جانے کس وقت کوچ کرنا ہو

رشیدالدین

 

بہار …آج فیصلہ کا دن
عدم رواداری…مودی خاموش کب تک

قارئین جس وقت یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے، ٹی وی اسکرین پر بہار اسمبلی چناؤ کے نتائج آنے شروع ہوجائیں گے۔ بہار اگرچہ محض ایک ریاستی اسمبلی کا الیکشن ہے لیکن ملک کے موجودہ حالات کے پس منظر میں اس کی اہمیت کسی منی الیکشن سے کم نہیں کیونکہ نریندر مودی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کی دیڑھ سالہ کارکردگی پر عوامی ریفرنڈم کا وقت آچکا ہے۔ انتخابی نتائج بھلے کچھ ہوں لیکن یہ بات طئے ہے کہ نتائج ملک کی سیاست کو نیا رخ دیں گے اور قومی سطح پر نئی سیاسی صف بندیوں کا آغاز ہوگا۔ بہار کے نتائج نہ صرف حکومت بلکہ بی جے پی پر بھی اثر انداز ہوں گے۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ نریندر مودی اور امیت شاہ کی قیادت کیلئے یہ نتائج کسی چیلنج سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر کی نگاہیں بہار کے عوامی فیصلہ پر ٹکی ہوئی ہیں۔ نریندر مودی جو ملک سے زیادہ بیرون ملک شہرت کی بلندیوں پر تھے، نتائج کے بعد اندرون ملک مقبولیت کا پول کھل جائے گا۔ بہار جو کبھی بی جے پی کیلئے زرخیز زمین کی طرح تھی اور 2014 کے انتخابات میں لوک سبھا کی اکثریتی نشستوں پر عوام نے بی جے پی کو کامیابی دی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسمبلی چناؤ میں یہی رجحان برقرار رہے گا؟ جس طرح عام انتخابات میں بہار کے رائے دہندے مودی کی لفاظی اور تک بندی کے فریب میں گرفتار ہوچکے تھے، کیا مودی کا وہی جادو دوبارہ بہاریوں پر چل پائے گا۔ رائے دہی کے آخری مرحلہ کی تکمیل کے بعد جو اگزٹ پول کے نتائج منظر عام پر آئے ہیں، انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کی دل کی دھڑکن کو تیز کردیا ہے۔ اگزٹ پول کے متضاد نتائج سیاسی مبصرین کیلئے الجھن کا باعث بن چکے ہیں ۔ جو بھی اگزٹ پول نتائج عوامی رجحان کی شکل میں منظر عام پر آئے ، ان میں زیادہ تر نتیش۔لالو اتحاد کی کامیابی اور بہار میں چیف منسٹر کی حیثیت سے نتیش کمار کی ہیٹ ٹرک کی پیش قیاسی کر رہے ہیں۔ جملہ 11 اگزٹ پول نتائج منظر عام پر آئے جن میں 4 میں نتیش لالو اتحاد کو اکثریت بتائی گئی جبکہ صرف ایک پول کا نتیجہ این ڈی اے کے حق میں آیا۔ 6 اگزٹ پول نتائج میں دونوں اتحاد کے درمیان کانٹے کی ٹکر کا امکان ظاہر کیا گیا ہے ۔ اگزٹ پول کے نتائج کو دونوں اتحاد اپنے حق میں قرار دے رہے ہیں لیکن بی جے پی کی دعویداری میں کامیابی کے جذبہ کی کمی صاف طور پر جھلک رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی قیادت خود بھی امکانی نتائج سے مطمئن نہیں ہے ۔ جس طرح آخری مرحلہ کی رائے دہی سے قبل امیت شاہ نے یہ کہتے ہوئے شکست کو تسلیم کرلیا تھا کہ نتائج سے مرکز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اوریہ نریندر مودی حکومت پر ریفرنڈم نہیں ہے۔ بی جے پی اور اس کے قائدین بھلے ہی کچھ کہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مودی اور امیت شاہ نے بہار کے چناؤ کو اپنے لئے وقار کا مسئلہ بنالیا تھا۔

بہار میں انتخابی سرگرمیوں کے درمیان مہاراشٹرا اور اترپردیش کے مجالس مقامی انتخابات میں بی جے پی کی شکست  ، بہار میں بھی خطرہ کی گھنٹی ہے۔ مودی اور امیت شاہ نے جس طرح ساری طاقت جھونک دی تھی، اس اعتماد سے کامیابی اور ناکامی دونوں صورتوں میں یہی دونوں ذمہ دار ہوں گے۔ بیشتر سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ملک میں بڑھتی عدم رواداری، نفرت کے سوداگروں کو کھلی چھوٹ ، نریندر مودی کی خاموشی، نفرت کے پرچارکوں پر قابو پانے میں ناکامی اور مصنفین ، قلمکاروں ، فلم سازوں ، مورخین ، سائنسدانوں اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں کی ایوارڈ واپسی کے تسلسل سے یقینی طورپر بی جے پی کے امکانات متاثر ہوں گے ۔ مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے واقعات اور اشتعال انگیز بیانات نے ایک طرف مودی کو بے بس ثابت کردیا ہے تو دوسری طرف ملک کو ہندو راشٹرا میں تبدیل کرنے کے ناپاک عزائم اور منصوبوں کو بے نقاب کردیا۔ بہار میں کمزور طبقات کی اکثریت ہے ، وہاں آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے مخالف تحفظات بیان نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔ اگر بی جے پی کامیاب ہوتی ہے تو اسے صرف نریندر مودی کا کارنامہ سمجھا جائے گا اور اگر شکست ہوگی تو  موہن بھاگوت اور دیگر نفرت کے چارک ذمہ دار ہوں گے۔ نریندر مودی نے لوک سبھا انتخابات سے قبل تمام کو ترقی ، خوشحالی اور اچھے دن کے جو خواب دکھائے تھے ، وہ بکھر چکے ہیں۔ لہذا مرکزی حکومت کا ایسا کوئی کارنامہ نہیں کہ جس بنیاد پر عوام بی جے پی کی تائید پر مجبور ہوجائیں ۔ بی جے پی بہار میں کسی معتبر اور مقبول چہرہ کے بغیر انتخابات لڑ رہی تھی، اس کے پاس چیف منسٹر کے عہدہ کا کوئی چہرہ نہیں تھا۔ سشیل کمار مودی کو عوام نتیش کمار سے بہتر چیف منسٹر تسلیم کرنے تیار نہیں۔ بہار میں انتخابی مہم کے لئے جن قائدین کو اسٹار کیمپینر کے طور پر شامل کیا گیا تھا، ان میں تین اہم چہرے ایل کے اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی اور شتروگھن سنہا انتخابی مہم سے غائب تھے۔ یہی وجہ ہیکہ نریندر مودی نے  انتخابی مہم کی کمان سنبھالی اور بہار میں 31 ریالیوں سے خطاب کیا۔ کسی اسمبلی چناؤ میں وزیراعظم کی جانب سے اس قدر زائد ریالیوں سے خطاب یقیناً پہلی مرتبہ ہی ہوگا۔ سونیا گاندھی نے 4 اور راہول گاندھی نے 12 ریالیوں سے خطاب کیا۔ سیکولر ووٹ کی تقسیم روکنے کیلئے عظیم اتحاد کے دو اہم اسٹار کمپینر نتیش کمار اور لالو یادو نے علی الترتیب 230 اور 251 انتخابی جلسوں سے خطاب کیا۔ چونکہ بی جے پی کیلئے کرو یا مرو کی صورتحال تھی لہذا مجموعی طور پر 850 ریالیوں کا اہتمام کیا گیا جن میں امیت شاہ نے 85  اور سشیل کمار مودی نے 182 ریالیوں سے خطاب کیا۔

اگزٹ پول سرگرمیوں سے جڑے تجزیہ نگاروں کو اندیشہ ہے کہ دہلی کی طرح منفی انتخابی مہم بہار میں بی جے پی کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگی۔ لوک سبھا میں ترقی کے ایجنڈہ سے شاندار کامیابی کے بعد بی جے پی کو 4 ریاستوں میں اقتدار حاصل ہوا لیکن دہلی میں عام آدمی پارٹی قیادت پر شخصی حملوں کے ساتھ چلائی گئی منفی انتخابی مہم نے بی جے پی کو صرف دو نشستوں تک محدود کردیا ۔ بہار کی مہم میں بھی وزیراعظم، بی جے پی صدر اور دیگر این ڈی اے قائدین نے اپنی انتخابی مہم میں نتیش کمار ، لالو پرساد یادو اور سونیا گاندھی کو نشانہ پر رکھا اور جس انداز میں تنقیدیں کی گئیں اسے عوام نے پسند نہیں کیا۔ چونکہ دہلی میں 18 ماہ کی حکومت کا کوئی کارنامہ نہیں ہے ، لہذا نریندر مودی ، امیت شاہ اینڈ کمپنی نے منفی مہم کا راستہ اختیار کیا۔ بی جے پی نے اس بات کو بھی فراموش کردیا کہ 8 برس تک وہ نتیش کمار کے ساتھ اقتدار میں تھی اور اس دوران جو بھی ترقیاتی کام انجام دیئے گئے اس میں اپنی حصہ داری ثابت کرنے کے بجائے نتیش کمار کے سارے دور کو جنگل راج قرار دیا۔ بہار میں شکست کی صورت میں پارٹی قیادت اور خود وزیراعظم پر بھی سوال اٹھ سکتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں اترپردیش، مغربی بنگال، آسام اور کیرالا میں انتخابات ہیں، وہاں مخالف بی جے پی لہر کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ شکست کی صورت میں یہ ثابت ہوجائے گا کہ عوام لفاظی اور خوش کن باتوں پر بھروسہ کرنے والے نہیں ہیں بلکہ وہ ترقی اور اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ عظیم اتحاد کی کامیابی کی صورت میں لالو پرساد کے جذبہ ایثار کا اہم رول رہے گا جنہوں نے قیادت پر دعویداری پیش نہیں کی۔ اتحاد میں پھوٹ کیلئے بی جے پی کی لاکھ سازش کے باوجود وہ نتیش کمار کے پیچھے ایک چٹان کی طرح کھڑے رہے۔ بہار میں انتخابی مہم کے عروج کے ساتھ ملک میں نفرت اور عدم رواداری کی لہر بھی عروج پر تھی ۔

دادری میں معصوم و بے گناہ اخلاق کے قتل کا غم ابھی تازہ تھا کہ منی پور میں حشمت علی کو دادری کی طرز پر قتل کردیا گیا۔ نفرت کی لہر اب ہندوستان کے طول و عرض تک پہنچ چکی ہے۔ نفرت کے پرچارک ابھی تک صرف زبان سے آگ اگل رہے تھے، لیکن نریندر مودی سرکار کی خاموشی کے سبب وہ ہاتھ چلانے لگے ہیں۔ مودی ان پر قابو پانے میں یکسر ناکام ہوگئے ۔ حالانکہ انہوں نے اس طرح کی سرگرمیوں پر روک لگانے کا قوم سے وعدہ کیا تھا ۔ ایسا لگتا ہے جیسے نریندر مودی سرکار نفرت اور عدم رواداری کے برانڈ ایمبسیڈرس کے رحم و کرم پر ہے۔ آخر نریندر مودی ملک کو کس راستہ پر لیجانا چاہتے ہیں؟ نفرت کی مہم کی انتہا ہوگئی کہ مختلف شعبوںکی نامور شخصیتوں کو قومی ایوارڈس کی واپسی کا اعلان کرنا پڑا۔نفرت اور عدم رواداری کے خلاف اظہار خیال پر بالی ووڈ کے بادشاہ شاہ رخ خاں کو بھی پاکستانی ایجنٹ قرار دیا گیا۔ انہیں پاکستان جانے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔ بی جے پی اور سنگھ کے جو قائدین اس طرح کے بیانات دے رہے ہیں، ان کی حب الوطنی سے زیادہ شاہ رخ خاں نے دنیا بھر میں خود کو محب وطن ثابت کیا ہے۔ نریندر مودی کے ہمنوا رام دیو نے شاہ رخ خاں کو ساری دولت وزیراعظم ریلیف فنڈ میں جمع کرنے کی صلاح دی۔ رام دیو پہلے اپنی کالی کمائی کا تو عوام کے سامنے حساب دیں۔ کالے دھن اور دیگر معاملات میں الزامات کا سامنا کرنے والے رام دیو کا انجام بھی دوسرے ڈھونگی باباؤں کی طرح ہوتا ، بشرطیکہ ان پر مودی کا شفقت بھرا ہاتھ نہ ہوتا۔ دادری ، منی پور اور شاہ رخ خاں کے خلاف بیان بازی پر مودی کچھ بھی کہنے سے بچتے رہے ہیں۔ کیا وزیراعظم کی حیثیت سے وہ اپنے حلف اور ذمہ داری کو بھلا چکے ہیں؟ شاہ رخ خاں کسی ایک مخصوص طبقہ یا مذہب کا ہیرو نہیں جیسا کہ نریندر مودی ہیں بلکہ شاہ رخ خاں ملک کے ہر طبقہ اور مذہب کے ماننے والوں کا ہیرو ہے، اس نے دنیا میں ہندوستان کا نام روشن کیا۔ اگر نریندر مودی اور شاہ رخ خاں کو ایک مقام پر کھڑا کیا جائے تو  ہجوم نریندر مودی سے زیادہ شاہ رخ خاں کی طرف دوڑے گا۔ نریندر مودی صرف 33 فیصد ووٹ اور وہ بھی منقسم اپوزیشن کے سبب ہیرو بن گئے جبکہ شاہ رخ خاں 100 فیصد عوام کا ہیرو ہے۔15 اگست 2014 ء کو وزیراعظم کی حیثیت سے لال قلعہ کی فصیل سے پہلے خطاب میں نریندر مودی نے فسادات اور نفرت کی مہم پر 10 سال تک امتناع کا اعلان کیا تھا لیکن 18 مہینے بھی اس کی پابندی نہیں کی جاسکی۔ 15 اگست 2015 ء کو مودی نے لال قلعہ سے وہی بات دہرائی اور پھر پارلیمنٹ میں حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے دستوری ذمہ داری نبھانے کا وعدہ کیا تھا لیکن آج تک انہوں نے اپنی ذمہ داری نبھانے کا کوئی نمونہ پیش نہیں کیا۔ امیت شاہ نے بعض قائدین کو طلب کرتے ہوئے نفرت پر مبنی بیانات سے باز رہنے کی تلقین کی لیکن اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ فوربس نے نریندر مودی کو دنیا کی طاقتور شخصیتوں میں شامل کیا ہے لیکن یہ اعزاز ہندوستان میں کسی مذاق سے کم نہیں کیونکہ نریندر مودی انتہائی کمزور وزیراعظم کی حیثیت سے ابھرے ہیں اور وہ نہ صرف نفرت کے سوداگروں کے خلاف اظہار خیال سے بچ رہے ہیں بلکہ ان پر کنٹرول کرنا ان کے بس میں دکھائی نہیں دیتا۔ بہار چناؤ کے پس منظر میں افتخار نکہت کا یہ شعر ہمیں یاد آگیا   ؎
جانے کس وقت کوچ کرنا ہو
اپنا سامان مختصر رکھئے