تین ہفتوں کے دوران چار ہزار سے زائد افرد علاقہ چھوڑ گئے‘ کشیدگی سے متاثرہ علاقے میں تال حال کئی افراد پھنسے ہوئے ہیں

ینگون۔ میانمار کے شمالی علاقے میں فوج او رباغیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں ہزاروں افراد اپنے گھروں کو چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں منتقل ہوگئے ۔خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے حوالے سے قائم ادار ے( او سی ایچ اے) کے سربراہ مارک کٹس کا کہنا تھا کہ چین کی سرحد سے متصل شمالی ریاست کوچین سے گذشتہ تین ہفتوں کے درمیان چار ہزار سے زائد افراد علاقہ چھوڑ گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں مقامیافراد سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ کشیدگی سے متاثرہ علاقے میں تاحال کئی افراد پھنسے ہوئے ہیں ۔ مارکٹ کٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں اس وقت سب سے گہری تشویش وہاں پر موجودحاملہ خواتین کم سن بچوں او رمعذوروں سمیت تمام شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے ہے اور ہمیں ان کے تحفظ کو یقین یبنانا ہے۔ او سی ایچ اے کی جانب سے تاحال ہلاکتوں کے حوالے سے کوئی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔

حیال رہے کہ میانمار کی ریاست راکھین میں گذشتہ برس نسلی فسادات پھوٹ پڑے تھے اور ہزاروں مسلمانو ں کے قتل عام کے بعد روہنگیا تنازع سامنے آگیا تھا او راب ملک کے شمالی علاقوں میں ایک اور نئے تنازع نے جنم لیاہے ۔

یاد رہے کہ میانمار میں مقامی بدھسٹوں کی جانب سے فوج کے تعاون سے روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کیاگیاتھا او رمسلمانوں وہاں بنگلہ دیش ہجرت کرنے پر مجبو رہوگئے تھے جبکہ عالمی سطح پر روہنگیا تنازع پر شدیدردعمل کا اظہار کیاگیا تھا ۔

میانمار کی فوج نے رواں سال اعتراف کیاتھا کہ فوجی روہنگیا مسلمانوں کے قتل میں ملوث تھے۔

میانمار کے آرمی چیف من آنگ بلانگ کے دفتر سے جاری بیان میں لاکھوں مسلمانوں کے قتل کے بعد پہلی مرتبہ فوج کے ملوث ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہاگیاتھا کہ میانمار کی سکیورٹی فورسز گذشتہ سال ستمبر میں د س روہنگیامسلمانوں کے قتل میں ملوث تھے۔

بیان میں روہنگیا مسلمانوں کودہشت گرد قراردیتے ہوئے کہاگیاتھا کہ انڈن گاؤں سے تعلق رکھنے والے چند افراد سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے دس بنگالی دہشت گردوں کو ہلاکرنے کااعتراف کیاہے۔قابل ذکر ہے کہ میانمار کی آبادی کی اکثریت بدھ مت سے تعلق رکھتی ہے۔

میانمار میں ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ روہنگی مسلمان ہیں‘ ان مسلمانوں کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر غیرقانونی بنگلہ دیشی مہاجرہیں۔ حکومت نے انھیں شہریت دینے سے انکار کردیا ہے ۔

تاہم یہ میانمار میں نسلوں در نسل مقیم ہیں۔ ریاست راکھین میں 2012سے فرقہ وارنہ تشدد جاری ہے۔ اس تشدد میں بڑی تعداد میں لوگو ں کی جانیں گئی ہیں اور ایک لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔ بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمان آج بھی خستہ کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔