ثبوت وصیت کیلئے دو گواہ ضروری

سوال :  محمد وسیم کا انتقال ہوا، ورثہ میں تین لڑکے اور دو لڑکیاں موجود ہیں۔ مرحوم کی ایک لڑکی باپ کی زندگی میں فوت ہوگئی، ان کے لڑکے ہیں۔ مرحوم نے تحریراً کوئی وصیت نہیں چھوڑی، لیکن نواسوں کا ادعاء ہے کہ مرحوم نے دو گواہوں کے روبرو نواسوں کے حق میں وصیت کی ہے۔
محمد بلال الدین، سعید آباد
جواب :  شرعاً ثبوتِ وصیت کے لئے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی ضروری ہے، یہ گواہ ’’ اشھد باللہ ‘‘ کہہ کر گواہی دیں تو غیر وارث کے حق میں تہائی مالِ متروکہ تک وصیت نافذ ہوگی ۔ درمختار علی رد المحتار جلد 4 کتاب الشھادات ص : 413, 412 میں ہے : (ونصابھا للزنا أربعۃ رجال)… (و) (لغیر ھا من الحقوق سواء کان) الحق (مالا أو غیرہ کنکاح و طلاق و وکالۃ و وصیۃ و استھلال صبی) ولو )للارث رجلان أو رجل و امرأتان) ۔
پس صورت مسئول عنہا میں مرحومہ لڑکی کے لڑکے دو گواہوں کے ذریعہ سرفراز احمد کی وصیت کو ثابت کریں تو ایک تہائی مال تک وصیت نافذ ہوگی اور اگر وہ گواہ نہ پیش کرسکیں تو ان لڑکوں کو متروکہ مرحوم سے وراثتاً کچھ نہیں ملے گا۔
تمام متروکہ محمد وسیم مرحوم کے بشرط عدم ثبوت  وصیت آٹھ حصے کر کے تینوں لڑکوں کو دو دو اور دونوں لڑکیوں کو ایک ایک حصہ دیا جائے اور اگر وصیت ثابت ہو تو متروکہ سرفراز احمد مرحوم سے بعد وضع مصارف تجہیز و تکفین و ادائی قرض جو باقی رہے، اس وصیت کی تکمیل اندرونِ تہائی مال کی جائے اور نواسوں کو وصیت کے مطابق دینے کے بعد جو باقی رہے اس کے آٹھ حصے کرکے تینوں لڑکوں کو دو دو اور دونوں لڑکیوں کو ایک ایک حصہ دیا جائے۔

فاسق و فاجر کی نماز جنازہ
سوال :  زید نے ایک غیرمسلم لڑکی سے شادی کی، وہ لڑکی اسلام قبول کرلی اور اس کا نام سلمیٰ رکھا گیا۔ زید کو سلمیٰ کے بطن سے دو لڑکیاں اور ایک لڑکا تولد ہوا ہے۔ سب شادی شدہ ہیں۔ لڑکا غلط ماحول کی وجہ سے نماز روزہ سے بالکل عاری تھا جبکہ زید نماز کا پابند اور مسجد کا ماہانہ چندہ وغیرہ ادا کرتا ہے۔ اس لڑکے کا انتقال ہوگیا ۔ کیا اسکو مسلم قبرستان میں دفن کیا جائے گا ؟
– 2  اس لڑکے نے پروایڈنٹ فنڈ اور سرویس میں بیوی کے بجائے اپنے والد زید کو نامزد کیا، اس کے ورثاء میںایک بیوی ، والدین ، دو لڑکے اور ایک لڑکی ہیں؟
کریم عابد، پھسل بنڈہ
جواب :  بے نمازی اور روزے چھوڑنے والا بے عمل شخص فاسق و فاجر ہے اور اہل السنتہ والجماعتہ کے عقیدہ میں ازروئے اجماع امت فاجر و فاسق مرجائے تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کو مسلم قبرستان میں دفن بھی کیا جائے گا۔ شرح عقائد نسفی مطبوعہ یوسفی ص : 115 میں ہے ( و یصلی علی کل بر و فاجر) اذا مات علی الایمان للاجماع و لقولہ علیہ السلام : لا تدعوا الصلاۃ علی من مات من أھل القبلۃ اور الجوہرۃ النبرۃ باب الجنائز ص : 107 میں ہے : قال علیہ السلام صلوا علی من قال لا الٰہ الأ اللہ ولا خلاف فی ذلک اور در مختار برحاشیہ رد المحتار جلد اول باب الجنائز ص : 643 میں ہے (من قتل نفسہ) ولو (عمدا یغسل و یصلی علیہ ) بہ یفتی ۔ رد المحتار میں ہے (قولہ بہ یفتی) لأنہ فاسق غیر ساع فی الأرض بالفساد و ان کان باغیا علی نفسہ کسائر فساق المسلمین۔پس صورت مسئول عنہا میں زید کے لڑکے پر نماز جنازہ پڑھی جائے اور اس کو مسلم قبرستان میں دفن کیا جائے ۔
– 2  اس کی متروکہ رقومات سے تجہیز و تکفین کے مصارف وضع کئے جاکر جس نے خرچ کئے ہیں اس کو دئے جائیں، پھر مرحوم کا قرض اور بیوہ کا زر مہر ادا کیا جائے ۔ اس کے بعد مرحوم نے اگر کسی غیر وارث کے حق میں کوئی وصیت کی ہو تو بقیہ مال کے تیسرے حصہ سے اس کی تعمیل کی جائے ۔ بعد ازاں جو باقی رہے اس کے ایک سو بیس (120) حصے کر کے بیوہ کو پندرہ (15) ، ماں باپ سے ہر ایک کو بیس بیس (20,20) ، دونوں لڑکوں کو چھبیس چھبیس (26,26) اور لڑکی کو تیرہ (13) حصے دئے جائیں۔

قبرستان میں نماز جنازہ
سوال :   قبرستان میں نماز جنازہ پڑھنا درست ہے یا نہیں ؟
محمد محبوب ، ورنگل
جواب :  نماز جنازہ چونکہ اور نمازوں کی طرح فرض عبادت ہے اسلئے طہارۃ مکان جس طرح نماز پنجگانہ کیلئے شرط ہے اسی طرح نماز جنازہ کیلئے بھی شرط ہے۔ مقبرہ میں ہر قسم کی نماز پڑھنا مکروہ ہے ۔ اس لحاظ سے نماز جنازہ بھی مقبرہ میں مکروہ ہے ۔
عینی شرح بخاری جلد 2 صفحہ 351 باب مایکرہ الصلاۃ فی القبور میں ہے : و ذھب الثوری و ابو حنیفۃ والاوزاعی الی کراہۃ الصلاۃ فی المقبرۃ۔ بدائع و صنائع جلد 1 صفحہ 115 کتاب الصلاۃ فصل شرائط الارکان میں ہے :  و قد روی عن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ نھی عن الصلاۃ فی المزبلۃ والمجزرۃ و معاطن الابل و قوارع الطریق والحمام و المقبرۃ۔ عینی شرح بخاری کی جلد 2 صفحہ 369 میں ہے : عن ابی سعید الخدری قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’ الارض کلھا مسجد الا المقبرۃ والحمام ‘‘ ۔ در مختار مطبوعہ برحاشیہ رد المحتار جلد 1 کتاب الصلاۃ میں ہے : و کذا تکرہ فی اماکن کفوق الکعبۃ و فی طریق و مزبلۃ و مجزرۃ و مقبرہ اور ممانعت کی وجہ بعض علماء نے یہ بتائی کہ مقبرے عموما نجاستوں سے خالی نہیں ہوتے کیونکہ جاہل لوگ قبروں کی آڑ میں رفع حاجت کرتے ہیں، ایسی حالت میں وہاں نماز مناسب نہیں اور بعض نے یہ کہا ہے کہ اموات کی حرمت و عزت کے خیال سے وہاں نماز مکروہ ہے ۔ عینی کی اسی جلد میں صفحہ 352 میں ہے : حکی اصحابنا اختلافا فی الحکمۃ فی النھی عن الصلاۃ فی المقبرۃ فقیل المعنی فیہ ماتحت مصلاہ من النجاسۃ ۔ اسی جگہ ہے : والذی دل علیہ کلام القاضی ان الکراہۃ لحرمۃ الموتیٰ ۔ بدائع صنائع کی جلد 1 صفحہ 115 میں ہے : و قیل معنی النھی ان المقابر لا تخلوا عن النجاسات لأن الجہال لیستقرون بما شرف من القبور فیبولون و یتغوطون خلفہ فعلیٰ ھذا لا تجوز الصلاۃ لو کان فی موضع یفعلون ذالک لا نعدام طہارۃ المکان۔ البتہ اگر مقبرہ میں کوئی ایسی پاک جگہ ہے کہ جہاں نجاست وغیرہ نہ ہو اور اس میں کوئی قبر بھی نہ ہو اور نمازیوں کے سامنے بوقت نماز کوئی قبر بھی نہ آئے تو وہاں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ رد المحتار جلد 1 صفحہ 287 کتاب الصلاۃ میں ہے : ولا باس بالصلاۃ فیھا اذا کان موضع اعد للصلاۃ و لیس فیہ قبر ولا نجاسۃ کما فی الخانیۃ  ۔ حلیۃ۔
احادیث صحیحہ میں اگرچہ یہ ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اموات کے دفن کے بعد ان کی قبر پر تشریف لیجاکر نماز پڑھی ہے جس سے مقبرہ میں نماز پڑھنا ثابت ہوتا ہے، اسی طرح اگر کوئی میت بلا نماز کے دفن کردی جائے تو اس کی قبر پر تین دن تک نماز پڑھنا درست ہے، جس سے مقبرہ میں نماز جنازہ پڑھنے کی اجازت ثابت ہوتی ہے۔ مگر ایسا بر بناء ضرورت ہے کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کی نماز جنازہ پڑھنا رحمت تھا اس لئے آپ نے بعض میت کے نماز پڑھاکر دفن کئے جانے کے بعد بھی اس کی قبر پر نماز پڑھی ہے اور یہ فرمایا کہ میری نماز رحمت ہے اور بلا نماز کے دفن کئے جانے کی صورت میں تو بربناء ضرورت قبر پر نماز پڑھنا ضروری ہے تاکہ ایک مسلم کی میت بلا نماز جنازہ نہ رہ جائے ۔

سردی کی بناء ، تیمم کرنا
سوال :  میری عمر چھیسٹھ (70) سال ہے، میں صوم و صلوۃ کی بچپن سے پابند ہوں۔ حالیہ عرصہ میں بیمار ہوا تھا، الحمد للہ اب بہتر ہوں، بسا اوقات فجر کے وقت سردی محسوس ہوتی ہے تو کیا ایسے وقت میں مجھے تیمم کی اجازت مل سکتی ہے یا مجھے وضو کرنا چا ہئے۔
عبدالودود، نامپلی
جواب :   سردی کی وجہ سے تمام ائمہ کے اجماع کے مطابق تیمم کرنا صحیح نہیں، البتہ اتنی سخت سردی ہو کہ جس کی وجہ سے عضو کے تلف ہوجانے کا اندیشہ ہو یا بیماری کے بڑھنے کا خدشہ ہو تو ایسی صورت میں تیمم کرنا درست ہے۔ نفع المفتی والسائل ص : 14 میں ہے : اذا الم تخف فوات العضو اوزیادۃ المرض وغیرہ من الاعذار المرخصۃ للتیمم لا یجوز التیمم بمجرد شدۃ البرد بالا جماع من خزانۃ الروایۃ عن الغیاثیۃ۔
لہذا حسب صراحت صدر آپ عمل کریں۔ تاہم سردی کے موقع پر آپ پانی گرم کر کے وضو کرلیا کریں تو بہتر ہے۔

معذور کا رہن کا مکان لینا
سوال :  سعودی عرب میں دوران ملازمت میری بینائی چلی گئی ۔ مجھے کچھ نظر نہیں آتا میری عمر 50 سال ہے میں شادی شدہ ہوں اور دو بچے ہیں ۔ کمپنی والے مجھے تین لاکھ روپے مدد کرکے حیدرآباد واپس بھیج دئے ۔ اب میں کچھ کرنے کے قابل نہیں رہا ۔ رشتہ دار کے مشورہ سے یہ رقم میں نے بزنس میں لگایا مجھے قریب چار ہزار روپئے منافع ماہانہ ملتا ہے اور میرے رشتہ دار بھی کچھ مدد کرتے ہیں اس طرح میرا گذر بڑی مشکل سے اس مہنگائی کے زمانے میں ہوتا ہے ۔ مجھے آپ سے دو سوال پوچھنے ہیں ۔
۱ ۔ اس رقم سے میں کوئی چھوٹا سا مکان رہن پر لیکر اس کو استعمال کرسکتا ہوں یعنی میں خود اس میں رہ سکتا ہوں ۔ کیونکہ آجکل مکانات کے کرایہ بہت زیادہ ہیں ۔ شریعت میں اس کی اجازت ہے معلوم کریں ۔
۲ ۔ تین لاکھ جو بزنس میں لگے ہوئے ہیں کیا اس میں زکوۃ دینا میرے لئے فرض ہے ۔ دوسرے رشتہ دار مجھے زکوۃ نہیں دیتے کہتے ہیں کہ تین لاکھ ہونے کی وجہ سے تم خود صاحب نصاب ہو کیا یہ بات صحیح ہے ۔ ان دو سوالات کا جواب اور کوئی حل ہو تو معلوم کریں مشکور رہوں گا ۔
عبدالصمد، مراد نگر
جواب :  رہن کے مکان سے استفادہ کی شرط پر قرضہ دے کر رہن کے مکان میں رہنا شرعاً سود ہے جو کہ حرام ہے ۔ ہاں اگر وہ بلا کسی شرط کے قرضہ دے اور مالک مکان اپنی مکمل خوشی و کامل رضامندی سے قرض دینے والے کو رہن کے مکان میں رہنے کی اجازت دیدے تو اس طرح رہن کے مکان میں رہنے کی شرعاً گنجائش ہے ۔
فتاوی شامی جلد 5 صفحہ 320 میں ہے : ثم رأیت فی جواھر الفتاوی اذاکان مشروطا صار قرضا فیہ منفعۃ و ھو ربا والافلاباس درمختار برحاشیہ ردالمختار  جلد 5 ص 320 میں ہے (لاالانتفاع بہ مطلقا) حالا باستخدام ولا سکنی ولا لبس ولا اجازہ ولا اعارۃ سواء کان من مرتھن اور راھن (الاباذن) کل لآخر
۲ ۔ تین لاکھ پر ایک سال گزر جائے تو اس کا ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کرنا لازم ہے اور ایسا شخص زکوۃ کی رقم لینے کا حقدار نہیں ۔ آپ کے رشتہ دار کا کہنا کہ آپ صاحب نصاب ہیں آپ کو زکوۃ نہیں دی جاسکتی شرعاً صحیح ہے ۔