر نئے خطرناک اور تباہ کن نظریات مسلط کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ انگلینڈ کی اوپر بیان کی ہوئی تین لڑکیاں جو وہیں پیدا ہوئی تھیں غالباً روزمرہ کی قدامت پسند زندگی سے بیزار ہو کرکچھ نہ کچھ جان جوکھم کارنامہ انجام دیتی ہوئی عالمی شہرت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجانے کی خواہش کرتی ہونگی ۔ یہ بھی ایک نشہ ہے ۔ خاتون پولیس ، ملٹری اور جیل وغیرہ کاڈر و خوف ان نوجوانوں میں سے جاتا رہا ۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ان نفسیات کے ماہرین کی مدد مانگی جارہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح ان معصوم کنولے ذہنوں تک پہنچا جائے تاکہ وہ بیزارگی کا شکار نہ ہوں ۔ اسکولوں کے سخت نظم اور مسابقتی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی نفسیاتی رہنمائی بھی ہونی چاہئے ۔ روایتی تعلیم سے ان کو کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔ اس کے لئے باضابطہ طور پر کونسلنگ کے مراکز کھولے جارہے ہیں ۔ والدین اپنی والاد کی بیزارگی پر نظر رکھیں اور ان سے مشفقانہ سلوک رکھیں ورنہ وہ باغیانہ رویہ اختیار کرسکتے ہیں ۔
مغربی طرز کی کونسلنگ حیدرآباد کی مسلمان لڑکیوں کیلئے بیحد مفید ثابت نہیں ہوسکتی ہے بلکہ بیزارگی میں اضافہ کرسکتی ہے ۔ ماہرین نفسیات کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اپنی اولاد کو سمجھیں اور اپنے رویے پر بھی غور کریں ۔ اگر کوئی نوجوان لڑکی یہ دیکھتی ہے کہ والد کا سلوک ماں کے ساتھ ظالمانہ ہے اور وہ آپ کی ماں کو بری طرح سے زدوکوب کرتا ہے تو ظاہر ہے آجکل کے حساس ذہنوں میں بغاوت خاموش نہیں بیٹھے گی ۔ انتقام کا ایک ذریعہ اجتماعی بھی ہوسکتا ہے جس کو ہم دیکھ رہے ہیں ۔ ساری دنیا میں نوجوانوں کی خودکشیوں کی وارداتیں بہت بڑھ رہی ہیں ۔ اب نوجوان انتقامی جذبے اور اپنی خواہش شہادت کو جوڑتے ہوئے دہشت پسندی کا راستہ اختیار کررہے ہیں ۔ 15 سالہ لڑکوں میں یہ روش ان کی موجودہ زندگی سے بیزارگی اور جام شہادت پینے کا حوصلہ صرف ماہر نفسیات ہی سمجھ سکتا ہے ۔ اگر ان معصوم نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ذہن کسی پروپگنڈے کے تحت جب اتنی آسانی سے متاثر ہوسکتے ہیں تو امید کی جاتی ہے کہ نفسیاتی رہنمائی بھی صحیح وقت پر اتنی ہی سودمند ثابت ہوسکتی ہے ۔ ’’جہادی جان‘‘ کون ہے ۔ داعش کے تعلق سے ٹیلیویژن پر ایک قوی ہیکل نقاب پوش کالا لباس سر سے پیر تک پہنا ہوا ۔ ہاتھ میں تیز چاقو لئے ہوئے گورے امریکیوں کے گلے کاٹتا ہوا دکھایا جاتا ہے ۔ یہ سماں دیکھتے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس سے زیادہ ہیبت ناک واقعات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ جہادی جان کون ہے ۔ وہ ایک کویتی ہے جو انگلستان میں بس گیا تھا اور اب عراق پہنچ کر داعش کا ایک ناقابل فراموش نشان بن گیا ہے ۔ہر شخص کو اس کی زندگی کی تفصیلات جاننا چاہئے ۔ سیاست میں اسکی تفصیلات آرہی ہیں ۔ CNN میں اس کے ساتھی کا ایک تفصیلی انٹرویو دکھایا گیا ۔ اس کے دیکھنے کے بعد کیسے کسی اچھے انسان کی نفسیات دہشت گردی میں بدلتی ہے اس کا صحیح اندازہ ہوتا ہے ۔ بہرحال آج کل کے سوشیل نٹ ورکنگ کے ماحول میں ان واقعات سے باخبر رہنا ناگزیر ہوتا جارہا ہے ۔ حال ہی میں face book کا لکھا قتل کا باعث بنا ۔
میری درخواست ہے کہ ہر خاندان کو ’’جہادی جان‘‘ کی تفصیلات جو آرہی ہیں ان کو دلچسپی سے پڑھے اور جہادی جان کے جیسی شخصیت انکی اتنی ظالمانہ نہیں تو کثیر انداز میں ہمارے باغی نوجوانوں میں بھی ابھر کر آسکتی ہے ۔ معلومات کا حاصل کرنا ناگزیر ہوچکا ہے ۔