جاوید اختر : شخص اور شاعر

ڈاکٹر محمد فیض احمد
جاوید اختر 17 جنوری 1945 ء کو خیرآباد سیتاپور ، اترپردیش میں والد جاں نثار اختر اور والدہ صفیہ اختر کے مذہبی ، علمی اور ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی ۔ گوالیار ، لکھنؤ ، علی گڑھ اور بھوپال کی درس گاہوں میں تعلیم پائی ۔ باوجود اس کے اسکول کی کتابوں سے اکتاہٹ محسوس کرتے مگر انہیں کامیابی ملتی رہی ۔ ناولوں اور فلمی گانوں سے خاص شغف رکھتے تھے ۔ جاوید اختر کی ماں کے وصال کے بعد والد سے باغیانہ روش اور کشیدہ تعلقات نے انہیں گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا ، زندگی کی ان ہی تلخیوں نے انہیں (Atheists) بنا کے چھوڑا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جاوید اختر صوفیہ کالج لکھنؤ سے بی اے کررہے تھے ۔ پھر ایسا وقت بھی آیا کہ وہ بھوپال کالج کے کمپاؤنڈ میں ایک خالی کمرہ میں جہاں کلاس ختم ہونے کے بعد دو بنچوں پر بستر جما کر زندگی کی خوش سلیقگی سیکھنے لگے ۔ جاوید اختر نے یہ سنگلاخ زندگی اپنے لئے خود چنی تھی کیونکہ وہ اپنے گھر سے الگ ہوچکے تھے اس کی وجہ میں صرف ذہنی، اخلاقی اور نفسیاتی باغیانہ پن سے تعبیر کروں گا ۔ جاوید اختر کی اردو شاعری کا شغف وراثتی ہے ۔ ان کے خاندان میں والد جاں نثار اختر معروف اردو شاعر  اور فلمی نغمہ نگار ، گلوکارہ ، معلمہ اور مصنفہ والدہ صفیہ احتر ، دادا مرتضی خیرآبادی شاعر اور دادجان کے بڑے بھائی بسمل خیرآبادی اور ان کے پرداد اسلامی اسکالر فضل حق خیرآبادی جو 1957 کی پہلی جنگ آزادی کے مجاہد تھے ۔ یہ ان کا خاندانی منظر نامہ ہے اس کے باوجود انہوں نے اپنے اصولوں اور خودداری کے تئیں زندگی کی پریشان کن حالات کو چنا ، یہ تمام سروکار اسباب و علل اس راہ کی طرف لے جانے والے تھے جو آگے چل کر ایک باوقار اردو شاعر ، ہندی فلموں کے معروف گیت کار ، اسکرپٹ رائٹر کے لئے تخلیقی اور فنکارانہ مواد فراہم کررہے تھے ۔

جاوید اختر اپنے والد کے ہاں 1964ء کے عرصہ میں ممبئی آئے تو سہی لیکن وہ ان کے ہاں ٹھہر نہیں سکے ، ممبئی جیسے practical شہر میں ایک اکیلا شخص اور وہ بھی قلاش ۔ اس ناسازگار حالات زندگی کو سمجھنے کے لئے یہ واقعہ سنئے : جاوید اختر نے ایک چھوٹی سی فلم میں سو روپئے مہینے پر ڈائیلاگ لکھے ، کبھی اسسٹنٹ بنے ، جب دادر لیک پروڈیوسر کے آفس پر اپنے کام کے پیسے مانگنے گئے ، جہاں ان سے کامیڈی سین لکھوائے گئے تھے اس کام میں ان کا نام مخفی تھا ، نام تو مشہور رائٹر کے لئے مختص رہا ۔ جب وہ وہاں پہنچے تو آفس مقفل تھا ۔ واپس باندرہ جانا تھا جو کافی دور تھا ۔ جیب میں پیسے بھی اتنے کہ بس ٹکٹ لے لو یا کچھ کھالو ۔ آخرکار چنے خرید کر جیب میں بھرے اور باندرہ کے لئے پیدل سفر کیا ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی نٹراج اسٹوڈیو کے کمپاؤنڈ اور مہاکالی گپھاؤں میں جگدیش نامی دوست کے ساتھ ایک لمبا وقت گذارا اور اندھیری اسٹیشن کے پاس فٹ پاتھ پر سکنڈ ہینڈ کتابیں فروخت کرنے والے دوست سے مستعار لی کتابوں کو شب بسری کے لئے پڑھنا ان کا مرغوب مشغلہ تھا ۔ ایسے حالات مفلسی میں اپنے خوابوں کی تعبیر کا جذبہ کبھی ماند نہ پڑنے دیا اسی جذبہ نے انہیں آج ایک کامیاب انسان اور دانشور بنادیا ۔ فرماتے ہیں۔
غلط باتوں کو خاموشی سے سننا حامی بھرلینا
بہت ہیں فائدے اس میں مگر اچھا نہیں لگتا
مجھے دشمن سے بھی خودداری کی امید رہتی ہے
کسی کا بھی ہو سر قدموں میں سر اچھا نہیں لگتا
بلندی پر انہیں مٹی کی خوشبو تک نہیں آتی
یہ وہ شاخیں ہیں کہ جن کو شجر اچھا نہیں لگتا
یہ کیوں باقی رہے  ، آتش زنو! یہ بھی جلاڈالو
کہ سب بے گھر ہوں اور میرا ہو گھر اچھا نہیں لگتا

جاوید اختر اپنی خودداری اور اصولوں پر ہمیشہ کاربند رہے ۔ کبھی بھیڑ میں گم ہونا گوارا نہیں کیا ۔ حالات سے سمجھوتہ نہیں کیا ۔ یہی ان کی زندگی کا اثاثہ ہے ۔ لاکھ مجبوریاں سہی کبھی اپنا سرخم ہونے نہیں دیا ۔ مفلسوں ، بے کسوں اور بے سہارا لوگوں کی زندگی وہ خود بھی جئے اور ان کے لئے نمائندگی بھی کی ۔ حالات سے ڈرے نہیں لڑتے رہے ، روٹی کی محتاجی تھی پر کسی کے آگے مجبور بن کر کھڑا رہنا پسند نہیں کیا ، آرزوؤں ، تمناؤں ، خوابوں کی تعبیر 1969 میں ملی ۔ سیتا اور گیتا جیسی کامیاب فلم کا حصہ بنے ۔ یہیں ہنی ایرانی سے ملاقات بھی ہوئی ، شادی بھی ہوئی اور دو سال میں بیٹی زویا اور بیٹا فرحان ہوئے ۔ آخر کار انہیں کامیاب زندگی اور اس کی خوشیاں مل ہی گئیں ۔ پھر شبانہ اعظمی جیسی ترقی پسند ذہن رکھنے والی خاتون سے رشتہ جڑا ، اپنی جوڑی کے ساتھ تقریباً 24 کامیاب فلموں کی اسکرپٹ لکھی اور دل کو چھونے والی نغمہ نگاری جاری ہے ۔ اور یوں ان پر زندگی مہربان بنتی رہی مگر جاوید اختر اپنی ان تلخیوں کو بھلا نہ پائے جس سے ہو کر انہوں نے ان منازل کے زینے طے کئے ہیں ۔ زندگی کی ان ہی سچائیوں کی غماز غزل کے چند اشعار پیش ہیں :

برسوںکی رسم و راہ تھی اک روز اس نے توڑدی
ہوشیار ہم بھی کم نہیں ، امید ہم نے چھوڑ دی
اس نے کہا کیسے ہو تم ، بس میں نے لب کھولا ہی تھا
اور بات دنیا کی طرف جلدی سے اس نے موڑ دی
جاوید اختر کی عملی زندگی میں پیش آئے حوادث زندگی کی بابت انہوں نے رشتوں کی گرہوں کو جو انہیں خوفزدہ کرتی تھیں اسے اپنوں نے جوڑا تاکہ زندگی تھمی رہے لیکن زندگی اپنی عقل و آگہی اور تقاضے ساتھ لاتی ہے ۔ علاوہ ازیں حوداث سیاست و حکمرانی بھی ایک ناگہانی حالات بناتی جارہی ہے ۔ اس کے وجود سے انکار کرنے والوں کے وجود سے انکار کیا جارہا ہے ۔ جاوید اختر کو تاحال ان کی علمی و ادبی خدمات کے عوض پدماشری 1999 ، پدما بھوشن 2007 ، اور لاوا (اردو شعری مجموعہ) 2013 کیلئے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے ۔ ان کا ادبی سفر ہنوز جاری ہے ۔