جامع مسجد دہلی بھی سیاست کے نرغے میں

ظفر آغا
شمالی ہندوستان میں ان دنوں دہلی کی جامع مسجد زیر بحث ہے ۔ مغل بادشاہ شاہجہاں کی بنائی اس عالیشان و تاریخی مسجد میں نائب امام کا مسئلہ زیر بحث ہے ۔ دراصل دہلی کی جامع مسجد وہ واحد مسجد ہے جس کی امامت پشت در پشت بخاری خاندان میں بادشاہ شاہجہان کے وقت سے چلی آرہی ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جب شاہجہانی دور میں جامع مسجد دہلی بن کر تیار ہوئی تو بادشاہ نے خاص طور پر اس وقت کے بخارا کے بادشاہ کو لکھا کہ وہ کسی سید خاندان سے جامع مسجد دہلی کی امامت و خطابت کے لئے ایک ایسے فرد کو دہلی بھیج دیں جو فرائض امامت بخوبی انجام دے سکے ۔ اب ذرا غور فرمایئے کہ شاہجہان کے دور کی دہلی کوئی معمولی دہلی تو تھی نہیں ۔ اس وقت کی مغلیہ سلطنت کا ڈنکا ساری دنیا میں بج رہا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ علم و دولت دونوں اعتبار سے اس دور کے دہلی کا رتبہ آج کے واشنگٹن اور لندن جیسے شہروں سے کم نہیں تھا ۔ ایسے عظیم الشان شہر کی عالیشان مسجد جہاں خود بادشاہ آکر نماز جمعہ پڑھا کرتا تھا ، ایسی مسجد کی امامت کوئی معمولی شخص تو کر نہیں سکتا تھا ۔ پھر اس دور کے دہلی میں ایک سے ایک عالم موجود تھے ۔ اسکی امامت کرنا کسی عام شخص کا کام نہیں ہوسکتا تھا ۔ ان تمام باتوں کا خیال رکھتے ہوئے شاہجہان نے بخارا کے حاکم وقت سے یہ التجا کی کہ وہ اسکی بنائی ہوئی خاص جامع مسجد کے لئے ایک حسب حیثیت امام چن کر بھیج دے ۔ بخارا کے بادشاہ نے خود اپنے داماد سید عبدالغفور بخاری کو اس فرض کی انجام دہی کے لئے شاہجہاں کے حضور روانہ کیا ۔ شاہجہان نے سید عبدالغفور بخاری کو جامع مسجد دہلی کی امامت کے لئے اپنے حکم سے نامزد کیا اور بروز جمعہ خود ان کی امامت میں نماز ادا کرکے جامع مسجد دہلی میں نماز کی شروعات کی ، جو صدیوں سے آج بھی جاری ہے ۔ تب سے آج تک دہلی کی جامع مسجد کی امامت اسی سید بخاری خاندان میں پشت در پشت چلی آرہی ہے ۔ چنانچہ اسی سلسلہ میں سید احمد بخاری جامع مسجد دہلی کے پیش امام ہیں اور پچھلے ہفتے اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے سید احمد بخاری نے اپنے چھوٹے بیٹے سید شعبان بخاری کو جامع مسجد دہلی کا نائب امام نامزد کیا ۔

یہ خبر جیسے ہی عام ہوئی کہ سید احمد بخاری اپنے بیٹے سید شعبان بخاری کو جامع مسجد دہلی کا نائب امام نامزد کررہے ہیں تو فوراً یہ معاملہ نہ صرف زیربحث آگیا بلکہ اس کو لے کر باقاعدہ سیاست بھی شروع ہوگئی ۔ ایک صاحب جو مسلمانوں میں سے ہی ہیں اور ان کے علاوہ دو ہندو افراد (جن کے بارے میں یہ الزام ہے کہ وہ بی جے پی کی جانب سے کھڑے کئے گئے ہیں) دہلی جامع مسجد کی نائب امامت کو دہلی کورٹ لے کر دوڑ پڑے ۔

انہوں نے عدالت میں رٹ دائر کرکے اس بات پر فیصلہ کرنے کی اپیل کردی کہ جامع مسجد دہلی کی امامت خاندانی اور موروثی نہیں ہوسکتی ہے ۔ لب لباب یہ کہ جامع مسجد دہلی کی امامت کا مسئلہ عدالت تک پہنچ گیا ۔ افسوس کہ اب ہندوستانی مسلمانوں کے ایسے گئے گزرے دن آگئے کہ وہ اپنی مسجدوں کی امامت کا فیصلہ خود کرنے کے بجائے عدالتوں سے کرائیں گے ۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ اس معاملے کو کھینچ کر عدالت تک لے گئے وہ جامع مسجد دہلی کے نام پر گھٹیا سیاست کررہے ہیں جس میں مسلمانوں کا کوئی مفاد نہیں بلکہ ان کا اپنا ذاتی مفاد چھپا ہوا ہے ۔ جامع مسجد دہلی کو ہندوستانی مسلمانوں کے نہ صرف دینی معاملات بلکہ سماجی اور سیاسی معاملات میں بھی مرکزیت حاصل ہے بلکہ دینی معاملات میں کم اور سیاسی معاملات میں زیادہ جامع مسجد دہلی اکثر موقعوں پر سرگرم رہی ہے ۔ مثلاً 1947 میں ہندوستان کے بٹوارے کے بعد جب مسلمانوں پر سخت وقت آن پڑا تو مولانا ابوالکلام آزاد نے جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر ملک سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو اسی مسجد کا واسطہ دے کر کہا تھا کہ ’’دیکھو جامع مسجد کے مینار تم کو بلارہے ہیں‘‘ اور اس تقریر نے مسلمانوں کو ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا تھا ۔ اسی طرح جب ایمرجنسی کے دور میں اسی جامع مسجد کے اردگرد پولیس نے مسلمانوں پر گولی چلائی تو اس وقت کے شاہی امام سید عبداللہ بخاری نے مسلمانوں کی قیادت کی اور 1977 کے تاریخی پارلیمانی چناؤ میں اندرا گاندھی کے خلاف سارے ملک میں مسلمانوں کو کانگریس کے خلاف ووٹ ڈالنے کی ترغیب دی تھی ۔ پھر بابری مسجد تحریک میں بھی جامع مسجد دہلی کا اہم رول رہا تھا ۔ ظاہر ہے کہ ایسی اہم مسجد کی امامت پر قبضے کے لئے سیاسی جماعتوں کی نگاہیں تو لگی ہوئی ہوں گی ۔ یہی سبب ہے کہ جامع مسجد دہلی کی نائب امامت کا معاملہ عدالت تک پہنچ گیا ۔

آخر کار دہلی ہائی کورٹ نے اس معاملہ میں کسی قسم کی مداخلت کرنے سے انکار کردیا ۔ عدالت کے مطابق یہ قانونی معاملہ نہیں ہے ۔ کون نائب امام بنتا ہے اور کون نائب امام نہیں بنتا ہے ، اس سے عدالت کو کچھ لینا دینا نہیں ۔ لیکن افسوس خود مسلمانوں میں سے ایک صاحب عدالت تک پہنچ گئے ۔ اب ہندوستانی مسلمانوں کا یہ عالم ہے کہ مسجدوں کے صحن بھی ذاتی سیاست کی آماجگاہ بنائے جارہے ہیں ۔ وہ مساجد ہوں یا مسلم اوقاف یا پھر ہمارے دیرینہ اسکول یا قبرستان ۔ سچ یہ ہے کہ کون سا ادارہ ہے جہاں ذاتی مفاد کی سیاست نہیں ہورہی ہے ۔ اوقاف کی زمین کوڑیوں میں بیچی جارہی ہے ۔ قبرستان بلڈروں کے حوالے کئے جارہے ہیں ۔ پرانے اسکولوں میں منیجر کے لئے رسہ کشی ہورہی ہے ۔ ہر جگہ جھگڑے ہیں اور ہر جگہ کوئی نہ کوئی فرد کسی مسجد کسی وقف یا کسی اسکول پر قبضہ کرنے کی گھات میں ہے ۔ آخر یہ قوم اس حد تک کیسے پہنچ گئی !

قومیں جب ترقی کرتی ہیں تو آئے دن نئے ادارے قائم کرتی ہیں ۔ وہ جدید ادارے زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کسی قوم کی مجموعی ترقی کے ضامن ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ایسے جدید اداروں میں بہتر سے بہتر باصلاحیت افراد قوم کے مفاد کے لئے کام کرتے ہیں ، لیکن جب قومیں تنزلی کی طرف گامزن ہوتی ہیں تو ان کے درمیان چند پرانے ادارے ہی بچتے ہیں ، جن میں کچھ خود غرض افراد گھس کر ان اداروں کو ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ مسلمان ترقی کی طرف نہیں بلکہ تنزلی کی طرف گامزن ہیں ۔ آج ہندوستانی مسلمان جدید ادارے قائم کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں۔ مثلاً مسلمان جدید بینک نہیں کھول رہے ہیں۔ وہ کوئی بڑی انڈسٹری نہیں لگارہے ہیں۔ مسلمانوں نے جدیدیت سے اپنے کو جدا کررکھا ہے ۔ اس لئے ان کے یہاں نئے جدید اداروں کا قیام نہیں ہورہا ہے۔اس پس منظر میں مسلمانوں کے جو پرانے چند ادارے بچے ہیں ان پر کچھ خود غرض افراد قبضہ جما کر اس کو ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنے کی گھات میں رہتے ہیں ۔ جامع مسجد دہلی کے نائب امام کو لے کر جو سیاست ہورہی ہے وہ مسلم قوم کی نہ صرف تنزلی کی علامت ہے بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ہندوستانی مسلمان بدترین موڑ پر پہونچنے کے بعد بھی بدلنے کو تیار نہیں ہیں، افسوس صد افسوس۔ اس کے علاوہ جامع مسجد دہلی کے معاملے پر اور کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔