محمد نعیم وجاہت
حیدرآبادی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا نے ویمنس ڈبلز میں عالمی سطح پر نمبر وَن مقام حاصل کرتے ہوئے ساری دنیا میں ہندوستان کا نام روشن کیا۔ اس مقام تک پہنچنے کے لئے ثانیہ نے صرف ٹینس کورٹ میں ہی جدوجہد نہیں کی، بلکہ انھیں نجی زندگی میں بھی کئی مسائل اور چیلنجس کا سامنا کرنا پڑا۔ کبھی زخموں نے ان کے بڑھتے قدم کو روکا تو کبھی تنقیدوں نے ان کے راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی۔ کئی بار حالات ناسازگار ہونے کے باوجود تلنگانہ کی برانڈ ایمبیسڈر ثانیہ مرزا نے ہار نہیں تسلیم کی، بلکہ اپنی کمزوریوں کو دور کرنے پر توجہ مرکوز کی۔ توہین آمیز ریمارکس اور تنقیدوں سے تقویت حاصل کرکے ٹینس کورٹ کو اپنے حریف کھلاڑیوں کے خلاف انھوں نے ہتھیار کے طورپر استعمال کیا اور بہتر مظاہروں کے ذریعہ ان پر کی جانے والی تنقیدوں کا منہ توڑ جواب دیا۔
دل میں اگر لگن اور کچھ کردِکھانے کا جذبہ ہو تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے اور قطرہ قطرہ سمندر بن جاتا ہے۔ شکست سے دوچار ہونے کے بعد جن لوگوں کا حوصلہ پست ہو جاتا ہے، تقدیر بھی ان کا ساتھ نہیں دیتی۔ کامیابی و کامرانی دراصل گرکر سنبھلنے والوں کا ہی قدم چومتی ہے۔ اس طرح ثانیہ مرزا کی جدوجہد اور پھر نمبر ون پوزیشن حاصل کرنا قابل ستائش ہے۔
تقریباً 20 سال قبل ٹینس راکٹ تھامنے والی ثانیہ کے سامنے کئی چیلنجس تھے۔ انھیں ٹینس سیکھنے کے لئے عالمی طرز کی سہولتیں اور کوچس دستیاب نہیں تھے، اس کے باوجود وہ مایوس نہیں ہوئیں، بلکہ اپنے کھیل کو خوب سے خوب تر بنانے پر توجہ مرکوز کی اور 2003ء میں جونیر ویمبلڈن چمپین شپ ڈبلز کا خطاب حاصل کیا۔ سارے ہندوستان نے ان کی کامیابی پر فخر کا اظہار کیا اور پارلیمنٹ میں ثانیہ مرزا کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اس وقت ہم نے ثانیہ مرزا سے روزنامہ سیاست کے لئے انٹرویو لیا تھا اور انھوں نے عالمی نمبر ون پوزیشن حاصل کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ اب بارہ سال کی جدوجہد کے بعد ثانیہ مرزا کا خواب پورا ہوا اور انھوں نے نمبر ون پوزیشن حاصل کرلی۔ ثانیہ مرزا نے یہ ثابت کردیا کہ اگر عزم و حوصلہ سے کام لیا جائے تو کوئی بھی چیز ناممکن نہیں ہے۔ انھوں نے ٹینس کی دنیا میں ہندوستانی پرچم کو بلند کرنے کے علاوہ ہندوستان کی نمبر ون پہلی خاتون ٹینس کھلاڑی ہونے کی تاریخ بھی رقم کی۔
کھیل کے میدان میں کامیابی اور شکست دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، تاہم نقادوں نے ثانیہ مرزا کی ٹینس اور ذاتی زندگی کو نشانہ بنانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا اور انھیں متنازعہ بناکر پیش کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ کامیابی، ناکامی، فٹ اور اَن فٹ کے علاوہ زخمی ہونا تقریباً ہر کھلاڑی کی زندگی کا حصہ ہوتا ہے۔ ثانیہ مرزا کی زندگی میں ایسا بھی وقت آیا، جب ان کے لئے کوئی کوچ نہیں تھا۔ اس وقت یہ تصور کیا جا رہا تھا کہ ثانیہ کا ٹینس کیریر ختم ہو گیا، لیکن انھوں نے عزم و حوصلہ کا دامن نہیں چھوڑا اور اپنی کمزوریوں کو دُور کرنے کے لئے ٹینس کورٹ میں خود کو مصروف رکھا۔ انھوں نے اپنے خلاف کی جانے والی تنقیدوں کی پرواہ نہیں کی، صرف اپنے کھیل پر توجہ مرکوز کی اور ویمنس سنگلز میں 27 واں مقام حاصل کیا۔ زخموں کے باعث وہ سنگلز اور ڈبلز پر مکمل توجہ نہیں دے پا رہی تھیں، بالآخر 2007ء میں سنگلز سے دست بردار ہوکر اپنی ساری توجہ ڈبلز پر مرکوز کردی۔ ثانیہ کا یہ فیصلہ ان کے ڈبلز کیریر کے لئے بہتر ثابت ہوا۔ انھوں نے اب تک ڈبلز کیریر میں 14 جوڑیاں بناتے ہوئے جملہ 26 خطابات حاصل کئے۔ سوئٹزرلینڈ کی سابق عالمی نمبر ون کھلاڑی مارٹینا ہنگس کے ساتھ جوڑی بناکر جاریہ سال تین خطابات حاصل کئے، جس میں امریکہ میں منعقدہ فیملی سرکل ٹائٹل بھی شامل ہے۔ اس کامیابی کے بعد ثانیہ کو عالمی سطح پر ویمنس ڈبلز میں پہلا مقام حاصل ہوا، جب کہ ہندوستان کی کسی خاتون کھلاڑی کو اب تک یہ اعزاز نہیں حاصل ہوسکا۔
ثانیہ مرزا کو اپنے کیریر میں کئی تنازعات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ان کے خلاف ہندوستانی پرچم کی توہین کا مقدمہ درج کیا گیا، ٹینس کورٹ میں پہنے جانے والے لباس کے خلاف بھی آواز اُٹھی اور اس کو اسلامی تہذیب کے خلاف قرار دیا گیا۔ ان کی شادی پر بھی تنازعہ کھڑا ہوا۔ پہلے ایک حیدرآبادی نوجوان کے ساتھ منگنی ہوئی تھی، جو بعد میں ٹوٹ گئی اور ان کی شادی پاکستانی کرکٹ کھلاڑی شعیب ملک کے ساتھ ہوگئی۔ چوں کہ شعیب ملک کی شادی پہلے بھی ایک حیدرآبادی لڑکی سے ہوچکی تھی، اس لئے یہ شادی بھی متنازعہ بن گئی تھی، تاہم بعض بااثر افراد نے مداخلت کرتے ہوئے ثانیہ اور شعیب کی شادی کی ساری رکاوٹیں دور کردیں۔ علاوہ ازیں ان کی شادی پر ملک میں بھی ہنگامہ کھڑا ہوا اور ثانیہ کی حب الوطنی پر سوال اٹھاتے ہوئے ان کی ہندوستانی شہریت منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ شادی ایک نجی معاملہ ہے، مگر اس کو بھی ملک کی سرحدوں اور سیاست سے جوڑ دیا گیا، تاہم ثانیہ مرزا نے ہندوستانی شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے مخالفین کو خاموش کردیا۔
آندھرا پردیش کی تقسیم کے بعد چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے ثانیہ مرزا کو تلنگانہ کا برانڈ ایمبیسڈر مقرر کیا، جس پر بی جے پی نے تنازعہ کھڑا کیا اور اس سے سیاسی فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی۔ بی جے پی کے قومی قائدین نے اس تنازعہ سے خود کو دور رکھا اور اپنے پارٹی قائدین کی حمایت سے انکار کردیا، اس کے باوجود بی جے پی کے تلنگانہ قائدین اپنے فیصلہ پر اٹل رہے، لیکن ثانیہ نے اپنے کھیل کے مظاہرہ سے مخالفین کے منہ بند کردیئے اور لگاتار تین خطابات جیت کر چیف منسٹر تلنگانہ کے فیصلہ کو درست ثابت کردیا۔
فی الحال ثانیہ اور شعیب کی شادی پر قیاس آرائی کی جا رہی ہے، جب کہ دونوں نے میاں بیوی کے تعلقات میں کسی طرح کی ناخوشگواری کی تردید کی ہے۔ ثانیہ کے عالمی نمبر ون پوزیشن حاصل کرنے پر ان کے شوہر شعیب ملک نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ پاکستان کے لئے بھی بہت بڑا اعزاز ہے‘‘۔
اپنی کار کردگی کے ذریعہ ثانیہ نے عالمی شہرت حاصل کی ہے۔ صدر امریکہ بارک اوباما نے دورۂ ہند کے موقع پر تاج محل کے مشاہدہ اور ثانیہ مرزا سے ملاقات کی خواہش کی تھی۔ ثانیہ مرزا کے والدین نے اپنی دختر کی کامیابیوں میں اہم رول ادا کیا ہے، کیونکہ جب وہ اپنے کیریر کے بُرے دَور سے گزر رہی تھیں تو والدین نے اُن کی حوصلہ افزائی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔