جارحانہ فرقہ پرستی زوروں پر کے سی آر کی بی جے پی سے یکطرفہ محبت

 

نعیم وجاہت
ہندوستانی جمہوری نظام آہستہ آہستہ بکھرتا جارہا ہے بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگا کہ ایک منظم سازش کے تحت ہندوتوا طاقتیں اس کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ فرقہ پرست طاقتوں کو ملک میں کھلی چھوٹ دے دی گئی، آزادی سے قبل بھی یہ طاقتیں موجود تھیں اور آزادی کے بعد بھی اپنی سرگرمیوں کو نقاب اوڑھ کر جاری رکھا تھا۔ حالیہ دنوں میں وہ نقاب سے آزاد ہوگئیں اور نڈر طریقہ سے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہورہی ہیں تاہم حکمران قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف بے بس نظر آرہے ہیں۔ بی جے پی زیر قیادت ریاستوں میں ظلم و بربریت بہت زیادہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کہیں گائے کے نام پر تو کہیں بچہ چوری کے نام پر مسلمانوں اور دلتوں کا قتل کیا جارہا ہے۔

سیکولرازم کا دعویٰ کرنے والی سیاسی طاقتیں اپنے اپنے سیاسی و ذاتی مفادات کی تکمیل کیلئے اپنے نظریات اور اصولوں کا گلا گھونٹ رہی ہیں جس سے سماج میں جنم لینے والی برائی کو تیزی سے پھلنے پھولنے کا موقع دستیاب ہورہا ہے۔ غلطیاں، گناہ، ظلم، ناانصافی اب ڈنکے کی چوٹ پر انجام دی جانے لگی ہیں۔ غلطی کو غلط کہنے والوں کو ملک کا دشمن یا دہشت گردوں کی تائید کرنے کا ان پر لیبل لگادیا جارہا ہے۔ سماج میں غلط کاموں کی واہ واہ کرنے والوں کی تعدد بڑھتی جارہی ہے۔ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد ملک کے حالات بہت بدل گئے ہیں۔ کشمیر کے ساتھ دشمن جیسا سلوک کیا جارہا ہے، خارجی معاملات میں پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوگیا ہے۔ جانوروں کو انسانوں پر فوقیت دی جانے لگی ہے۔ ہندوستان میں 25 کروڑ مسلمان ہیں جنہوں نے پاکستان کو ٹھکرا کر ہندوستان کو اپنے گلے لگایا ہے۔ مگر آج چند مٹھی بھر گمراہ کن مسلمانوں کی وجہ سے سارے ملک کے مسلمانوں کی حب الوطنی پر شک کیا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ گوشت کھانے والے مسلمانوں کو پاکستان چلے جانے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔

اقتدار تک پہنچنے کیلئے بابری مسجد کا سہارا لینے والی بی جے پی اور ہندوتوا طاقتوں کیلئے بابری مسجد ماند پڑ گئی ہے۔ ہندو ووٹوں کو متحد کرنے کیلئے پہلے گھر واپسی، لوجہاد کے نام پر کہرام مچایا گیا۔ اس کے بعد گاؤکشی، محبت کی شادیوں اور بچہ چوری کے نام پر اقلیتوں اور دلتوں پر بے تحاشہ حملے کرتے ہوئے انھیں قتل کیا جارہا ہے۔ مگر ہندوستان میں آج بھی حقائق کو قبول کرنے اور اس کی طرف داری کرنے والوں کی کمی نہیں ہے جس پر ہندوستانیوں کو فخر ہے۔ گذشتہ سال حالات ایسے ہی خراب ہوئے تو INTOLERANCE ( عدم برداشت ) کے بطور احتجاج مختلف تتنظیموں سے تعلق رکھنے والے شعراء، ادیبوں، فنکاروں نے انہیں دیئے گئے ایوارڈس حکومت کولوٹاتے ہوئے جمہوری انداز میں اپنا احتجاج درج کرایا تھا۔ ہریانہ میں جنید کے قتل کے بعد پھر ایک بار سیول سوسائٹی کے حامیوں نے سارے ملک میں اپنا احتجاج درج کرایا ہے۔
سال دیڑ ھ سال قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے دلتوں پر حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ دلتوں کا قتل کرنے سے قبل ان کا قتل کردیں، اس دوران ملک کے کئی شہروں میں دلتوں پر حملے ہوئے ان کے قتل کئے گئے ۔ اترپردیش میں حال ہی میں ایک واقعہ پیش آیا اس پر وزیر اعظم خاموش رہے ہیں قاتلوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ دو تین دن قبل وزیر اعظم گجرات کے دورے پر تھے انہوں نے گائے کے نام پر انسانوں کا قتل کرنے کے واقعات کو گاندھی جی کے نظریات کے خلاف قرار دیا۔ دو سال تک گاؤ کشی کا ملک میں ننگا ناچ دیکھنے کے بعد ان اموات پر وزیر اعظم نے مگر مچھ کے آنسو بہائے مگر گاؤ رکھشکوںکے خلاف کارروائی کرنے کا کوئی اعلان نہیں کیا اعلان نہیں کیا اور نہ ہی ریاستوں کو ئی احکامات جار ی کئے گئے لیکن طلاق کے مسئلہ پر بی جے پی اور سنگھ پریوار کی طاقتیں ایک ہوگئیں، اس کی روک تھام کیلئے قانون سازی کی بھی تیاریاں شروع کردی۔

سپریم کورٹ میں حلف نامہ بھی داخل کردیا اور اس معاملے میں سارے مسلم سماج کوظالم قرار دینے کی پوری پوری کوششیں کی گئیں۔ اتر پردیش انتخابات کا تین طلاق اہم موضوع بن گیا ہے سارا مسلم سماج بھی اس کے خلاف ہے اور مسلم پرسنل بورڈ نے بھی سپریم کورٹ میں اپنا حلف نامہ پیش کیا مگر اس کو ساری میڈیا اورسیاسی جماعتوں نے بہت بڑا مسئلہ بناکر پیش کیا۔ پتہ تو چلا کہ مسلم خواتین کے مسائل بی جے پی اور ہندوتوا طاقتوں کو ہمدردی ہے اور میڈیا نے بھی بالخصوص قومی میڈیا نے تین طلاق کے مسئلہ پر سلسلہ وار مباحث کا اہتمام کیا، اب ان سیاسی جماعتوں، مذہبی تنظیموں، ہندوتوا طاقتوں اور میڈیا ہاوزس کی ذمہ داری ہے کہ وہ سچر کمیشن کی رپورٹ کا جائزہ لیں جس میں مسلمانوں کو پسماندہ طبقات سے بھی پسماندہ قرار دیا گیا ہے اس پر غور کریں۔ جلسوں میں تقاریر کریں اور ٹیلی ویژن پر مباحثہ کا اہتمام کریں، ہوسکے تو ان کی پسماندگی کو دور کرنے کیلئے قانون سازی کریں یا عدلیہ سے بھی رجوع ہوں، کون روکا ہے۔ اس پر کوئی توجہ کیوں نہیں دیتا۔ رنگناتھ مشرا کمیشن نے تعلیم اور ملازمتوں میں مسلمانوں کو 10فیصد اور کرسچنوں کو5 فیصد تحفظات فراہم کرنے کی سفارش کی ہے اس کو کیوں عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔ ان سفارشات کو موضوع بحث کیوں نہیں بنایا جاتا۔ بی جے پی اور ہندوتوا طاقتیں مسلمانوں کو پسماندگی پر دیئے جانے والے تحفظات کو مذہب کی عینک سے دیکھتی ہیں جبکہ ایس سی، ایس ٹی اور بی سی طبقات کو دیئے جانے والے تحفظات کو طبقہ اور پسماندگی کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایس سی، ایس ٹی اور بی سی طبقات کا شمار ہندوؤں میں نہیں ہے، اگر ہے تو دوہری طرز کی پالیسی کیوں ہے۔ جب بھی ہندوستان کی آبادی کا حساب کیا جاتا ہے تو ان پسماندہ طبقات کو ہندو قرار دیا جاتا ہے جب ووٹ لینے کی بات آتی ہے تو انھیں ہندو قرار دیا جاتا ہے مگر تحفظات کے معاملے میں زمرہ بندی کردی جاتی ہے۔ مسلمانوں میں طبقات نہیں ہے، ایس سی ایس ٹی اور بی سی طبقات کو پیشہ کے حساب سے جو تحفقات اور رعایتیں دی جائیں وہ سہولتیں دی جارہی ہیں وہی رعایتیں اور سہولتیں دی جارہی ہیں ، انہیں پیشوں سے مسلمان بھی وابستہ ہیں، مگر تحفظات سہولتیں اور رعایتوں سے اس لئے محروم کیا جارہا ہے کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔

چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر نے پھر ایک مرتبہ بی جے پی سے یکطرفہ محبت کا ثبوت دیا ہے۔ مسلم تحفظات کی مخالفت کرنے والی این ڈی اے کے صدارتی امیدوار رامناتھ کووند کی تائید کردی ہے۔ اپوزیشن کے اُسی امیدوار کو ٹھکرادیا ہے جس نے پارلیمنٹ کے دروازے اور کیمرے بند کرتے ہوئے علحدہ تلنگانہ ریاست بل کی منظوری میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ماضی میں بھی چیف منسٹر تلنگانہ نے نوٹ بندی کے معاملہ میں عوامی مشکلات کو نظر انداز کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کی تائید کی تھی۔ نوٹ بندی سے ریاست تلنگانہ کے منسوخ شدہ 500 اور 1000 روپئے کے جملہ 86 ہزار کروڑ روپئے بینکوں میں جمع ہوگئے۔ بدلے میں ابھی تک مرکزی حکومت نے ریاست کو صرف 46ہزار کروڑ روپئے کی نئی کرنسی روانہ کی ہے جس کی وجہ سے آج بینکوں اور اے ٹی ایم میں نوٹوںکی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ جی ایس ٹی کے معاملے میں بھی چیف منسٹر کے سی آر نے اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کرتے ہوئے جی ایس ٹی کی تائید کردی مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تلنگانہ کی جانب سے مرکز کو پیش کردہ 34 تجاویز کو وزیر اعظم نے مسترد کردیا۔ مرکزی وزیر فینانس ارون جیٹلی کی جانب سے دہلی میں طلب کردہ آخری جی ایس ٹی کی میٹنگ میں چیف منسٹر کے فرزند و ریاستی وزیر آئی ٹی کے ٹی آر نے شرکت کرتے ہوئے جی ایس ٹی پر عمل آوری سے تلنگانہ کو 12000 کروڑ روپئے کا نقصان ہونے کی یادداشت پیش کی تھی جبکہ وہ دن قبل ریاستی وزیر فینانس ایٹالہ راجندر نے جی ایس ٹی پر عمل آوری سے ریاست کو 19,2000 کروڑ روپئے کا نقصان ہونے کا انکشاف کیا ہے۔ عمل آوری سے قبل ایک ہفتہ میں نقصانات 7 ہزار کروڑ روپئے بڑھ گئے ہیں جب عمل آوری ہوگی تو اور بھی نقصانات بڑھ جانے کے امکانات ہیں۔ ٹی آر ایس نے تین معاملات میں مرکز کی تائید کی ہے اور تینوں مرتبہ ریاست کو نقصان پہنچا ہے۔ جبکہ چیف منسٹر اور تلنگانہ حکومت تلنگانہ کے مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے مرکز کی تائید کرنے کا دعویٰ کررہے ہوں۔ مگر ہمیشہ تلنگانہ کے مفادات کو نقصان ہی پہنچا ہے۔ ٹی آر ایس این ڈی اے کی طرف نہیں ہے۔ مگر ٹی آر ایس کا رویہ بی جے پی حلیف سے بھی بڑھ گیا ہے۔ این ڈی اے کے صدارتی امیدوار کی پرچہ نامزدگی میں چیف منسٹر کے سی آر کی شرکت اس کو ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے۔ چیف منسٹر تلنگانہ نے پارلیمنٹ میں منعقد ہونے والے جی ایس ٹی کے تاریخی پروگرام میں بھی شرکت کرنے کیلئے دہلی میں قیام کیا تھا تاہم اس پروگرام میں چیف منسٹرس کو مدعو نہ کرنے کی اطلاع ملنے کے بعد حیدرآباد لوٹ گئے ہیں۔

تشویش کی بات یہ ہے کہ بی جے پی مسلم تحفظات کے خلاف ہے، ٹی آر ایس اس کی تائید کررہی ہے۔ این ڈی اے صدارتی امیدوار رامناتھ کووند مسلم تحفظات کے مخالف ہیں اور کے سی آر ان کی تائید کررہے ہیں اور اپوزیشن کی اُس صدارتی امیدوار کو نظراندازکررہے ہیں جنہوں نے علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل میں اہم رول ادا کیا۔ 2009 تا 2014 تک پارلیمنٹ میں تلنگانہ کی آواز اُٹھانے والے حکمران جماعت کانگریس کے ارکان پارلیمنٹ کی راست و بالواسطہ مکمل تائید کی ہے۔ صدارتی انتخابات کے معاملہ میں ٹی آر ایس نے اصولوں سے زیادہ سیاسی مفادات کو اہمیت دی ہے۔ ایک ہفتہ تک دہلی میں قیام کرنے کے باوجود چیف منسٹر تلنگانہ وزیر اعظم سے ملاقات نہیں کرسکے۔ ٹی آر ایس کے ارکان پارلیمنٹ نے چیف منسٹر کے دہلی میں قیام کے دوران ایس سی طبقات کی زمرہ بندی کیلئے مرکزی حکومت سے نمائندگی کی ہے۔ تاہم 12فیصد مسلم تحفظات کو فراموش کردیا ہے۔ اس سے ٹی آر ایس کے انتخابی منشور میں مسلمانوں سے کئے گئے اہم وعدے سے ان کی قربت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مقد س ماہ رمضان میں حکومت کی جانب سے دی گئی سرکاری افطار پارٹی میں چیف منسٹر کے سی آر نے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات فراہم کرنے کے معاملے میں اتفاق کرلیا ہے بہت جلد مسلمانوں کو تعلیمی اور ملازمتوں میں 12 فیصد تحفظات فراہم ہوجائیں گے۔ اس کے دوسرے ہی سیکنڈ چیف منسٹر نے یہ بھی کہہ دیا کہ اگر مسلمانوں کو 12 فیصد فراہم نہیں کئے گئے تو تلنگانہ حکومت مرکز سے جنگ کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گی۔ یہ بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی، اگر وزیر اعظم مان گئے ہیں تو جنگ کی کیا ضرورت ہے۔ یہاں پر چیف منسٹر کے قول و فعل میں تضاد نظر آرہا ہے۔ یا تو چیف منسٹر خود دھوکہ کھارہے ہیں یا مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔

ابتداء سے 12 فیصد مسلم تحفظات کے معاملے میں ٹی آر ایس حکومت سنجیدہ نہیں ہے۔ پہلے 4 ماہ میں 12فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا، سدھیر کمیشن کی تشکیل اور اس سے رپورٹ طلب کرنے میں کافی وقت ضائع کیا گیا۔ سدھیر کمیشن کی سفارش پر بی سی کمیشن تشکیل دیا گیا، بی سی کمیشن نے مسلمانوں کو 10 فیصد تحفظات فراہم کرنے کی سفارش کی تاہم کابینہ اجلاس میں 12 فیصد مسلم تحفظات فراہم کرنے کی منظوری دی گئی اور اسمبلی و کونسل میں بھی 12 فیصد تحفظآت کے بلز منظور کرتے ہوئے مرکز کو روانہ کئے گئے جس میں بھی قانونی نقائص پائے جاتے ہیں۔وعدے و تیقنات میں ٹی آر ایس حکومت اپنی تین سالہ میعاد مکمل کرچکی ہے، لیکن مسلمان 12 فیصد تحفظات کے ثمرات سے محروم ہیں۔