تین طلاق بل ۔ قانونی زیادتی

محمد عبدالقدیر عزم
مودی حکومت نے غیرواجبی، غیرمنطقی، فضول اقدامات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ گزشتہ تیرہ ماہ میں نوٹ بندی اور پھر جی ایس ٹی کے ذریعے عمومی طور پر پورے ملک اور عوام کو پریشانی میں ڈال دیا گیا جس میں ابھی تک کمی نہیں آئی ہے۔ اور اب ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلم برادری کے پرسنل لا میں مداخلت کرتے ہوئے ’تین طلاق بل‘ کو لوک سبھا میں این ڈی اے کو حاصل اکثریت کے بل بوتے پر منظور کرالیا گیا۔ سپریم کورٹ نے چند ماہ قبل ہی تین طلاق کو ناقابل قبول اور کالعدم قرار دیا تھا۔ اب اسے عجیب اقدام نہیں تو کیا کہا جائے کہ جس بات کی قانونی طور پر کوئی حیثیت ہی نہیں، اسے مجرمانہ فعل قرار دیتے ہوئے سزا بھی تجویز کردی گئی ہے۔ تین طلاق بل جرم کو حد سے زیادہ بڑھا کر پیش کرنے والا مثالی معاملہ ہے۔ فرانسیسی فلسفی مونٹسکیو کا کہنا ہے کہ ہر وہ سزا جو قطعی ضرورت کے سبب نہ ہو، ظلم کے مترادف ہوتی ہے۔ درحقیقت، فوجداری قانون کو صرف ’’آخری ہتھکنڈہ‘‘ کے طور پر استعمال کیا جانا چاہئے اور صرف ’’نہایت مصدقہ غلطیوں‘‘ پر ہی ایسا ہونا چاہئے۔ بیجا مقاصد کیلئے فوجداری قانون کا حد سے زیادہ استعمال عصری مملکت کی تلخ حقیقت ہے۔ 1977ء سے انگلینڈ میں 3,000 نئے جرائم وضع کئے گئے ہیں اور امریکہ میں اب لگ بھگ 300,000 وفاقی جرائم ہیں۔

ہندوستان کے تعلق سے کوئی اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں، لیکن ہر سال ہم مرکز اور ریاستوں دونوں سطح پر نئے فوجداری قوانین نافذ العمل کررہے ہیں۔ طلاق ثلاثہ بل غلطی یا جرم کو حد سے زیادہ بڑھاکر پیش کرنے کی ایک اور مثال ہے۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ نے نشاندہی کردی ہے کہ تین طلاق کا وقوع غیرنمایاں ہے۔ 2G اسکام کی طرح اسے بھی غیرضروری بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ مسلم خواتین کا حقیقی مسئلہ تعلیم اور روزگار ہے۔ مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد نے یہ بل لوک سبھا میں پیش کرتے ہوئے حیرت انگیز طور پر کہا کہ سپریم کورٹ نے تین طلاق کو گناہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا یہ بل فوجداری قانون کے وسیلہ کے ذریعہ مذہبی اخلاقیات کو لاگو کرنا ہے۔ اگر کوئی فعل ’’گناہ‘‘ ہے تو گناہگار کو سزا دینے کا معاملہ خدا کے ذمہ ہونا چاہئے۔ کسی مہذب قانونی نظام کو مذہبی اخلاقیات مسلط نہیں کرنا چاہئے۔
اسی طرح ، وزیر قانون کا بعض مسلم ممالک کا حوالہ دینا بھی قابل اعتراض ہے کیونکہ یہ ممالک ہمارے جیسے دانشمندانہ فوجداری قانون کیلئے خراب مثالیں ہیں۔ ان ملکوں میں پاکستان شامل ہے۔ کیا ہندوستان اپنے پڑوسی کے دیگر قوانین کی نقل کرنے کابھی متحمل ہوسکتا ہے۔ کیا حکومت ہند اسلامی شریعت کے قوانین لاگو کرسکتی ہے جیسے زنا پر سنگسار کرنا، چوری پر ہاتھ کاٹنا وغیرہ۔ اس لئے تین طلاق بل کو کسی بھی پہلو سے حق بجانب نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں دیکھیں تو یہ معاملہ صاف ہے۔ عدالت عظمیٰ نے طلاق ثلاثہ کو مسترد کیا ہے۔ اسے ’جرم‘ کے زمرہ میں نہیں رکھا ہے مگر مودی حکومت نے اسے سنگین اور غیرضمانتی ’جرم‘ قرار دے دیا ہے۔ جب ایک وقت میں تین طلاق دینے سے طلاق ہی نہ ہوگی تو پھر اس کیلئے شوہر کو ’مجرم‘ کیسے ثابت کیا جائے گا؟ اور اگر اس ’جرم‘ میں شوہر کو جیل بھیج دیا گیا تو بیوی اور بچوں کی کفالت کا کیا ہوگا کیونکہ طلاق تو ہوگی نہیں، متعلقہ عورت بدستور اسی شوہر کے نکاح میں ہوگی۔ کیا شوہر کے گھر والے اسے قبول کریں گے اور اپنے ساتھ رکھیں گے؟
کسی نے سچ کہا ہے کہ ہمیں تین صورتوں میں فوجداری قانون کا استعمال نہیں کرنا چاہئے: اگر اس عمل میں ایسا کوئی نقصان نہیں جسے مقننہ روکنے کی سعی کرے، جہاں سزا غیرمؤثر ثابت ہوگی، اور جہاں سزا دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یعنی کہ سزا کا نقصان فی الواقعی متعلقہ فعل کی بُرائی سے کہیں بڑھ کر ہو۔ فوجداری قانون کا مقصد اس برتاؤ کو معاف کرنا اور اس کا سدباب کرنا ہوتا ہے جو غیرمنصفانہ طور پر اور غیرواجبی انداز میں کسی فرد یا سرکاری مفادات کو قابل لحاظ نقصان پہنچاتا ہے یا نقصان پہنچانے کے درپے معلوم ہوتا ہے۔ چونکہ سپریم کورٹ نے تین طلاق کو کالعدم قرار دیا ہے، اس لئے یہ عمل سے کم از کم دستور ہند کی رو سے شادی کا بندھن ختم نہیں ہوتا ہے یا سوسائٹی کی سلامتی اور بھلائی کیلئے کچھ خطرہ پیدا نہیں ہوتا ہے۔
حکومت کو لازمی طور پر چاہئے کہ کوئی بھی فعل کو مجرمانہ قرار دینے میں ’’ٹھوس سرکاری مفاد‘‘ کو ظاہر کرے۔ بہ الفاظ دیگر فوجداری قانون بنانے میں حکومت کا باضابطہ مصرحہ مقصد ہونا ضروری ہے، مجوزہ قانون اس مقصد کے حصول کیلئے ناگزیر راستہ ہو۔ اگر اسے دیگر طریقے اختیار کرتے ہوئے بنایا جائے تو مقصد حق بجانب نہیں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر حکومت کا بچوں کو فحش مواد تک رسائی سے روکنے میں واجبی مقصد ہے۔ لیکن اس مقصد کے حصول میں فلٹرس مساوی طور پر مؤثر ہیں اور اسی لئے فوجداری قانون کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نریندر مودی حکومت مسلم خواتین کی بڑی بدخدمتی کررہی ہے کیونکہ کوئی بھی شوہر جیل سے واپسی پر اُس بیوی کو برقرار نہیں رکھے گا جس کی شکایت پر اسے جیل کی سزا ہوئی۔ یہ بل کے نتیجے میں مزید طلاقیں پیش آئیں گی۔ لہٰذا، طلاق ثلاثہ سے نمٹنے کیلئے مداوا تو بیماری سے بدتر ہے۔ یہ ’’بڑے‘‘ اور ’’چھوٹے‘‘ جرائم کے درمیان امتیاز سے بھی صرفِ نظر کررہا ہے کیونکہ تین سال کی حد سے زیادہ اور غیرمتناسب سزا تجویز کی گئی ہے۔
روی شنکر پرساد نے لوک سبھا میں کہا کہ حکومت کا شریعت اسلامی میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو تین طلاق کے وقوع کو گھٹانے کیلئے شریعت کے اندرون بہترین حل کو اختیار کیا جانا چاہئے۔ اس بل کے ذریعہ تین طلاق پر پابندی کا جزو ’نکاح نامہ ‘ میں ہی لازمی طور پر شامل کردینا چاہئے تھا۔ مسلم شادی ’سیول کنٹراکٹ‘ ہونے کے ناطے شوہر اس کی تعمیل کا پابند رہے گا۔ نکاح نامہ میں یہ بھی صراحت کرسکتے ہیں کہ اس شرط کی خلاف ورزی کی صورت میں مہر کی رقم میں پانچ گنا (مثال کے طور پر) اضافہ ہوجائے گا یا بیوی کو ہرجانہ طلب کرنے کی حقدار ہوجائے گی۔