’ جاسوس ‘ کی گرفتاری کا ادعا

دشتِ تاریک میں نور ، پاگل نہ ڈھونڈ
آج کی آنکھ میں کل کا کاجل نہ ڈھونڈ
’ جاسوس ‘ کی گرفتاری کا ادعا
ہندوستان و پاکستان کے مابین ایسا لگتا ہے کہ امن مذاکرات کو آگے بڑھانے سے زیادہ اس کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے کی کوششیں زیادہ شدت سے کی جا رہی ہیں اور یہ مبینہ طور پر ثمر آور بھی ثابت ہور ہی ہیں۔ دونوں ملکوں کے مشیران قومی سلامتی کے مابین مذاکرات سے گذشتہ سال ہی اتفاق کیا گیا تھا لیکن جب بات چیت کی تاریخ طئے ہوگئی تو اچانک ہی پٹھان کوٹ میں انڈین ائر فورس کے اڈہ پر حملہ کردیا گیا اور بات چیت تعطل کا شکار ہوگئی ۔ اس بار یہ پہلی بار ہوا تھا کہ بات چیت کو ہندوستان نے منسوخ نہیں کیا بلکہ اسے موخر کیا گیا تھا ۔ یہ کہا جا رہا تھا کہ پاکستان کی جانب سے اس حملہ کی تحقیقات میں جو کچھ بھی کیا جاتا ہے اس کا جائزہ لینے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائیگا ۔ ہندوستان کے اس موقف کے بعد پاکستان مسلسل مشیران قومی سلامتی کی بات چیت کیلئے تاریخ کا دوبارہ تعین کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا ۔ ہندوستان نے حالانکہ ابھی اس پر کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا کیونکہ پاکستان کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو ہندوستان کا دورہ کرنے کی اجازت دی گئی تاکہ یہاں تحقیقات کا کام آگے بڑھ سکے اور خود پاکستان اپنے ملک میں اس حملہ کے ذمہ داروں اور خاطیوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرسکے ۔ اس حملہ کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کا وہ حشر نہ ہونے پائے جو ممبئی حملہ کے خاطیوں کے خلاف کارروائی کا ہو رہا ہے ۔ تاہم اچانک ہی پاکستان نے بلوچستان میں مبینہ طور پر را کے ایک ایجنٹ کی گرفتاری کا ادعا کیا ہے اور اب یہ بھی دعوی کیا جا رہا ہے کہ اس ایجنٹ سے راست طور پر ہندوستان کے مشیر قومی سلامتی اجیت ڈوول نمٹ رہے تھے ۔جس طرح کسی بھی واقعہ کے بعد ہندوستان میں مختلف گوشوں سے پاکستان سے بات چیت کو ختم کرنے کی آوازیں اٹھتی رہی ہیں اسی طرح سے پاکستان میں بھی اب خود سکیوریٹی عہدیدار اس بات چیت کے خلاف رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی کسی شخص سے بات چیت نہیں ہوسکتی جو راست طور پر ان کے ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کا ذمہ دار ہو ۔ اس طرح ایک بار پھر دونوںملکوں کے مابین بات چیت کی کوششیں بے کار ثابت ہوتی نظر آر ہی ہیں اور پھر دونوں ملکوں کے مابین بات چیت کا عمل متاثر ہوتا نظر آر ہا ہے ۔
دونوں ملک وہیں جا کھڑے ہوئے ہیں جہاں سے انہوں نے بات چیت کا عمل شروع کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا تھا ۔ پاکستان اب بلند بانگ دعوے کر رہا ہے اور اس نے تو اس مبینہ ہندوستانی جاسوس کے اقبالی بیان کا ویڈیو بھی جاری کردیا ہے جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ اس نے اپنے ہندوستانی بحریہ کے برسر خدمت عہدیدرا ہونے کا ادعا کیا ہے ۔ حکومت ہند اس عہدیدار کو سابق ملازم تو مانتی ہے لیکن اس کا حکومت سے کوئی تعلق ہونے سے انکار کرتی ہے ۔ یہ ایک ایسا پیچیدہ مسئلہ بنادیا گیا ہے جس میں دونوں ملکوںکو پیشرفت کرنے میں مشکل پیش آسکتی ہے ۔ چند دن قبل گرفتاری اور پھر اچانک اقبالی بیان کا ویڈیو تیار کرکے پیش کردینا یہ اشارہ دیتا ہے کہ یہ سب کچھ کامل حقیقت نہیں ہے ۔ اس میں کہیں نہ کہیں خود پاکستان کی خفیہ ایجنسی یا اس کے دوسرے اداروں کا رول بھی ہوسکتا ہے ۔ کسی شخص کو اگر گرفتار کرکے اس کو حراست میں اپنی مرضی کا بیان دینے کیلئے مجبور کیا جائے تو اس کے سامنے اور کوئی چارہ بھی نہیں رہ جاتا ۔ ایسے میں پولیس یا سکیوریٹی حکام کو دیا گیا بیان عدالتوںمیں بھی قابل قبول نہیں ہوتا ۔ اس کو عدالت میں اپنا بیان دہرانا پڑتا ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو حراست میں دیا گیا بیان بیکار ہوجاتا ہے ۔ یہی صورتحال اس معاملہ میں بھی نطر آتی ہے اور یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ہندوستان و پاکستان کے مابین بات چیت کا عمل شروع ہونے سے پہلے ہی رکاوٹوں کا شکار ہوگیا ہے ۔ خاص بات یہ ہے کہ اس گرفتاری کے تنازعہ میں راست ہندوستانی مشیر قومی سلامتی کونشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔
دونوں ملکوں کے مابین روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جب کبھی بات چیت کے عمل کو شروع کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں اسی وقت کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ پیش آجاتا ہے جس سے بات چیت کاعمل تعطل کا شکار ہوجاتا ہے ۔ یہ صورتحال ان عناصر کی کامیابی ہے جو نہیں چاہتے کہ دونوں ملکوں کے مابین بہتر پڑوسیوں جیسے تعلقات قائم ہوں اور حالات معمول پر آئیں۔ اس صورتحال سے حکومتوں کی سنجیدگی پر بھی سوال پیدا ہوجاتا ہے ۔ موجودہ تنازعہ کی حقیقت بھی ایسی ہی کچھ نظر آتی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بات چیت کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے کی بجائے ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ دونوں ملکوں کے مابین بات چیت کاعمل آگے بڑھ سکے ۔ جب تک بات چیت آگے نہیں بڑھے گی اس وقت تک حالات معمول پر نہیں آئیں گے اور جب تک اعتماد کی فضا پیدا نہیں ہوگی اس وقت تک تعلقات کو بہتر بنانا کسی کیلئے بھی آسان نہیں رہے گا ۔