کانگریس کے اچھے دن … مودی کا بھرم ٹوٹ گیا
تلنگانہ … کس نے کانگریس کو کمزور کیا ؟
رشیدالدین
لوک سبھا انتخابات سے قبل سیمی فائنل میں کانگریس کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی۔ نریندر مودی کی مقبولیت کا بھرم اب ٹوٹنے لگا ہے۔ راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کی شکست سے 2019 ء میں دوبارہ برسر اقتدار آنے کا خواب چکنا چور ہوتا دکھائی دے رہا ہے جبکہ ہندی بیلٹ میں واپسی کرتے ہوئے کانگریس نے دہلی کی سمت پیشقدمی کی ابتداء کردی ہے۔ پانچ ریاستوں میں چناؤ ہوئے تھے اور تلنگانہ میں کانگریس کو اقتدار حاصل نہ ہوسکا۔ میزورم میں مقامی علاقائی جماعت نے کانگریس سے اقتدار چھین لیا۔ بی جے پی کے قبضہ سے تین اہم ریاستوں کو حاصل کرنے کی خوشی اور جشن کے دوران تلنگانہ کی شکست کو بھلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کانگریس کو تین ریاستوں کے جشن کے ساتھ تلنگانہ کی ہزیمت کا محاسبہ کرنا ہوگا۔ وہ اس لئے کہ تلنگانہ کے نتائج غیر متوقع اور ناقابل یقین رہے۔ اگر کانگریس تلنگانہ میں شکست کی وجوہات کا جائزہ لینے میں ناکام رہتی ہے تو اس کا اثر قومی سطح پر اور لوک سبھا چناؤ پر پڑے گا ۔ تلنگانہ کے وہ رائے دہندے جو کانگریس کے حق میں دکھائی دے رہے تھے ، ایسا کیا ہوگیا کہ رائے دہی سے عین قبل صورتحال بدل گئی۔ ایسی کیا بات ہوگئی کہ عوام کے ذہن تبدیل ہوگئے۔ ان معاملات کا گہرائی سے جائزہ لیں تو پس پردہ سازش کی بو آئے گی اور اس کے ثبوت بھی ملیں گے ۔ ملک میں کانگریس کو کمزور کرنے کی سازش کے تحت اندیشہ ہے کہ بعض طاقتوں نے سازش رچی تھی ۔ کانگریس کے دہلی کے اقتدار کی طرف بڑھتے قدم روکنے بی جے پی کے ساتھ بعض علاقائی جماعتیں درپردہ سازش کر رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین نے انتخابی رجحان اور نتائج میں واضح فرق کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ٹی آر ایس اور تلگو دیشم کی درپردہ میچ فکسنگ ہوئی ہوگی۔ اگر ایسا نہ ہوتا اور ٹی آر ایس حکومت کی اسکیمات کا اثر دیکھا جاتا تب بھی اتنی نشستوں کا حصول ممکن نہیں تھا۔
غالب امکان تھا کہ معلق اسمبلی تشکیل پائے یا پھر زیادہ سے زیادہ ٹی آر ایس کو سادہ اکثریت حاصل ہو لیکن چندرا بابو نائیڈو نے کے سی آر کو 88 نشستوں تک پہنچا کر کانگریس کو کمزور کردیا۔ پوری ذمہ داری کے ساتھ ہم یہ کہنے کے موقف میں ہیں کہ دونوں پارٹیوں میں ضرور کچھ میچ فکسنگ ہوئی ہوگی ورنہ جس کا قیام کانگریس کی مخالفت پر ہوا تھا، وہ پارٹی کسی شرط کے بغیر کیونکر سرینڈر ہوگئی ۔ ایک سے زائد مرتبہ بی جے پی کے مرکز میں حلیف اور بسا اوقاف غیر بی جے پی جماعتوں کے ساتھ مل کر کانگریس کے ساتھ مہم چلانے والے چندرا بابو نائیڈو کو اچانک کانگریس سے محبت کیوں ہوگئی ۔ اصولوں سے انحراف اور سیاسی فائدہ کو ہمیشہ ترجیح دینے والے چندرا بابو نائیڈو نے کانگریس سے اتحاد کرتے ہوئے فائدہ کے بجائے نقصان پہنچا دیا ۔ کانگریس اگر تنہا مقابلہ کرتی تو شائد نتائج اس قدر مایوس کن نہ ہوتے۔ سیاسی تبدیلیوں کا تسلسل دیکھیں تو سمجھ میں آئے گا کہ کانگریس کس طرح سازش کا شکار ہوگئی ۔ انتخابات کی تیاریوں کے دوران چندرا بابو نائیڈو کا ایک بیان منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ تلگو دیشم نے ٹی آر ایس کو اتحاد کا پیشکش کیا تھا لیکن کے سی آر نے قبول نہیں کیا۔ چندرا بابو کا یہ بیان کانگریس کیلئے کافی تھا کہ وہ جاگ جاتی لیکن جب چندرا بابو نے انتخابی مفاہمت کی پیشکش کی تو فوری قبول کرلیا گیا۔ کے سی آر نے 14 برس کی جدوجہد کے بعد تلنگانہ حاصل کیا لیکن 2014 ء میں ٹی آر ایس کو 63 نشستیں حاصل ہوئی تھیں لیکن اس بار چندرا بابو نائیڈو کی مدد سے اسے 88 نشستوں پر کامیابی ملی۔ حالانکہ ٹی آر ایس کے عوامی نمائندوں کی عدم کارکردگی کے سبب عوام ناراض تھے۔ چندرا بابو نائیڈو نے منصوبہ کے مطابق تلنگانہ میں طوفانی انتخابی مہم چلائی اور کے سی آر کو نشانہ بنایا۔ چندرا بابو کی شبیہہ مخالف تلنگانہ قائد کی ہے۔ بابو کی مہم کا یہ اثر ہوا کہ عوام میں پھر ایک بار تلنگانہ جذبہ جاگ اٹھا اور کے سی آر کو صورتحال کے استحصال کا بھرپور موقع مل گیا۔ کے سی آر نے اب آندھراپردیش جانے کا اعلان کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ مخالف آندھرا شبیہہ رکھنے والے کے سی آر کے جانے اور بابو کو نشانہ بنانے سے آندھرائی جذبات تلگو دیشم کے ساتھ ہوجائیں گے اور فائدہ چندرا بابو نائیڈو کا ہوگا۔ آندھراپردیش میں وائی ایس آر کانگریس قائد جگن موہن ریڈی کی پد یاترا سے تلگو دیشم خائف ہے۔ کے سی آر کے جانے سے جگن کو نقصان ہوسکتا ہے، جس طرح تلنگانہ میں بابو کی مہم سے کانگریس کو ہوا ۔ کانگریس دراصل اس سازش کا شکار ہوگئی ۔ اتحاد کے ذریعہ چندرا بابو نے کانگریس کو آندھراپردیش میں محدود کردیا ہے جس طرح تلنگانہ میں تلگو دیشم کو چند نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا ، آندھراپردیش میں کانگریس کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے ہوئے چندرا بابو نائیڈو اپنی کامیابی کی راہ آسان کرلیں گے ۔ کانگریس کے قومی قائدین کو اب احساس ہونے لگا ہے کہ چندرا بابو نائیڈو کی دوستی نے بیڑہ غرق کردیا۔ ظاہر ہے کہ جب تین ریاستوں میں کانگریس کی لہر تھی تو پھر یہاں کیوں نہیں دکھائی دی۔ ان ریاستوں میں کانگریس نے تنہا مقابلہ کیا جبکہ تلنگانہ میں محاذ بنانے کی غلطی کی، وہ بھی تلگو دیشم کے ساتھ ۔ جگن موہن ریڈی جو تلگو دیشم کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں، وہ اگر کے سی آر کو قریب کرتے ہیں تو نقصان اٹھائیں گے۔
مرکز میں کانگریس پارٹی نے بی جے پی کا متبادل تلاش کرنے کی مہم شروع کی ہے اور اس مہم میں چندرا بابو نائیڈو ساتھ ہیں۔ دیگر علاقائی جماعتوں نے بھی مخالف بی جے پی محاذ کے قیام کی تائید کی ہے۔ دوسری طرف کے سی آر نے کانگریس اور بی جے پی کے خلاف فیڈرل فرنٹ کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پھر ایک مرتبہ کے سی آر اور چندرا بابو کی جوڑی مخالف بی جے پی طاقتوں کو منقسم کرنے کے مشن پر ہیں تاکہ فائدہ بی جے پی کو ہوجائے۔ راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں کانگریس نے بی جے پی سے اقتدار چھین لیا اور یہ راہول گاندھی کی قیادت میں اب تک کی اہم کامیابی ہے۔ کانگریس جو گزشتہ برسوں میں مسلسل ناکامیوں سے گزر رہی تھی، اس کے اچھے دن شائد لوٹ رہے ہیں۔ تینوں ریاستوں کی کامیابی نے مودی اور امیت شاہ کے وجئے رتھ کو بریک لگادیا ہے۔ نریندر مودی کی مقبولیت اور مرکز کی کارکردگی کے نام پر اب تک جو ووٹ حاصل کئے گئے ، وہ دن باقی نہیں رہے۔ ہندی بیلٹ میں کانگریس کی کامیابی دہلی کا راستہ ہموار کرسکتی ہے۔ ملک کے نقشہ پر بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کی تعداد میں کمی ہونے لگی ہے۔ پنجاب ، کرناٹک اور پانڈیچری کے بعد تین اہم ریاستیں کانگریس کے حصہ میں آئیں۔ یہ کامیابی راہول گاندھی کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ ایسے وقت میں کانگریس کو چوکس رہنا چاہئے تاکہ بی جے پی کا کوئی ہمدرد درپردہ محاذ میں شامل ہوکر کہیں نقصان نہ پہنچادیں۔ بی جے پی کو محسوس ہونے لگا ہے کہ 2019 ء کا الیکشن اس کیلئے آسان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سنگھ پریوار نے نفرت پر مبنی ایجنڈہ دوبارہ اختیار کرلیا ہے۔ رام مندر کی تعمیر کے مسئلہ پر آر ایس ایس ، وشوا ہندو پریشد اور دیگر تنظیموں کی سرگرمیوں میں اچانک تیزی پیدا ہوگئی ۔ اگرچہ اترپردیش کے عوام نے مندر کی سیاست کو مسترد کردیا اور وشوا ہندو پریشد کے دو پروگرام فلاپ شو ثابت ہوئے۔ باوجود اس کے عوام پر مندر کی سیاست کو مسلط کرنے کی کوشش جاری ہے۔ مذہبی ایجنڈہ نے ناکامی کی صورت میں بی جے پی شہرت پسند اسکیمات کا آغاز کرسکتی ہے تاکہ ملک بھر میں عوام کو ترقی اور فلاح و بہبود کے نام پر بی جے پی کے قریب لایا جاسکے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ تین اہم ریاستوں میں ناکامی بی جے پی کے زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوگی اور 2019 ء کے لوک سبھا اور چند ریاستوں میں اسمبلی انتخابات میں اسے کامیابی حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ شرط اس بات کی ہے کہ اپوزیشن مخالف بی جے پی ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچالیں۔ اترپردیش اور بہار میں جس طرح مخالف بی جے پی ووٹ متحد کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی گئی۔ ملک بھر میں اسی طرح کا تجربہ کامیابی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ تین ریاستوں کی کامیابی سے مایوس مودی اور امیت شاہ نئی حکمت عملی کی تیاری میں جٹ گئے ہیں۔ نتائج پر لکھنو کے شاعر حیدر علوی نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے ؎
ظلمتوں کا حساب باقی ہے
بے عدد بے حساب باقی ہے
تین ٹھوکر لگیں ہیں صرف ابھی
سینکڑوں کا جواب باقی ہے